Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
دیکھو ! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی ، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے برائی ثابت ہوئی۔ پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد (بیت المقدس) میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔
ان احسسنتم احسنتھم لانفسکم وان اساتھم فلھا (71 : 7) ” دیکھو تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے یہ لئے بھلائی تھی اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے ہی برائی ثابت ہوئی “۔ مکافات عمل کا یہ تو وہ اساسی قاعدہ ہے جو دنیا و آخرت میں یکساں لاگو ہے۔ یہ کہ انسان اپنے اعمال کا خود حقدار و ذمہ دار ہے۔ اس کے تمام پھل اور نتائج اس کے لئے ہیں۔ عمل اور جزائے عمل لازم و ملزوم ہیں۔ نتیجہ عمل سے پیدا ہوتا ہے ، اس لئے انسان ایک مسئول اور ذمہ دار ہستی ہے ، اگر چاہے تو اپنے ساتھ اچھا کرے یا برا کرے ، اگر اسے اچھے عمل یا برے عمل کا ثمرہ ملے تو اسے گلہ نہیں کرنا چاہیے۔ مکافات عمل کا یہ قاعدہ بیان کرنے کے بعد اب دوبارہ روئے سخن اس پیشن گوئی کہ طرف مڑ جاتا ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا۔ فاذا جاء وعد الاخرۃ لیسوئوا وجوھکم ولیدخلوا المسجد کما دخلوہ اول مرۃ ولیتبر واماعلوا تتبیرا (71 : 7) ” پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد میں اسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے اسے تباہ کرکے رکھ دیں “۔ یہاں سیاق کلام میں بنی اسرائیل کے دوسرے فساد کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔ کیونکہ پہلے یہ کہ دیا گیا تھا کہ لتفسدن فی الارض مرتین ” تم دو بار زمین میں فساد برپا کرو گے “۔ اور دوسری بار ان پر جیسے لوگوں کو مسلط کیا گیا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے دوسری بار بھی بگاڑ کی راہ اختیار کی تھی۔ فاذا جاء وعد الاخرۃ لیسوئوا (71 : 7) ” پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں “۔ یعنی انہوں نے ان سے اس قدر انتقام لیا کہ ان کی شخصیت اس کے اثرات سے بدل گئی۔ یہاں تک کہ یہ ذلت و نکبت ان کے چہروں پر ظاہر ہوگئی۔ انہوں نے تمام مقدسات کی بےحرمتی کی اور ہر چیز کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ ولید خلوا السجد کما دخلوہ اول مرۃ (71 : 7) ” وہ بھی اسی طرح مسجد میں داخل ہوئے جس طرح پہلے دشمن داخل ہوئے تھے “۔ جس جس چیز پر ان کا غلبہ ہوتا تھا ، اسے تاخت و تاراج کرتے اور ہر چیز کو تباہ کرتے جاتے۔ ولیتبروا ما علوا تتبرا (71 : 7) ” تاکہ جس چیز پر ان کا ہاتھ پڑے تباہ کردیں “۔ یعنی انہوں نے بیت المقدس کو پوری طرح تباہ کردیا اور ان لوگوں کو ملک بدر کرکے علاقے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ چناچہ یہ پیشن گوئی سچی ثابت ہوئی۔ اللہ کا وعدہ پورا ہوا اور بنی اسرائیل پر ایسے ہی لوگ مسلط ہوگئے۔ پھر دوبارہ ان پر دشمن مسلط کیے گئے اور انہوں نے ان کو ملک بدر کرکے ملک کو تباہ کیا۔ قرآن کریم نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ یہ لوگ کون تھے کیونکہ بنی اسرائیل کی دوبارہ کی تباہی کے بیان سے جو مقصد تھا وہ اسی قدر بیان سے پورا ہوگیا۔ اگر بتا دیا جاتا کہ فلاں فلاں اقوام کو ان پر مسلط کیا گیا تو اس سے کسی مفہوم میں اضافہ نہیں ہوجاتا۔ یہاں مقصد اس سنت الٰہی کا بیان تھا جس کا تعلق اقوام کے عروج وزوال سے ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ ایسی تباہیاں کیوں لاتا ہے ؟ تو بتایا جاتا ہے کہ بعض اوقات کسی قوم کی تباہی ہی اس کے لئے باعث رحمت ہوتی ہے۔
Top