Fahm-ul-Quran - Al-Anfaal : 4
اُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا١ؕ لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ
اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع) حَقًّا : سچے لَهُمْ : ان کے لیے دَرَجٰتٌ : درجے عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب وَمَغْفِرَةٌ : اور بخشش وَّرِزْقٌ : اور رزق كَرِيْمٌ : عزت والا
یہی لوگ سچے مومن ہیں انہی کے لیے ان کے رب کے پاس بہت سے درجے اور بڑی بخشش اور بہترین رزق ہے۔ “ (4)
فہم القرآن ربط کلام : انفال کے بارے چند بنیادی احکام کے بعد غزوۂ بدر کی چند تفصیلات کہ غنیمتیں کیوں اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ رسول محترم اور آپ کے عظیم رفقاء نے مکہ میں تیرہ سال بےپناہ مصائب و آلام کا سامنا کیا بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے مکہ والوں نے آخر وقت تک آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خیر و سلامتی کے ساتھ آپ کو مدینہ طیبہ پہنچا دیا۔ یہاں پہنچ کر رسول معظم ﷺ نے مسلمانوں میں مواخات قائم فرمائی اور یہودیوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے نام سے ایک معاہدہ کیا۔ جس میں فریقین کے حلیف قبیلے بھی شامل تھے۔ عبداللہ بن ابی جسے آپ کی آمد سے پہلے اہل مدینہ نے اپنا سربراہ بنانے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ آپ کی تشریف آوری کی وجہ سے اس منصب سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا۔ اس نے آپ کی شخصیت اور منصوبہ بندی سے مرعوب ہو کر بظاہر کلمہ پڑھا۔ منافقت کا لبادہ پہن کر مدینہ کے یہودیوں اور مکہ والوں کے ساتھ ساز باز کا منصوبہ بنایا جس بنا پر مکہ والوں کو مدینہ کے بارے میں پل پل کی خبر دیا کرتا تھا۔ عقیدے کا اختلاف اور رسول محترم ﷺ کا اہل مکہ سے بچ نکلنا اور مدینہ میں آپ کی منصوبہ بندی کو اہل مکہ کس طرح برداشت کرسکتے تھے اس لیے انھوں نے خفیہ طور پر مدینہ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنایا جس کے لیے کثیر سرمایہ کی ضرورت تھی اسی خاطر انھوں نے
Top