Dure-Mansoor - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ پر رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم۔
11:۔ البخاری (رح) ومسلم (رح) والترمذی (رح) (وصححہ) وابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) والطبرانی ابوالشیخ والضحاک (وصحح) وابن مردویہ (رح) وابو نعیم (رح) والبیہقی (رح) نے الدلائل میں ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' فکان قاب قوسین '' سے مراد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ ان کے چھ سو پر تھے۔ کوئی غلطی نہیں کی) یعنی رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا ان پر سبز رفرف (باریک ریشم) کے دو جوڑے ہیں اور انہوں نے آسمان اور زمین کے درمیان ساری جگہ کو بھر دیا ہے۔ جبرائیل امین (علیہ السلام) محلہ اجیاد میں ملاقات : 13:۔ ابن ابی حاتم (رح) والطبرانی (رح) وابن مردویہ (رح) نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی پہلے یہ کیفیت تھی کہ انہوں نے اپنی نیند میں جبرائیل (علیہ السلام) کو محلہ اجیاد میں دیکھا پھر آپ اپنی بعض ضرورت کے لئے باہر نکلے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے زور سے آوازدی اے محمد ﷺ اے محمد ﷺ آپ نے داہنی اور بائیں طرف دیکھا تو تین بار ایسا ہوا تو پھر آپ نے اپنی نظر کو اوپر اٹھایا تو اچانک وہ ( یعنی جبرائیل (علیہ السلام) یا افق آسمان پر اپنی ایک ٹانگ موڑ کر دوسری پر رکھے ہوئے تھے انہوں نے کہا اے محمد ﷺ میں جبرائیل ہوں میں جبرائیل ہوں پھر آپ کو اطمینان دلانے لگے تو نبی کریم ﷺ بھاگ گئے یہاں تک کہ لوگوں میں داخل ہوگئے پھر دیکھا تو کچھ بھی نظر نہ آیا پھر لوگوں میں سے نکلے پھر ان کو دیکھ لیا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ قول ہے (آیت ) '' والنجم اذا ھوی (1) ماضل صاحبکم وما غوی '' سے لیکر '' ثم دنی فتدلی '' یعنی جبرائیل (علیہ السلام) قریب ہوئے محمد ﷺ سے (آیت ) '' فکان قاب قوسین او ادنی '' میں القاب سے مراد ہے آدھی انگلی (آیت ) '' فاوحی الی عبدہ ما اوحی '' (پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر وحی نازل فرمائی جو کچھ نازل فرمائی یعنی جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جو اپنے رب عزوجل کے قریب ہوئے پھر اور زیادہ قریب ہوئے۔ 15:۔ ابن جریر (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ثم دنا '' یعنی اپنے رب کے قریب ہوئے (آیت ) '' فتدلی '' اور قریب ہوئے۔ 16:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' فکان قاب قوسین '' کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ان کے قریب ہوئے دو کمانوں کی مقدار اور عبد بن حمید (رح) نے فرمایا کہ آپ کے اور ان کے درمیان دو کمانوں کی مقدار (فاصلہ) تھا 17:۔ ابن جریر (رح) وابن المنذر (رح) نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' فکان قاب قوسین '' سے مراد ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) ان کے قریب ہوئے یہاں تک کہ ایک ذراع یا دو ذراع کا فاصلہ رہ گیا۔ 18:۔ الطبرانی وابن مردویہ والضیاء نے المختارہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' فکان قاب قوسین اوادنی '' میں القاب سے مراد ہے فاصلہ اور قوسین سے مراد ہے دوزراع۔ 19:۔ الطبرانی نے السنۃ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' قاب قوسین '' سے مراد ہے دو زراع کی مقدار القاب سے مراد ہے مقدار القوس سے مراد ہے ذراع۔ 20:۔ شقیق بن سلمہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' فکان قاب قوسین '' سے مراد ہے دو ذراع اور القوس سے مراد وہ ذراع ہے جس کے ساتھ ہر چیز کی پیمائش کی جاتی ہے۔ 21:۔ سعید بن جبیر (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے مراد وہ ذراع ہے جس سے پیمائش کی جاتی ہے۔ 22:۔ آدم بن ابی ایاس والفریابی والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' قاب قوسین '' سے مراد ہے جہاں تانت ہوتی ہے قوس میں یعنی آپ اپنے رب سے اتنے قریب ہوگئے۔ 23:۔ ابن المنذر (رح) نے مجاہد (رح) اور عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ آپ ان سے (اتنا) قریب ہوئے یہاں تک کہ آپ کے اور ان کے درمیان اتنا فاصلہ تھا جسے کمان کے دونوں کناروں سے لے کر تانت تک کے درمیان ہوتا ہے۔ 24:۔ الطبرانی نے السنۃ میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' قاب قوسین '' سے مراد ہے دو کمانوں کی مقدار۔ 25:۔ حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' قاب قوسین '' سے مراد ہے تمہاری ان قوموں میں سے دو قوموں کی مقدار۔ 26:۔ ابن المنذر (رح) وابن مردویہ (رح) نے ابوسعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ جب نبی کریم ﷺ کو آسمان پر تشریف لے گئے تو آپ اپنے رب کے قریب ہوئے (آیت ) '' فکان قاب قوسین اوادنی '' فرمایا کیا تو نے کمان کی طرف نہیں دیکھا کہ وہ تانت کے کتنا قریب ہوتی ہے۔ 27:۔ عبدبن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو ذکر کیا گیا کہ '' القاب '' سے مراد کمان کے کنارے کا وہ بچا ہوا حصہ جو تانت کے اوپر ہوتا ہے۔
Top