Dure-Mansoor - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، قبل اس کے کہ ہم انکو پیدا کریں۔ یہ اللہ کے نزدیک آسان ہے
1۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم (کوئی مصیبت نہ زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں) یعنی نہ دنیا میں اور نہ دین میں آیت الا فی کتب من قبل ان نبرأہا۔ مگر وہ ایک کتاب میں کھی ہوئی ہے قبل اس کے کہ ہم ان کو پیدا کریں۔ آیت لکیلا تاسوا علی مافاتک یہ اس لیے ہے کہ جو چیز تم سے جاتی رہے تم اس پر غمگین نہ ہو۔ یعنی دنیا میں سے آیت ولاتفرحوا بما اٰتیکم۔ اور یعنی جو چیز تم کو دنیا میں مل جائے اس پر اترانے نہ لگو۔ 2۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے آیت ما اصاب من مصیبۃ الایۃ کے بارے میں روایت کیا کہ یہ وہ چیز ہے جس سے فراغت ہوچکی جانوں کے پیدا کرنے سے پہلے۔ 3۔ احمد والحاکم وصححہ نے ابو حسان (رح) سے روایت کیا کہ دو آدمی حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے اور کہا کہ ابوہریرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی ﷺ فرمایا کرتے تھے بدشگونی جانور میں عورت میں اور گھر میں ہے یعنی یہ بدفالی لینے کی چیزیں ہیں تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے ابو القاسم ﷺ پر قرآن اتارا اس طرح نہیں ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں لیکن رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ جاہلیت والے کہتے تھے کہ بدشگونی عورت میں۔ جانور میں اور گھر میں ہے پھر یہ آیت پڑھی ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبرأہا ان ذلک علی اللہ یسیر۔ ہر آنے والی مصیبت تقدیر میں لکھ جا چکی ہے 4۔ البیہقی نے شعب الایمان میں حسن ؓ سے روایت ہے کہ ان سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اللہ کی ذات پاک ہے اس میں کون شک کرتا ہے کہ آنے والی ہر مصیبت آسمان میں اور زمین میں کتاب میں لکھ دی گئی ہے روحوں کے پیدا کیے جانے سے پہلے۔ 5۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر واحاکم وصححہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت لکیلا تاسوا علی مافاتکم الآیۃ۔ تاکہ تم کو افسوس نہ ہو اس چیز پر جو تم سے جاتی رہے۔ یعنی کوئی انسان ایسا نہیں ہے مگر وہ غمگین بھی ہوتا ہے اور خوش بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچ جائے تو اس پر صبر کرے اور اگر اس کو کوئی خیر پہنچ جائے تو اس پر شکر ادا کرے۔ 6۔ ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے آیت ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبرأہا۔ کے بارے میں روایت کیا کہ اس آیت میں مصیبت سے مراد معاشی مصیبتیں ہیں۔ دینی مصیبتیں مراد نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آیت لکیلا تاسوا علی ما فاتکم اور یہ دین کی تکلیفیں مراد نہیں ہیں لیکن دین کے معاملات میں امن کے لیے حکم ہے کہ وہ گناہ پر غم زدہ ہوں اور نیکی پر خوش ہوں۔ 7۔ ابن المنذر نے حسن (رح) نے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ گناہ اور برائی کا فیصلہ کیا جاتا ہے آسمان میں۔ اور وہ ہر دن نئی شان میں ہوتا ہے پھر اس کے لیے ایک وقت مقرر کردیا جاتا ہے اور وہ اسے اس کے ہر مقرر وقت تک روکے رکھتا ہے پھر جب وہ مقررہ وقت آجاتا ہے تو وہ اس کو بھیج دیتا ہے اب اسے نہیں لوٹایا جاسکتا۔ وہ اس طرح ہوتا ہے کہ فلاں دن فلاں مہینے فلاں سال اور فلاں شہر میں مصیبت، قحط اور رزق نازل ہوگا اور مصیبت قحط اور رزق نازل ہوگا اور مصیبت خاص لوگوں پر بھی آتی ہے اور عام لوگوں پر بھی یہاں تک کہ ایک آدمی لاٹھی کو اٹھاتا ہے اس کے ساتھ سہارا لینے کے لیے حالانکہ وہ اس کو ناپسند ہوتی ہے پھر وہ اس کی عادت بنالیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ 8۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے ربیع بن ابی صالح (رح) سے روایت کیا کہ میں سعید بن جبیر (رح) کے پاس آیا ایک جماعت میں قوم میں سے ایک آدمی رونے لگا۔ پوچھا کیوں روتا ہے اس نے کہا میں اس لیے روتا ہوں کہ جو کچھ میں آپ میں دیکھ رہا ہوں اور اس کی وجہ سے جس کی طرف آپ کو لے جایا جارہا ہے تو آپ نے فرمایا مت رو کیونکہ وہ اللہ کے علم میں ہے کہ ایسا ہوگا کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا۔ آیت ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب من قبل ان نبرأہا۔ 9۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر نے قتادہ (رح) سے آیت ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب کے بارے میں روایت کیا کہ مصیبت سے مراد ہے بھوک اور امراض آیت من قبل ان نبرأہا یعنی ان کے پیدا کرنے سے پہلے۔ 10۔ ابن المنذر نے حسن ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مصیبت کو نازل کیا پھر اس کو اپنے پاس روک لیا پھر وہ صاحب مصیبت کو پیدا فرماتے ہیں پھر جب وہ گناہ کا کام کرتا ہے تو اس پر مصیبت کو بھیج دیتے ہیں۔ 11۔ الدیلمی نے سلیم بن جابر نجیمی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب میری امت پر تقدیر میں سے ایک دروازہ کھول دیا جائے گا آخری زمانہ میں اس کو کوئی چیز بند نہیں کرسکے گی۔ تمہارے لیے اس میں سے یہ کافی ہے کہ تم ان کو اس آیت ما اصاب من مصیبۃ فی الارض ولا فی انفسکم الا فی کتب کے ذریعہ اس سے بچاؤ۔ متکبرین کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا 12۔ عبدبن حمید و عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں قزعہ (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن عمر ؓ کو کھردرا کپڑا پہنے ہوئے دیکھا میں نے کہا اے ابو عبدالرحمن کہ میں تیرے پاس ایک نرم کپڑا لاتا ہوں جو خراسان میں بنایا جاتا ہے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی کہ میں آپ کو وہ پہنے ہوئے دیکھوں۔ کیونکہ آپ کھدرا کپڑا پہنے ہوئے ہیں تو انہوں نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں اس کو پہنوں تو میں اترانے والا اور شیخی بگھرانے والا ہوجاؤں گا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں آیت واللہ لایحب کل مختال فخور۔ اور اللہ تعالیٰ اترانے والے اور شیخی بگھارنے والے کو پسند نہیں فرماتے۔
Top