Dure-Mansoor - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے ایمان والو ! تمہیں کیا ہوا جب تم سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ میں نکل کھڑے ہو تو زمین پر بوجھل بن جاتے ہو، کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا والی زندگی پر راضی ہوگئے۔ سو دنیا والی زندگی آخرت کے مقابلہ میں بہت تھوڑی سی ہے
1:۔ سعید وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” یایھا الذین امنوا مالکم اذا قیل لکم انفروا “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت (نازل ہوئی) جب فتح مکہ غزوہ حنین کے بعد غزوہ تبوک کا حکم دیا گیا اللہ تعالیٰ نے اس کو موسم گرما میں اس وقت نکلنے کا حکم فرمایا جبکہ زمین چٹیل تھی پھل پکے ہوئے تھے اور سائے کو طبیعت چاہ رہی تھی تو (اس حال میں) ان پر نکلنا بھاری ہوا (اس پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت ) ” انفروا خفافا وثقالا “۔ 2:۔ امام حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا مستور ؓ سے روایت کیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس تھے آپس میں دنیا اور آخرت کا تذکرہ کیا گیا ان میں سے بعض نے کہا کہ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے اسی میں عمل ہے اسی میں نماز ہے اور اسی میں زکوٰۃ ہے ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ آخرت میں جنت ہے اور انہوں نے کہا کہ جو اللہ چاہیں گے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نہیں ہے دنیا آخرت کے لحاظ سے مگر جیسے کوئی تم میں سے دریا کی طرف جاتا ہے اور اپنی انگلی کو اس میں داخل کرتا ہے اور جو (پانی) اس انگلی کے ساتھ نکلتا ہے تو یہ (مقدار) ہے دنیا کی آخرت کے مقابلہ میں۔ 3:۔ احمد والترمذی اور آپ نے اس کو حسن کہا وابن ماجہ نے مستورد بن شداد ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری کرتا تھا اچانک آپ ایک بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے آپ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ (مردہ جانور) گھروالوں کے نزدیک ہے حقیر اور رسوا ہوگیا۔ جب اس کو انہوں نے پھینک دیا صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اس کی حقارت اور ذلت کی وجہ سے انہوں نے اس کو پھینک دیا۔ آپ نے فرمایا دنیا اس سے زیادہ حقیر اور ذلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جتنا یہ مردار اپنے گھروالوں کے نزدیک حقیر و ذلیل ہے۔ دنیا کا قلیل ہونا : 4:۔ امام حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے دنیا کو تھوڑا بنایا اور تھوڑے کے سوا اس میں کچھ بھی باقی نہیں جیسے ایک لومڑی کسی جوہڑ سے اس کا صاف پانی پی جاتی ہے اور اس کا گدلا پانی باقی رہ جاتا ہے۔ 5:۔ امام حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ ایک چٹائی پر آرام فرما تھے اور پہلووں میں (اس چٹائی کے نشانات تھے حضرت عمر ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اگر ہم آپ کے لئے کوئی بچھونا بنالیں جو اس سے زیادہ بہتر ہوتا تو آپ نے فرمایا مجھ کو دنیا سے کیا واسطہ اور دنیا کو مجھ سے کیا واسطہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میری مثال اور دنیا کی مثال ایک سوار کی طرح ہے جو سخت گرم دن میں چلتا رہا اور ایک درخت کے نیچے تھوڑی دیر کے لئے سایہ حاصل کرلیا پھر چل دیا اور اس (سائے) کو چھوڑدیا۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ واحمد الترمذی اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور ابن جامہ الحاکم نے ابی مسعود ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ ایک چٹائی پر سوئے پس اٹھے تو پہلووں پر اس کے نشانات پڑگئے ہم نے کہا اے اللہ کے رسول اگر ہم آپ کے لئے بچھونا بنالیتے تو کتنا اچھا ہوتا تو آپ نے فرمایا مجھے دنیا سے کیا واسطہ میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی طرح ہے جو کسی درخت کے سائے تلے بیٹھا پھر اس کو چھوڑ کر چل دیا۔ 7:۔ حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا سہیل (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ذوالحلیفہ سے گزرے اور ایک بکری کو ٹانک اوپر اٹھائے ہوئے (مرے ہوئے) دیکھا آپ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ یہ بکری اپنے مالک کے نزدیک حقیر ہے صحابہ نے عرض کیا ہاں ! یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے قبضہ میں میری جان ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس دنیا کی قیمت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ دیتا۔ 8:۔ حاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو اشعری ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص دنیا سے محبت کرے گا وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے گا اور جو شخص آخرت سے محبت کرے گا وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچائے گا تو انہوں نے ترجیح دے دی اس چیز کو جو باقی رہنے والی ہے۔ (یعنی آخرت) اس چیز پر جو ختم ہونے والی ہے (یعنی دنیا ) ۔ 9:۔ حکیم ترمذی نے نو ادر الاصول میں نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا دنیا میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی مگر اس مکھی کی طرح جو پھرتی رہتی ہے پھر میں پس اہل قبور میں سے اپنے بھائیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کئے جاتے ہیں۔ 10:۔ ترمذی اور حاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے قتادہ بن نعمان ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو دنیا سے اس طرح بچاتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی اپنے مریض کو پانی سے بچاتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں تضاد : 11:۔ احمد، الحاکم (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ابو مالک اشعری ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا دنیا کی مٹھاس آخرت کی کرواہٹ ہے اور دنیا کی کرواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے۔ 12:۔ حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے ابو جحیفہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے بہت گوشت اور ثرید (ایک قسم کا کھانا) کھایا پھر میں آیا اور نبی کریم ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا اور میں ڈکاریں لینا شروع کیں آپ نے فرمایا اپنے ڈکارکم کر کیونکہ لوگوں میں سے اکثر پیٹ بھرنے والے ہیں دنیا میں آخرت میں بھوکے ہوں گے۔ 13:۔ حاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اے عائشہ ؓ اگر تو میرے ساتھ رہنے کا ارادہ رکھتی ہے تو مجھ کو دنیا میں سے اتنا ہی کافی ہے جیسے ایک سوار کا توشہ ہوتا ہے اور تو کسی کپڑے کو بوسیدہ نہ قرار دے۔ یہاں تک کہ اس کو پیوند لگالے اور مالدار لوگوں کو مجالس سے اپنے آپ کو بچا۔ 14:۔ حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور ذھبی نے اس کو ضعیف کہا سعد بن طارق سے روایت کیا کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا کا گھر اس شخص کے لئے نعمت ہے جو اس میں سے آخرت کے لئے زاد راہ بنا لے یہاں تک کہ اس کا رب راضی ہوجائے۔ اور برا گھر اس کے لئے ہے کہ اس کو اس کی آخرت سے پھیر دے۔ اور اس کو اس کے رب کی رضا سے محروم کردے اور جب بندہ کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کا برا کرے تو دنیا کہتی ہے اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے جس نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ 15:۔ ابن ماجہ الحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے سہیل بن سعد ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ دنیا سے بےپرواہ ہوجا۔ اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت فرمائیں گے اور بےپرواہ ہوجا ان چیزوں سے جو لوگوں کے لئے ہاتھوں میں ہیں تو لوگ بھی تجھ سے محبت کریں گے۔ 16:۔ احمد الحاکم نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور اس کا راستہ ہے جب وہ دنیا سے جاتا ہے تو قید اور راستہ چھٹکارا پا جاتا ہے۔ 17:۔ حاکم والبیہقی نے حذیفہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ دنیا اس کا بڑا حصہ ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس کا کوئی واسطہ نہیں اور جس شخص نے مسلمانوں کے لئے کوئی اہتمام نہ کیا تو وہ ان میں سے نہیں ہے۔ 