Urwatul-Wusqaa - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
پھر دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا
وہ قرب دو کمانوں کے برابر ہوا یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا 9 ؎ (قاب) کے معنی ہیں اندازہ ‘ مقدار یا کمان کے قبضہ سے نوک تک کا فاصلہ یعنی آدھی کمان کی لمبائی۔ (تاج العروس ‘ راغب ‘ معجم) اہل عرب کسی مسافت کا اندازہ کرنے کے لئے مختلف الفاظ بولتے تھے مثلاً کمان کے برابر ‘ ایک نیزے کے برابر ‘ ایک کوڑے کے برابر ‘ ہاتھ کے برابر ‘ بازو کے برابر ‘ باع کے برابر ‘ بالشت بھر وغیرہ وغیرہ اور (قالب ‘ قومین) میں لفظی قلب بھی تسلیم کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اصل میں یہ لفظ ” قابی قوس “ تھا یعنی کمان کے دو قاب کے برابر۔ ایک کمان کے دو قاب ہوتے ہیں یعنی وسطیٰ قبضہ سے دونوں طرف کے حصے برابر ہوتے ہیں اور دو قاب پوری کمان کے برابر ہوگئے۔ (معجم القران ) صاحب منتہی الارب نے بھی آیت میں لفظی قلب مکانی نقل کی ہے لیکن (قاب) کے معنی اندازہ اور مقدار بھی لکھا ہے اور محلی نے بھی مقدار ترجمہ کیا ہے۔ لیکن یہاں قرآن کریم کی تفسیر ہو رہی ہے اور قرآن کریم کسی لگت کا محتاج نہیں کیونکہ وہ خاص عربی زبان ہے اور کوئی زبان بھی لغت کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ لغت زبان کے مطابق تیار کی جاتی ہے اور اس کی وضاحت ہم پیچھے بہت سے مقامات پر کرچکے ہیں اس جگہ ہمارے خیال میں نہ قلب مکانی کہنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی دو کمانوں کے برابر فاصلہ قرار دینے کی کوئی ضرورت ہے کیونکہ اس جگہ کلام کی بنا عرب کے رواج اور دستور پر ہے جو اہل زبان تھے۔ عربوں میں جب دو شخص گہری دوستی اور ایک روح دو قالب ہونے کا پیمان باندھتے تھے تو ہر ایک اپنی کمان نکال کر لاتا تھا۔ پھر دونوں کمانوں کو اس طرح ملا دیا جاتا تھا کہ دونوں کے قبضے مل جاتے تھے ‘ گوشے مل جاتے تھے ‘ تانت مل جاتی تھی گویا دونوں کمانیں جڑ کر ایک ہوجاتی تھیں۔ پھر دونوں کو ملا کر ایک تیر پھینکا جاتا تھا جس کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہم دونوں ان دونوں کمانوں کی طرح ایک ہوگئے اور دونوں یک جان ہو کر دسمن کا مقابلہ کریں گے ایک کسی سے صلح کرے گا تو دوسرے کو بھی صلح ماننی پڑے گی اور اگر ایک کی کسی سے جنگ ہوگی تو دوسرے کی بھی جنگ سمجھی جائے گی۔ (کذا نقل عن مجاہد) اس طرح مطلب بالکل واضح اور صاف ہوگیا کہ عام لوگوں کے لئے تو رب کریم (حبل الورید) سے قریب ہے اور آپ ﷺ کے لئے اس طرح قریب ہے جس طرح دو کمانیں قریب ہوتی ہیں جب انہیں ملایا جاتا ہے یا اس سے بھی زیادہ اگر قرب کے لئے کوئی مثال دی جاسکتی ہے یعنی محاورہ میں اگر کوئی مزید گنجائش ہو سکتی ہے اور یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے دوسری جگہ اس طرح وضاحت فرمائی ہے کہ (وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمی ) (8 : 17) ” اے پیغمبر اسلام ! جب تم نے مٹھی بھر کر پھینکی تھی تو حقیقت میں تم نے نہیں پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی تھی۔ “ (فلم تقتلوھم ولکن اللہ قتلھم) (8 : 17) ” پھر کیا تم نے ان کو قتل کیا ؟ نہیں بلکہ ان کو اللہ نے قتل کیا “ اور اس طرح کی مثالیں اور بھی قرآن کریم سے پیش کی جاسکتی ہیں۔ پھر اس قرب میں کیا ہوا ؟ اس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
Top