Taiseer-ul-Quran - Al-Hijr : 84
فَمَاۤ اَغْنٰى عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَؕ
فَمَآ اَغْنٰى : تو نہ کام آیا عَنْهُمْ : ان کے مَّا : جو كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ : وہ کمایا کرتے تھے
اور جو وہ (پتھر کے مکان وغیرہ) بناتے تھے ان کے کسی کام 45 نہ آسکے
45 قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیاں :۔ ان پر جو عذاب الٰہی نازل ہوا وہ ایک زبردست قسم کی دہشت ناک آواز تھی ان کے مکان جو باقی ہر طرح کی ارضی و سماوی آفات سے مامون تھے اس عذاب کے لیے کچھ بھی کارآمد ثابت نہ ہوسکے۔ اللہ نے ان پر عذاب ہی ایسا بھیجا جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ آسکتا تھا۔ اور اس کے مقابلہ میں ان کی کوئی تدبیر بھی کارگر نہ ہوسکتی تھی۔ چناچہ وہ اپنے گھروں میں ہی مرگئے اور وہیں گلتے سڑتے رہے۔ ان کا علاقہ اس راستہ پر پڑتا ہے جو مدینہ سے تبوک جاتا ہے اور ان کے بہت سے آثار طویل مدت تک دوسروں کے لیے باعث عبرت بنے رہے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے : عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ سفر تبوک میں جب آپ حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ ان کے کنوئیں سے نہ پانی پیئیں اور نہ ڈول بھریں صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے تو اس سے آٹا گوندھ لیا ہے اور اسے بھر بھی لیا ہے آپ نے فرمایا آٹا پھینک دو اور پانی بہا دو پھر آپ نے آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی۔ آپ نے حکم دیا کہ اس کنوئیں سے پانی پلاؤ جس سے (صالح کی) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ اور ان ظالموں کے گھروں میں داخل نہ ہو بجز اس صورت کے کہ تم رو رہے ہو اور اگر رونا نہ آئے تو وہاں سے مت گزرو۔ ایسا نہ ہو کہ ان کا سا عذاب تم پر بھی نازل ہو پھر آپ نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے (بخاری، کتاب الانبیائ، باب قولہ تعالیٰ والی ثمود اخاہم صالحا۔ نیز کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلٰوۃ فی مواضع الخسف)
Top