Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Ibrahim : 35
وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجْنُبْنِیْ وَ بَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَؕ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
اِبْرٰهِيْمُ
: ابراہیم
رَبِّ
: اے میرے رب
اجْعَلْ
: بنا دے
هٰذَا الْبَلَدَ
: یہ شہر
اٰمِنًا
: امن کی جگہ
وَّاجْنُبْنِيْ
: اور مجھے دور رکھ
وَبَنِيَّ
: اور میری اولاد
اَنْ
: کہ
نَّعْبُدَ
: ہم پرستش کریں
الْاَصْنَامَ
: بت (جمع)
” یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ” اس شہر (یعنی مکہ) کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا ۔
آیت نمبر 35 تا 41 اس منظر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیت اللہ کے پاس کھڑے نظر آتے ہیں۔ بیت اللہ کی تعمیر انہوں نے کردی ہے اور یہ وہی بیت اللہ ہے جس کی تولیت اب قریش تک آپہنچی ہے۔ اور ذرا دیکھو ان کو ، یہ اللہ کے ساتھ کفر بیت اللہ میں کرتے ہیں۔ اور یہ کفر وہ اس گھر میں کرتے ہیں جس کے بنانے والے نے اسے صرف اللہ کی بندگی کے لئے بنایا تھا۔ قرآن کریم اس منظر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک عاجزی کرنے والا ، اللہ سے نہایت ڈرنے والا ، ذکر و شکر کرنے والا ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس لیے کہ قریش ذرا غور کریں اور اپنے انکار اور ہٹ دھرمی کو ترک کر کے دعوت اسلامی کا اعتراف کرلیں ، کفر کے بجائے شکر کریں ، غفلت کے بجائے نصیحت حاصل کریں اور ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہونے کے دعویٰ کے ساتھ ساتھ وہ جو بدراہ و گمراہ ہوگئے ، واپس ان کی اصلی راہ پر آجائیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیروی کر کے راہ ہدایت پر آجائیں۔ رب اجعل ھذا البلد امنا (14 : 35) ” پروردگار ، اس شہر (یعنی مکہ ) کو امن کا شہر بنا دے “۔ امن وہ نعمت ہے جو ہر انسان کی ضرورت ہے۔ انسان کے احساسات پر امن بہت اثر کرتا ہے ، کیونکہ انسان کی زندگی جاری ہی امن سے رہ سکتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعائے امن کو اس لیے لایا گیا ہے کہ اہل مکہ کو بتایا جائے کہ ذرا عقل کے ناخن لو اور اس شہر کے امن کو تباہ نہ کرو ، بڑی دعاؤں کے بعد یہ ملا ہے ۔ تم ایک طویل عرصہ ہوا اس سے فائدہ اٹھاتے رہے ہو اور خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کرتے ہو اور شکر نہیں کرتے۔ یہ امن اس شہر کو تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعاؤں سے حاصل ہوا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقے اور دین کو چھوڑ چکے ہو ، اور یوں نا شکری کرتے ہو۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ اس خانہ توحید میں تم نے اللہ کے شریکوں کے بت رکھ چھوڑے ہیں ، تم اس شہر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین اور اللہ کی راہ سے لوگوں کو روکتے ہو ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے اس حصے پر تو غور کرو۔ واجنبنی وبنی ان نعبد الاصنام ( 14 : 35) ” اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رب کے سامنے تسلیم و رضا کے پیکر ہیں۔ اور دل کی گہرائیوں سے التجا کر رہے ہیں۔ دعا یہ ہے کہ اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچائیو ، آپ اپنی دعا میں مدد بھی طلب فرماتے ہیں اور راہنمائی بھی چاہتے ہیں۔ اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس ہدایت کو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے دل شرک اور بت پرستی کی تاریکیوں سے نکل آتا ہے اور جہالت کے بدلے علم اور تاریکی کے بدلے روشنی پاتا ہے۔ یعنی ایمان باللہ اور توحید کی ہدایت اور روشنی ۔ توحید میں آخر انسان حیرت اور پریشانی کے تہ بہ تہ اندھیروں سے نکل جاتا ہے اور گمراہی اور بدکرداری سے بچ نکلتا ہے ۔ وہ روشن دماغ ، پرسکون اور برقرار ہوتا ہے اور مختلف الہٰوں اور خداؤں کی بندگی سے نکل کر اور ذلت اور غلامی سے نکل کر ، ایک خدا کی نہایت ہی باعزت بندگی میں داخل ہوتا ہے اور ایک آزاد زندگی پاتا ہے۔ یہ وہ انعامات ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر رب تعالیٰ نے کر رکھے تھے۔ اب وہ دعا کرتے ہیں کہ یہ انعامات برقرار ہیں۔ وہ بھی اور ان کی اولاد بھی بت پرستی کی لعنت سے دور رہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) یہ دعا اس لیے کرتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے ما حول میں ان کی ہم عصر نسلوں میں سے اکثریت کو بت پرستی نے گمراہ کر رکھا ہے ، سابقہ لوگ بھی اس میں مبتلائے ہوئے اور خلق کثیر کو ان بتوں نے گمراہ کیا۔ رب انھن اضللن کثیرا من الناس (14 : 36) ” اے رب ، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈال دیا ہے “۔ اب یہ دعا اعلان کا رنگ اختیار کرتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ جو شخص میرے طریقے کو اپنائے گا وہی میرا ہوگا ، وہ میری طرف نسبت کرسکے گا ، اور قیامت میں میرے ساتھیوں میں سے ہوگا۔ ایمان اور نظریہ کا رفیق ہوگا۔ فمن تبعنی فانہ منی (14 : 36) ” لہٰذا ان میں سے جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے “۔ اور جو میرے طریقے کو چھوڑ دے تو اس کا انجام میں تیرے سپرد کرتا ہوں۔ ومن عصانی فانک غفور رحیم (14 : 36) “ اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو ، تو درگزر کرنے والا مہربان ہے ” ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کس قدر مہربان ، رحیم اور بردباد اور صبر کرنے والے تھے۔ اس لیے وہ ان لوگوں کی ہلاکت کا مطالبہ نہیں کرتے۔ جو لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقوں کو نہیں اپناتے اور ادھر ادھر ہوجاتے ہیں ، آپ ان کے لئے عذاب میں جلدی نہیں فرماتے بلکہ عذاب کا تذکرہ ہی نہیں کرتے۔ آپ ان لوگوں کو جو حضرت کے طریقوں سے ہٹ جاتے ہیں ، اللہ کے رحم و کرم کے سپرد کرتے ہیں ، عفو و درگزر کے حوالے کرتے ہیں۔ چناچہ اس فضا پر رحمت اور مغفرت کے سائے پھیل جاتے ہیں اور رحمت و شفقت اور معرفت کے ان سایوں کے نتیجے میں معصیت کی فضا دب جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) معصیت کی فضا کو کھولتے نہیں ، پس منظر میں لے جاتے ہیں۔ اب اس سے آگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ کے سامنے یہ درخواست پیش فرماتے ہیں کہ اے اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ میں نے اپنی اولاد میں سے بعض لوگوں کو اس بنجر وادی میں مستقلاً آباد کردیا ہے۔ جو بیت اللہ کے قریب ہونے کے سوا بنجر اور پسماندہ ہے اور یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو یہاں بسانے کا مقصد کیا ہے۔ ربنا انی اسکنت۔۔۔۔۔ بیتک المحرم (14 : 37) “ اے میرے رب ، میں نے اس بےآب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے ساتھ لا بسایا ہے ”۔ یہ کیوں ؟ ربنا لیقیموا الصلوٰۃ (14 : 37) “ پروردگار ، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں ”۔ فقط اقامت صلوٰہ مقصد ہے اور صرف اس مقصد کے لئے اس بنجر اور خشک وادی میں ان کو بسایا ہے۔ فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیھم (14 : 37) “ لہٰذا لوگوں کے دلوں کو ان کا مشتاق بنا ”۔ دعا میں کس قدر رقت ہے اور فضا میں کس قدر سرور ہے ، دل میں رقت پیدا ہوتی ہے اور مشتاقان دید اڑ اڑ کر اس شہر پر گرتے نظر آتے ہیں۔ اس وادی غیر ذی زرع اور خشک و بنجر کی طرف عاشقوں کے قافلے رواں دواں ہیں۔ غرض اس دعا کے اندر اس قدر ترو تازگی ہے اور دعا کے اندر اس قدر رقت ہے کہ قریب ہے کہ پوری کائنات کے آنسو اس وادی کو تر کردیں۔ وارزقھم من الثمرات (14 : 37) “ اور انہیں کھانے کو پھل دے ”۔ اور یہ پھل ان کو ان لوگوں کے ذریعہ ملیں جو ہر طرف سے اس گھر اور ان لوگوں پر پروانوں کی طرح آکر گریں۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ وہ کھائیں پئیں اور مزے کریں ، اور اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جیسے شکر گزار ہونے کی خواہش ظاہر ہے کہ یہی ہے۔ لعلھم یشکرون ( 14 : 37) “ شاید یہ شکر گزار بنیں ”۔ چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اولاد کو بیت اللہ کے پڑوس میں آباد کرتے ہیں اور سیاق کلام سے اس کا مقصد یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہاں رہ کر نمازوں کو قائم کریں جس طرح نماز کو قائم کرنے کا طریقہ ہوتا ہے ۔ نیز حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس دعا کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس خواہش کے پیچھے صرف یہ جذبہ ہے کہ لوگ اللہ کے شکر گزارہوں۔ لوگوں کے دل بیت اللہ اور اہل بیت اللہ کی طرف کھچ آئیں ، پھر لوگوں کے اس اجتماع سے ان کے لئے پھلوں اور غلوں کی شکل میں خوراک فراہم ہو اور اس کے جواب میں یہ لوگ اللہ کا شکر ادا کریں۔ اس دعا کی روشنی میں قرآن کریم اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ قریش جس مقصد کے لئے بیت اللہ کے قریب بسائے گئے تھے انہوں نے وہ مقصد ترک کردیا ہے۔ نہ وہ اللہ کے لئے نماز قائم کرتے ہیں اور نہ اللہ کے ان انعامات پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں حالانکہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوچکی ہے ۔ بیت اللہ پر لوگوں کا اجتماع جاری ہے اور پھل اور فروٹ ہر طرف سے ان کے لئے وافر مقدار میں آرہے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اس دعا پر ، کہ اس نے اپنی اولاد کو یہاں بسایا ہے اور ان کو پھل اور دوسری ضروریات فراہم ہوں ، تا کہ وہ نماز قائم کریں اور اللہ کا شکر ادا کریں ، اب خود تبصرہ فرماتے ہیں کہ اللہ تو سب لوگوں کے دلوں کی خواہشات کو جانتا ہے خواہ ظاہری ہوں یا خفیہ ہوں۔ اگر کوئی خدا کے خوف سے نماز پڑھتا ہے اور شکر کرتا ہے تو اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی طرف توجہ میں مظاہر کی اہمیت نہیں ہے ، جس طرح یہ لوگ بیت اللہ میں تالیاں بجاتے اور سیٹیاں بجاتے ہیں۔ عبادت اور دعا تو اصل وہ ہوتی ہے جس میں کسی کا قلب و ضمیر اللہ کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ اللہ سے کسی کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ تو زمین و آسمان میں ظاہر و خفیہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ربنا انک تعلم ۔۔۔۔۔۔ فی السماء (14 : 37) “ پروردگار ، تو جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ”۔ اور واقعی اللہ کچھ بھی چھپا ہوا نہیں ہے ، نہ زمین مین نہ آسمانوں میں ”۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سابقہ مہربانیوں کو یاد کر کے اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور حمد کرتے ہیں۔ الحمد للہ الذی ۔۔۔۔۔ لسمیع الدعاء (14 : 39) “ شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے اس بڑھ اپنے میں اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) جیسے بیٹے دئیے ، حقیقت یہ ہے کہ میرا رب ضرور دعا سنتا ہے ”۔ اگر کسی کو بڑھاپے میں اولاد دے دی جائے جبکہ اس سے قبل اس کی اولاد نہ ہو تو اس پر بہت زیادہ اثر ہوتا ہے کیونکہ اولاد دراصل انسانی زندگی کا تسلسل ہے۔ اگر انسان کی زندگی قریب الاختتام ہو اور اسے غیر متوقع طور پر اولاد مل جائے تو یہ نہایت ہی اطمینان کی بات ہوتی ہے کیونکہ انسانی نفس ہمیشہ یہ ضرورت محسوس کرتا ہے کہ اس کی اولاد ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم حمد باری کرتے ہیں اور اللہ کی مزید رحمت کے امیداوار ہیں۔ اب اس شکر اور حمد کے بعد یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ مجھے شکر ادا کرنے اور حمد باری تعالیٰ پر مداومت عطا فرما ، کہ میں تیری عبادت کرتا رہوں ، اطاعت کرتا رہوں۔ یوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے اس عزم کو اظہار کرتے ہیں کہ وہ شکر کرتے رہیں گے ، عبادت الٰہی کرتے رہیں گے اور یہ دعا اس ڈر سے کر رہے ہیں کہ کہیں اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہوجائے ، کوئی امر ان کو اس سے موڑ نہ دے۔ چناچہ اپنے اس عزم کو بھی اب اللہ کی امداد سے جاری رکھنے کی دعا کرتے ہیں۔ رب اجعلنی۔۔۔۔۔ وتقبل دعاء ( 14 : 40) “ اے میرے پروردگار ، مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں ) ۔ پروردگار ، میر دعا قبول کر ”۔ ایک بار پھر ہمیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کی اولاد اہل قریش کے موقف میں مکمل تضاد نظر آتا ہے ، ابراہیم (علیہ السلام) اللہ سے اس بات کے لئے مدد طلب کرتے ہیں کہ مجھے نماز قائم کرنے والا بنا دے اور اس کام میں مجھے اور میری اولاد کو توفیق دے مگر اس کی اولاد ہے کہ وہ نماز سے اعراض کر رہی ہے۔ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ہی سے جو رسول ان کے پاس آیا اور جو انہیں نصیحت کرتا ہے ، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی تعلیمات یاد دلاتا ہے یہ لوگ اس کی تکذیب پر تلے ہوئے ہیں ، حالانکہ یہ خود ان میں سے ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنی اس خضوع وخشوع اور عاجزی سے بھری ہوئی دعا کو اپنے لیے اور اپنے والدین کے لئے اور تمام مومنین کے لئے طلب مغفرت پر ختم فرماتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں حساب کے دن بخش دیجئے۔ کیونکہ حساب کے دن تو ہر شخص کو صرف عمل ہی فائدہ دے گا یا پھر اللہ کی طرف سے مغفرت ہی اس کا کام کرے گی۔ ربنا اغفرلی ۔۔۔۔۔۔۔ یقوم الحساب (14 : 41) “ پروردگار ، مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کر دیجیو جبکہ حساب قائم ہوگا ”۔ خشوع و خضوع سے بھر پور اس دعا کا منظر یہاں ختم ہوتا ہے جس میں اللہ کی بےبہا نعمتوں اور ان پر شکر کے مناظر دکھائے گئے ، جس میں گفتگو کا ٹون نہایت ہی دھیمی موسیقی کا تھا ، جس طرح ہلکی ہوا میں سطح آب پر ہلکی سی موجیں اٹھتی ہیں۔ اس منظر سے پورے ماحول پر ایک الوداعی اور لطیف جذباتی فضا طاری ہوجاتی ہے۔ انسانی دل اللہ کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اللہ کے انعامات کو یاد کرتے ہیں اور یہ منظر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ایک بندۂ ذاکر وشاکر کے طور پر تصور کرتا ہے ، جس طرح اس دعا سے پہلے تمام بندگان خدا کو قرآن نے دعوت دی تھی کہ وہ اللہ کے بندگان ذاکر و شاکر بن جائیں۔ یہاں قارئین یہ بات نوٹ کرنا بھول نہ جائیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس پر سوز دعا میں “ ربنا ” اور “ رب ” اور “ ربی ” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنے لیے اور آپ کے بعد اپنی اولاد کے لئے اللہ کی صفت ربوبیت کو جان بوجھ کر استعمال کیا ہے اور اس میں گہری حکمت پوشیدہ ہے۔ آپ یہاں اللہ کی صفت الوہیت کو نہیں لاتے بلکہ صفت ربوبیت کو ۔۔۔۔ لاتے ہیں اس لیے کہ تمام جاہلیتوں خصوصاً عربی جاہلیت میں اللہ کی الوہیت مختلف فیہ نہیں رہی ہے۔ جس چیز میں ہمیشہ اختلاف واقع ہوتا ہے وہ اللہ کی صفت ربوبیت ہے۔ یعنی رب وہ ہوتا ہے جس کا تجویز کردہ نظام ، دین اور شریعت اس زمین پر چلتا ہے۔ اور یہی اصل عملی مسئلہ ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اسلام اور جاہلیت میں تمیز ہوتی ہے ، توحید شرک سے جدا ہوتی ہے کیونکہ لوگ یا تو اللہ کے دین میں ہوں گے تو اللہ ان کا رب ہوگا یا وہ غیر اللہ کے نظام میں ہوں گے پھر یہ غیر اللہ ان کا رب ہوگا۔ اسلام اور جاہلیت اور توحید اور شرک میں یہی فرق ہے جو عملی زندگی میں اسلام کو جاہلیت اور توحید کو شرک سے جدا کرتا ہے۔ قرآن کریم یہاں قریش پر ان کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں ربوبیت کے مسئلے کو اس لیے پیش کرتا ہے اور ربوبیت پر اسی لیے زور دیتا ہے کہ وہ عربوں اور قریش پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ تم اپنے جد امجد کی وصیت اور دعاؤں کے خلاف جا رہے ہو۔ سیاق کلام میں اس حصے کا آغاز ان آیات پر کیا گیا تھا۔ الم تر الی ۔۔۔۔۔۔ دار البوار (14 : 28) “ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کی نعمت پائی اور اسے کفران نعمت سے بدل ڈالا اور اپنی قوم کو بھی ہلاکت کے گھر میں جھونک دیا ”۔ یہ لوگ بدستور اپنی اس ظالمانہ چال پر قائم رہے ، لیکن ان پر عذاب الٰہی بھی نہ آیا اور رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا کہ ان سے یہ کہیں : قل تمتعوا فان مصیرکم الی النار ( 14 : 30) “ کہو ، اچھا مزے کرلو ، آخر کار تمہیں پلٹ کر دوزخ ہی میں جانا ہے ”۔ اور حضور اکرم ﷺ کو مزید حکم دیا گیا تھا کہ آپ اپنی دعوت کا رخ اہل ایمان کی طرف پھیر دیں ، انہیں نماز اور کھلے طور پر اور خفیہ طور پر انفاق پر آمادہ کریں۔ من قبل ان یاتی یوم لا بیع فیہ ولا خلل (14 : 31) “ قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی اور نہ دوست نوازی ہوسکے گی ” اب اس حصے کی تکمیل اس پر ہوتی ہے کہ جو لوگ اللہ کی نعمتوں کا کفران کرتے ہیں۔ ان کے لئے اللہ نے کیا تیار کر رکھا ہے اور وہ اپنے اس انجام تک کب پہنچیں گے اور یہ بات قیامت کے مناظر کی شکل میں بتائی جاتی ہے۔ جو پے درپے آتے ہیں۔ جن میں مارے خوف کے انسانی قدم ڈگمگائے جاتے ہیں اور دل تھر تھر کانپتے ہیں۔
Top