18۔ ابن ابی شیبہ اور حاکم نے اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابو سفیان (رح) سے روایت کیا کہ وہ اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد سلمان ؓ کے پاس ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے تو سلمان رونے لگے سعد نے پوچھا اے ابو عبداللہ کس بات نے آپ کو رلایا دیا (حالانکہ) رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی اور وہ آپ سے راضی تھے اور آپ ان کے پاس حوض (کوثر) پر جائیں گے اور آپ اپنے دوستوں سے ملیں گے۔ انہوں نے فرمایا میں موت کی گھبراہٹ سے نہیں روتا ہوں اور نہ دنیا کی حرص اور لالچ کی وجہ سے روتا ہوں لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہم سے ایک وعدہ لیا تھا کہ تمہارے پاس دنیا میں سے صرف گزارے کی مقدار ہونی چاہئے جیسے ایک سوار کا زادراہ ہوتا ہے اور میرے ارد گرد تکیے ہیں اور بلاشبہ آپ ﷺ کے ارد گرد کپڑے دھونے کا بڑا برتن پیالہ اور لوٹا ہوتا تھا۔ 19:۔ حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسا زمانہ لوگوں پر آئے گا کہ وہ مسجدوں میں حلقے بنائیں گے اور دنیا کے سوا ان کا کوئی مقصود نہ ہوگا ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں ہوگی سو ان کے پاس مت بیٹھو۔ 20:۔ حاکم نے (اور آپ نے اس کو صحیح کہا) اور ذھبی نے (اس کو ضعیف کہا) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت قریب آگئی اور لوگ دنیا کے حرص میں اور زیادہ ہورہے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے اور زیادہ دور ہورہے ہیں۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ واحمد نے زہد میں سفیان ؓ سے روایت کیا کہ حضرت عمر نے ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قیمت ایک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی نہ ملنا۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ واحمد ومسلم والترمذی والنسائی وابن ابی حاتم وابن مردویہ نے مستور (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آخرت کے م مقابلہ میں دنیا صرف اتنی ہے جیسے کوئی تم میں سے اپنی انگلی کو دریا میں ڈال کر اوپر اٹھائے پس وہ اسے دیکھے اور پہلی حالت کی طرف لوٹ آئے۔ 23:۔ عبداللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو عثمان نہدی (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے کہا کہ میں نے بصرہ کے اپنے بھائیوں سے سنا ہے وہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلے میں ایک لاکھ نیکیوں کا اجر دیتے ہیں تو ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ ایک نیکی کے بدلہ میں دو نیکیاں عطا فرماتے ہیں پھر یہ آیت پڑھی (آیت) ” فما متاع الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ الا قلیل “ یعنی دنیا میں سے جو کچھ گذر گیا اور جو کچھ اس میں سے باقی ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تھوڑا ہے اور فرمایا (آیت) ” من ذا الذی یقرض اللہ قرضا حسنا فیضعفہ لہ اضعافا کثیرۃ ‘ (البقرۃ آیت 245) یعنی کثیر اللہ تعالیٰ کے نزدیک کیسے ہوگا جبکہ دنیا میں سے جو کچھ گزر چکا اور جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک باقی ہے وہ قلیل ہے۔ 24:۔ ابن ابی حاتم نے اعمش (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فما متاع الحیوۃ الدنیا فی الاخرۃ الا قلیل “ کے بارے میں فرمایا کہ دنیا کا سامان ایسے ہے جیسے بکریاں چرانے والے کا زاد رہ ہوتا ہے۔ 25:۔ ابن ابی حاتم نے ابو حازم (رح) سے روایت کیا کہ عبدالعزیز بن مروان کو موت حاضر ہوئی تو انہوں نے کہا میرے پاس میرا کفن لے آؤ جس میں مجھے کفن دو گے جب ان کے آگے رکھا گیا تو اس کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میرا حال تو کثیر ہے کیا مجھے دنیا میں سے صرف اتنا ہی دیا جائے گا پھر اپنی پیٹھ پھیری اور ورنے لگے اور فرمایا اے دنیا کا گھر تجھ پر افسوس ہے بلاشبہ تیرا کثیر قلیل ہے اور تیرا قلیل کثیر ہے اور ہم تجھ سے دھوکہ میں تھے۔
Top