Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 13
وَ كُلَّ اِنْسَانٍ اَلْزَمْنٰهُ طٰٓئِرَهٗ فِیْ عُنُقِهٖ١ؕ وَ نُخْرِجُ لَهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ كِتٰبًا یَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا
وَ : اور كُلَّ اِنْسَانٍ : ہر انسان اَلْزَمْنٰهُ : اس کو لگا دی (لٹکا دی) طٰٓئِرَهٗ : اس کی قسمت فِيْ عُنُقِهٖ : اس کی گردن میں وَنُخْرِجُ : اور ہم نکالیں گے لَهٗ : اس کے لیے يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت كِتٰبًا : ایک کتاب يَّلْقٰىهُ : اور اسے پائے گا مَنْشُوْرًا : کھلا ہوا
ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے ، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لئے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا
وکل انسان الزمنہ ئرہ فی عنقہ انخرج لہ یوم القیمۃ کتبا یلقہ منشور (31) اقراء اکتبک کفی بنفسک الیوم علیک حسیبا (41) (71 : 31۔ 41) ” ہر انسان کا شگون ہم نے اس کے اپنے گلے میں لٹکا رکھا ہے ، اور قیامت کے روز ہم ایک نوشتہ اس کے لئے نکالیں گے جسے وہ کھلی کتاب کی طرح پائے گا پڑھ اپنا نامہ اعمال ، آج اپنا حساب لگانے کے لئے تو خود ہی کافی ہے “۔ انسان کا شگون اس کا عمل ہے ، جو اس کی قسمت میں لکھا ہے۔ اس سے مراد خود انسان کا کسب وعمل ہے اور اس کے گلے میں لٹکانے سے مراد یہ ہے کہ انسان سے اس کا شگون یعنی اعمال کبھی جدا نہیں ہوتے۔ یہ قرآن کریم کا انداز ہے کہ قرآن کریم معافی و مفاہیم کو بھی ایک مجسم شکل میں پیش کرتا ہے ، مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اعمال کے ثمرہ کا ذمہ وار ہے اور وہ ان اعمال کے اثرات سے بھاگ نہیں سکتا۔ اسی طرح قیامت کے دن کتاب منشور سے بھی مراد اس کے اعمال کا ظہور ہے۔ یعنی اعمال کھلے ہوں گے۔ کوئی چھپا نہ سکے گا۔ یا کوئی عمل حساب سے رہ نہ جائے گا۔ لیکن قرآن اسے کھلی کتاب کی مجسم شکل میں پیش کرتا ہے جس سے مخاطب پر زیادہ اثر ہوتا ہے اور بات انسانی احساس کا حصہ بن جاتی ہے۔ چناچہ انسانی خیال یکدم پرندے اور کتاب کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اور وہ اس سخت دن کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ جس کے تمام راز کھل جائیں گے۔ ایک کھلی کتاب ہوگی اور اس دن کسی محاسب کی ضرورت نہ ہوگی۔
Top