Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 199
خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ
خُذِ : پکڑیں (کریں) الْعَفْوَ : درگزر وَاْمُرْ : اور حکم دیں بِالْعُرْفِ : بھلائی کا وَاَعْرِضْ : اور منہ پھیر لیں عَنِ : سے الْجٰهِلِيْنَ : جاہل (جمع)
معاف کرنے کا اختیار کیجئے اور نیک کاموں کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے کنارہ کیجئے
(1) امام سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، بخاری، ابو داؤد، نسائی، نحاس نے ناسخ میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں عبد اللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ یہ آیت لوگوں کے اخلاق کے بارے میں نازل ہوئی (یعنی) لفظ آیت ” خزو العفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ اور دوسرے لفظ میں یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم فرمایا لوگوں کے اخلاق میں سے درگزر کو اختیار کریں۔ (2) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، طبرانی نے الاوسط میں، ابن مردویہ اور حاکم نے (آپ نے اس کو صحیح بھی کہا ہے) ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” خذو العفوا “ کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ لوگوں کے اخلاق میں درگزر کو اختیار کریں۔ (3) امام ابن ابی الدنیا نے مکارم الاخلاق میں ابراہیم بن ادھم (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت ” خذ العفوا وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ کو نازل فرمایا تو رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کے اخلاق میں سے در گزر کرنے کو اختیار کریں۔ (4) امام ابن ابی الدنیا، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے شبعی (رح) سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت ” خذ العفوا امر بالعرف واعرض عن الجھلین “ کو نازل فرمایا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا اے جبرئیل اس کا مطلب کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں یہاں تک کہ میں جاننے والے سے پوچھ لوں چناچہ جبرئیل واپس گئے پھر لوٹ کر آئے اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں جو آپ پر ظلم کرے اس کو معاف کردیا جو تم کو محروم رکھے آپ اس کو عطا کریں آپ سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑیں۔ ظلم کرنے والے سے درگزر کرنا اعلیٰ اخلاق ہے (5) امام ابن مردویہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ آیت ” حذالعفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ نازل ہوئی۔ تو نبی ﷺ نے پوچھا اے جبرئیل اس آیت کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے فرمایا (میں نہیں جانتا) یہاں تک کہ میں پوچھ لوں (اللہ تعالیٰ سے) وہ اوپر چڑھ گئے پھر نیچے اتر آئے اور فرمایا اے محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردیں جو تم کو محروم رکھے اس کو عطا کریں۔ جو آپ سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑیں پھر نبی ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو دنیا و آخرت کے اعلی ترین اخلاق نہ بتاؤں صحابہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کیا ہیں ؟ فرمایا جو تم پر ظلم کرے اس سے درگزر کرو جو تم کو محروم رکھے اس کو عطا کرو جو تم سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑیں۔ (6) امام ابن مردویہ نے قیس بن سعد بن عبادہ ؓ سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حمزہ بن عبد المطلب ؓ کو دیکھا کہ ان کو شہید کرکے ان کے اعضاء کاٹ دئیے گئے ہیں تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم کہ میں ان میں سے ستر آدمیوں کو ضرور مثلہ کروں گا (یعنی ان کے اعضاء کاٹوں گا) تو جبرئیل یہ آیت ” خذا العفوا وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ لے آئے تو آپ نے پوچھا اے جبرئیل اس کا کیا مطلب ہے ؟ انہوں نے کہا میں نہیں جانتا (وہ اوپر گئے) پھر لوٹ آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں کہ جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردیں اور جو تم سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑیں۔ جو تم کو محروم رکھے اس کو عطا کریں۔ (7) امام ابن مردویہ نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” خذو العفو “ کے بارے میں فرمایا معافی اور در گزر آپ کے مکارم اخلاق میں سے ہے۔ (8) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” خذ العفو “ کے بارے میں فرمایا لوگوں کے اخلاق اور بغیر تفتیش کے ان کے اعمال میں سے ہے۔ ” وامر بالعرف “ یعنی آپ نیکی کے ساتھ ان کو حکم کریں۔ (9) امام بخاری، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عینیہ بن حصن بن بدر اپنے بھتیجے حر بن قیس (رح) کے پاس آکر ٹھہرا اور یہ یعنی حضرت عمر ؓ کے مقربین میں سے تھے۔ حضرت عمر کے اہل مجلس قرار ہوتے تھے جوان ہوں یا بوڑھے۔ عینیہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کسی تدبیر سے تم اس امیر (یعنی عمر ؓ) سے میرے لئے اجازت لے سکتے ہو ؟ کہ وہ مجھے اپنے مجلس میں حاضر ہونے کی اجازت دیدیں۔ حر نے کہا کہ میں عنقریب تیرے لئے ان سے اجازت طلب کروں گا۔ ابن عباس نے فرمایا حر نے عینیہ کے لئے اجازت لی۔ عمر ؓ نے اس کو اجازت دیدی۔ جب وہ داخل ہوئے تو کہا اے خطاب کے بیٹے نہ تو آپ ہم کو عطیات دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرتے ہو۔ (یہ سن کر) عمر ؓ سخت غصہ ہوگئے یہاں تک کہ اسے سخت سزا دینے کا ارادہ کرلیا۔ حر نے کہا اے امیر المومنین ! اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا لفظ آیت ” خذ العفوا وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ اور یہ آدمی جاہلوں میں سے ہے۔ اللہ کی قسم ! حضرت عمر ؓ آگے نہیں بڑھے جب ان پر (یہ آیت) تلاوت کی گئی۔ اور آپ کتاب اللہ کے اسی حکم پر ٹھہر گئے۔ (10) امام ابن ابی ھاتم نے ابن وہب کے طریق سے مالک بن انس سے روایت کیا اور انہوں نے عبد اللہ بن نافع (رح) سے روایت کیا کہ سالم بن عبد اللہ ؓ اہل شام کے اونٹوں کے پاس پر گزرے اور ان میں گھنٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ ایسی گھنٹی سے منع کیا گیا ہے ان لوگوں نے کہا ہم تجھ سے اس حکم کو زیادہ جانتے ہیں کہ بڑی گھنٹی مکروہ ہے اور اس طرح کی گھنٹی میں کوئی حرج نہیں۔ تو سالم (رح) رونے لگے اور فرمایا لفظ آیت ” واعرض عن الجھلین “۔ (11) امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” خذ العفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ اخلاق ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو اس کا حکم فرمایا اور اس پر ان کی دلالت کی (یعنی ان کو بتایا) تعلق توڑنے والوں سے تعلق جوڑنا اخلاق ہے (12) امام بیہقی نے شعب الایمان میں علی ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو اولین اور آخرین کے بہترین اخلاق نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے آپ نے فرمایا جو تم کو محروم رکھے اس کو عطا کرو جو تم پر ظلم کرے اس سے درگزر کرو۔ اور جو تم سے قطع تعلق کرے تو اس سے تعلق جوڑو۔ (13) امام بیہقی نے عقبہ بن عامر ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تجھ کو دنیا اور آخرت والوں کے افضل ترین اخلاق نہ بتاؤں (وہ یہ ہیں) جو تم سے قطع تعلق کرے تم اس سے تعلق جوڑو۔ جو تم کو محروم رکھے اس کو عطا کرو جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو ۔ (14) امام بیہقی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو تجھ سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑو اور جو تجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو ۔ (15) امام بیہقی نے انس ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو تجھ سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑو۔ اور جو تجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو ۔ (16) امام بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو دنیا اور آخرت کے اچھے اخلاق نہ بتاؤں (اور وہ یہ ہیں) جو تجھ سے قطع تعلق کرے اس سے تعلق جوڑو جو تجھ کو محروم کر دے اس کع طا کرو اور جو تجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو (17) امام بیہقی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم کو دنیا اور آخرت کے مکارم اخلاق کے بارے میں نہ بتاؤں صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ضرور بتائیے فرمایا جو تجھ سے (قرابت کا رشتہ) توڑے تو اس سے جوڑ۔ جو تجھ کو محروم کر دے اس کو عطا کر دو اور جو تجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کر دو ۔ (18) امام عبد الرزاق نے مصنف میں، بیہقی نے اپنی سند سے ابن اسحاق ہمدانی سے اور انہوں نے ابن ابی حسین ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو دنیا اور آخرت والوں کے اعلی اخلاق نہ بتاؤں (وہ یہ ہیں) کہ جو تجھ سے (قرابت کا رشتہ) توڑے تو اس سے جوڑو جو تجھ کو محروم کر دے اس کو عطا کرو۔ اور جو تجھ پر ظلم کرے اس کو معاف کر دے۔ (19) امام ابن ابی الدنیا نے مکارم اخلاق میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی بندہ ہرگز صریح ایمان کو نہیں پاسکتا یہاں تک کہ جو تجھ سے قطع تعلق کرے اسی سے تعلق جوڑو۔ اور معاف کر دے اس شخص کو جو تجھ پر ظلم کرے۔ اور اس کو بخش دے جو تجھ کو گالی دے۔ اور اچھا سلوک کر اس شخص سے جو تیرے ساتھ برا سلوک کرے۔ (20) امام ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک مکارم اخلاق میں سے یہ ہے کہ تو معاف کر دے اس شخص کو جو تجھ پر ظلم کرے۔ اور اس سے (تعلق) جوڑے تو تجھ سے (قرابت کا رشتہ) توڑے اور اس کو عطا کرے جو اس کو محروم کر دے۔ پھر نبی ﷺ نے (یہ آیت) ” خذ العفو وامر بالعرف واعرض عن الجھلین “ تلاوت فرمائی۔ (21) امام ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں درگزر کرنے سے اور اس کا حکم کرنے سے۔ صلہ رحمی نہ کرنے والوں سے صلہ رحمی کرنا اعلیٰ اخلاق ہے (22) امام احمد اور طبرانی نے معاذ بن انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تمام فضائل میں افضل ترین یہ ہے کہ تو جوڑ دے اس شخص سے جو تجھ سے (قربت کا رشتہ) توڑ دے۔ اور اس کو عطا کرے جس نے تجھ کو محروم کیا اور اس سے درگزر کر جو تجھ کو گالیاں دے۔ (23) سلفی نے طیور یات میں نافع (رح) سے روایت کیا کہ ابن عمر ؓ جب سفر پر جاتے تو اپنے ساتھ ایک بیوقوف کو لے جاتے۔ تو اس سے بیوقوفوں کی بےوقوفی کو دور فرما دیتے۔ (24) امام ابن عدی اور بیہقی نے الشعب میں ابن شوذب (رح) سے روایت کیا کہ ہم مکحول کے پاس تھے اور ہمارے ساتھ سلیمان بن موسیٰ بھی تھے ایک آدمی آیا اس نے سلیمان پر بڑے فضل و احسان کا اظہار کیا اور سلیمان خاموش رہے پھر سلیمان کا بھائی آیا اور اس نے اسے جواب دے کر خاموش کردیا۔ مکحول نے فرمایا وہ شخص ذلیل ہوا جس کے پاس کوئی بیوقوف نہیں۔ (25) امام ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” خذالعفو “ یعنی لے لو جتنے کی آپ کو اجازت دی گئی ہے ان کے مالوں میں سے جو تیرے پاس کوئی چیز بھی لے کر آئیں۔ اس کو لے کو اور یہ حکم سورة براۃ میں فرائض المصدقات اور اس کی تفصیل کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔ (26) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس رضی الہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” خذالعفو “ کے بارے میں فرمایا کہ فالتو مال کو لے لو اور اسے خرچ کر دو اور ” وامر بالعرف “ میں عرف کا معنی معروف ہے یعنی نیکی کا حکم کرو۔ (27) امام طستی نے مسائل میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول ” خذالعفو “ کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا کہ اپنے مالوں میں سے فالتو مال کو لے لو۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ وہ تیرے لئے لے لیں پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اسی معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے عبید بن ابرص کو نہیں سنا کہ وہ کہتا ہے۔ یعفو عن الجھل والسوات کما یدرک غیث الربیع ذوالطرد ترجمہ : وہ جہالت اور برے کاموں کا مٹا دیتا ہے جیسا کہ موسم بہار کے موٹے قطروں والی بارش موسم خزاں کے اثرات کو مٹا دیتی ہے۔ (28) امام ابن جریر اور نخاس نے ناسخ میں سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ” خذالعفوا “ کے بارے میں فرمایا کہ مال میں سے فالتو حصہ لے لو اور اس (حکم) کو زکوٰۃ (کے حکم) نے منسوخ کردیا۔ (29) امام ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت ” خذالعفو “ نازل ہوئی تو ایک آدمی اپنے مال میں سے لے لیتا تھا جو اس کو کافی ہوتا تھا اور (باقی) زائد مال کو صدقہ کردیتا تھا۔ تو اس (حکم) کو اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے ذریعہ منسوخ فرما دیا ” وامربالعرف “ یعنی نیکی کے ساتھ (حکم کیجئے) ” واعرض عن الجھلین “ کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت نماز، زکوٰۃ اور قتال کے فرض ہونے سے پہلے نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے ان کو رکنے کا حکم فرمایا پھر اس کو قتال کے حکم نے منسوخ کردیا اور (یہ آیت) اتاری لفظ آیت ” اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا “ (الحج آیت 39) یعنی جن پر ظلم کیا گیا ان کے لئے قتال کی اجازت ہے۔
Top