Dure-Mansoor - Al-A'raaf : 204
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب قُرِئَ : پڑھا جائے الْقُرْاٰنُ : قرآن فَاسْتَمِعُوْا : تو سنو لَهٗ : اس کے لیے وَاَنْصِتُوْا : اور چپ رہو لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے
(1) امام ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مدرویہ اور ابن عساکر نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ آیت) آوازوں کو اونچا کرنے کے بارے میں نازل ہوئی حالانکہ وہ (یعنی صحابہ) نماز میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ادا کر رہے ہوں۔ (2) امام ابن جریر، اور ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا یعنی فرض نماز کے دوران قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو۔ (3) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے نماز پڑھائی تو آپ کے پیچھے صحابہ نے بھی پڑھا تو (یہ آیت نازل ہوئی) ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “۔ (4) امام سعید بن منصور اور ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز میں قرأت کرتے تھے تو آپ کے پیچھے (صھابہ) بھی اس کی مثل پڑھتے۔ جب آپ کے لئے ” بسم اللہ الرحمن “ تو وہ بھی اسی طرح کہتے یہاں تک کہ فاتحہ الکتاب اور سورة مکمل ہوجاتی پھر جتنا اللہ نے چاہا اسی طرح ہوتا رہا۔ پھر (یہ آیت) ” واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل ہوئی پھر آپ قرآت کرتے تو وہ لوگ خاموش رہتے۔ (5) امام عبد بن حمید، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے سنن میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ کے پیچھے انصار میں سے ایک آدمی نے نماز کی قرآت کی تو (یہ آیت نازل ہوئی) ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ (الآیہ) (6) امام ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم، ابو الشیخ اور ابن مردویہ نے عبد اللہ بن مفصل (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ ہر ایک آدمی پر جو قرآن کو سنے جب پڑھا جاتا ہو۔ تو اس پر واجب ہے کہ غور سے سننا اور چپ رہنا فرمایا نہیں پھر فرمایا کہ یہ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل ہوئی امام کی قرأت کے بارے میں (یعنی) جب امام پڑھے تو اس کو سنے اور خاموش رہے۔ (7) امام عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن مسعود سے روایت کیا کہ انہوں نے جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھائی کچھ لوگوں کو سنا کہ وہ ان کے پیچھے پڑھ رہے تھے جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا تمہارے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ تم سمجھو کیا تمہارے لئے مدوقت نہیں آیا کہ تم ہی یہ سمجھو لفظ آیت ” قی القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو حکم فرمایا۔ (8) امام ابن ابی شیبہ، طبرانی نے الاوسط میں اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ امام کے پیچھے قرأت کرنے کے بارے میں فرمایا قرآن کے لئے چپ ہوجاؤ جیسا کہ حکم دیا گیا کیونکہ یہ نماز میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ امام تیرے لئے کافی ہوجائے گا۔ (9) امام ابن ابی شیبہ نے علی ؓ سے روایت کیا کہ جس شخص نے امام کے پیچھے قرأت کی اس نے سنت کو چھوڑ دیا۔ (10) امام ابن ابی شیبہ نے زید بن ثابت ؓ سے روایت کیا کہ امام کے پیچھے قرأت نہیں ہے۔ (11) امام ابن ابی شیبہ نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ اس کی اقتداء کی جائے۔ جب وہ اللہ اکبر کہے تم بھی اللہ اکبر کہو جب وہ قرأت کرے تو خاموش رہو۔ (12) امام ابن ابی شیبہ نے جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس کا امام ہو تو امام کی قرأت (گویا) اس کی قرأت ہے۔ (13) امام ابن ابی شیبہ نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے انہوں نے جس نئی چیز (یعنی بدعت) کا آغاز کیا وہ امام کے پیچھے قرأت کرنا ہے۔ حالانکہ وہ پہلے قرأت نہیں کرتے۔ (14) امام ابن جریر نے زہری (رح) سے روایت کیا کہ یہ آیت انصار کے ایک جوان کے بارے میں نازل ہوئی رسول اللہ ﷺ جب بھی کوئی چیز پڑھتے وہ بھی پڑھتا۔ تو (یہ آیت) ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل ہوئی۔ (15) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے ابو العالیہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے اور قرأت کرتے تھے تو آپ صحابہ بھی آپ کے پیچھے پڑھتے تھے تو یہ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل ہوئی اس کے بعد صحابہ خاموش ہوگئے اور نبی ﷺ نے قرأت پڑھی۔ (16) امام ابو الشیخ نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ بنو اسرائیل جب ان کے امام قرأت کرتے تو وہ ان کا جواب دیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اس مات کے لئے ناپسند فرمایا اور فرمایا لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ (17) امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ نبی ﷺ قرأت کرتے تھے تو ایک آدمی بھی قرأت کرتا تھا تو (یہ آیت) ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل ہوئی۔ (18) امام عبد بن حمید اور ابو الشیخ نے طلحہ بن مصرف (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا کہ قرآن پڑھنے والے وہ آئمہ نہیں ہیں جن کے لئے ہم کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ (19) امام ابن ابی شیبہ نے مصنف میں، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم، ا بو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ لوگ نماز میں بات کیا کرتے تھے تو (یہ آیت) ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل ہوئی۔ نماز میں قرآن کی تلاوت سننا واجب ہے (20) امام ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جواب نہ دیا۔ اس سے پہلے کوئی آدمی اپنی نماز میں بات کرلیتا تھا اور اپنیکام کی بارے میں حکم بھی کرلیتا تھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون “۔ (21) امام ابن جریر ؓ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہمارا بعض آدمی بعض کو نماز میں سلام کرلیتا تو پھر قرآن مجید کا یہ حکم نازل ہوا لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “۔ (22) امام ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں عبد اللہ بن مغفل ؓ سے روایت کیا کہ لوگ نماز کی حالت میں بات کرتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون “ نازل فرمائی۔ تو نبی ﷺ نے ہم کو نماز میں بات کرنے سے منع فرمایا۔ (23) امام عبد الرزاق نے مصنف میں عطا (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ مسلمان نماز میں باتیں کرتے تھے جیسے یہود و نصاری باتیں کرتے تھے یہاں تک کہ (یہ آیت) لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون “ نازل ہوئی۔ نماز میں کلام کرنا ممنوع ہے (24) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ اس آیت کے مطابق جب سب سے پہلے حکم دیا گیا اس وقت نماز کی حالت میں باتیں کرتے تھے یہاں تک کہ ایک آدمی آتا تھا اور لوگ نماز میں ہوتے تھے۔ تو وہ اپنے ساتھ سے کہتا تھا تم نے کتنی نماز پڑھ لی۔ تو وہ کہتا تھا اتنی رکعتیں پڑھ چکی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ نازل فرمائی۔ تو سننے اور خاموش رہنے کا حکم دیا گیا اس سے معلوم ہوا کہ خاموش رہنا زیادہ بہتر ہے تاکہ بندہ غور سے سنے اور اسے یاد اور حفظ ہو اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ لوگ ہرگز نہیں سمجھ سکیں گے یہاں تک کہ وہ خاموش نہ ہوجائیں۔ اور زبان کے ساتھ خاموش رہنا اور کانوں کے ساتھ سننا ہے۔ (25) امام عبد بن حمید نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ لوگ نماز میں بات چیت کرلیتے تھے تو اللہ تعالیٰ (یہ آیت) لفظ آیت ” واذا قری القران “ آخر تک اتاری۔ (26) امام ابن ابی حاتم، ابو الشیخ، ابن مردویہ اور بیہقی نے سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ “ کے بارے میں فرمایا کی (یہ آیت) جمعہ کی نماز کے بارے میں اور عیدین کی نماز کے بارے میں اور جس نماز میں قرأت بلند آواز سے کی جاتی ہے اس کے بارے میں نازل ہوئی۔ (27) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مؤمن کو گنجائش ہے (یعنی اجازت ہے) اس کی طرف کان لگانے کی (یعنی سننے کی) صرف نماز جمعہ میں۔ عیدین کی نمازوں میں اور اس نماز میں جس میں قرأت بلند آواز سے کی جاتی ہو۔ (یعنی ان میں خود قرأت نہ کرے بلکہ کان لگا کر امام کی قرأت کو سنے) ۔ (28) امام ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیچھے نماز اور خطبہ میں آوازیں بلند کرنے کے سبب نازل ہوئی کیونکہ خطبہ بھی (گویا) نماز ہی ہے۔ (29) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا کہ (یہ حکم) نماز میں اور جمعہ کے دن خطبہ کے دوران باتیں کرنے کے بارے میں ہے۔ (30) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ خاموش رہنا دو صورتوں میں واجب ہے نماز میں کہ جب امام قرأت کر رہا ہو۔ اور جمعہ کے دن جب امام خطبہ دے رہا ہو۔ (31) امام ابو الشیخ نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عطا سے کہا کس (آیت) نے جمعہ کے دن خاموشی کو واجب کیا ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ کا قول ہے۔ لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ فرمایا کہ (اس حکم) کو لوگوں نے نماز اور جمعہ کے بارے میں گمان کیا۔ میں نے عرض کیا جمعہ کے دن خاموش رہنا اور قرأت کے دوران خاموش رہنا کیا برابر ہے ؟ فرمایا ہاں۔ (32) امام ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ حکم فرض نماز اور ذکر کے وقت ہے۔ (33) امام عبد الرزاق اور ابن منذر نے کلبی (رح) سے روایت کیا کہ لوگ اپنی آوازوں کی نماز میں بلند کرتے تھے۔ جب وہ جنت اور دوزخ کا ذکر سنتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ “۔ (34) امام ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ “ کے بارے میں فرمایا کہ نماز میں اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہو رہی ہو (خاموش رہو) (35) امام عبد الرزاق، عبد بن حمید اور ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ جب امام کسی خوف یا رحمت کی آیت پڑھے اور اس کے پیچھے کوئی آدمی۔ (یہ جائز نہیں) فرمایا خاموش رہو۔ (36) امام ابو الشیخ نے عثمان بن زائدہ (رح) سے روایت کیا کہ جب ان پر قرآن کی قرأت کی جاتی تو وہ اپنے چہرہ کو اپنے کپڑے سے ڈھانک لیتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” واذا قری القران فاستمعوا لہ وانصتوا “ سے تاویل کرتے تھے۔ اور وہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ وہ اپنی آنکھوں کو اور اپنے اعضاو جوارح کو سننے کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول کریں۔ (37) امام احمد اور بیہقی نے شعب الایمان میں سند حسن کے ساتھ ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ کی کتاب میں سے ایک آیت کی طرف کان لگائے (یعنی خوب غور سے سنے) تو اس کے لئے دگنی نیکی لکھ دی جائے گی۔ اور جو اس کی تلاوت کرے تو اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگا۔
Top