Fi-Zilal-al-Quran - Al-Kahf : 74
فَانْطَلَقَا١ٙ حَتّٰۤى اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَهٗ١ۙ قَالَ اَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِیَّةًۢ بِغَیْرِ نَفْسٍ١ؕ لَقَدْ جِئْتَ شَیْئًا نُّكْرًا
فَانْطَلَقَا : پھر وہ دونوں چلے حَتّىٰٓ : یہانتک کہ اِذَا : جب لَقِيَا : وہ ملے غُلٰمًا : ایک لڑکا فَقَتَلَهٗ : تو اس نے اس کو قتل کردیا قَالَ : اس نے کہا اَقَتَلْتَ : کیا تم نے قتل کردیا نَفْسًا : ایک جان زَكِيَّةً : پاک بِغَيْرِ : بغیر نَفْسٍ : جان لَقَدْ جِئْتَ : البتہ تم آئے (تم نے کیا) شَيْئًا : ایک کام نُّكْرًا : ناپسندیدہ
پھر وہ دونوں چلے ، یہاں تک کہ ان کو ایک لڑکا ملا اور اس شخص نے اسے قتل کردیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” آپ نے ایک بےگناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کیا تھا ؟ یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا۔
پہلے تو کشتی میں شگاف ڈالا تھا اور لوگوں کی ہلاکت کا محض احتمال تھا لیکن اب تو واضح طور پر انہوں نے ایک شخص کو قتل کردیا۔ یہ قتل عمد تھا۔ محض احتمال قتل نہ تھا اور یہ گناہ کبیرہ تھا۔ اس پر موسیٰ (علیہ السلام) صبر نہ کرسکتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے عہد کیا تھا اور انہیں یہ عہد یاد بھی تھا۔ اس دفعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہ بھولے تھے اور نہ غافل تھے۔ اب انہوں نے بالا ارادہ اعتراض کردیا۔ کیونکہ وہ اس گناہ کبیرہ پر اعتراض کئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے۔ نہ وہ اس کی کوئی تاویل کرسکتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ لڑکا بےگناہ تھا۔ اس نے ایسا کوء فعل نہ کیا جس کے نتیجے میں اس کا قتل جائز ہو۔ بلکہ وہ تھا بھی نابالغ اس پر تو حد جاری ہی نہ ہو سکتی تھی۔ عبدصالح دوبارہ ان سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے درمیان ایک معاہدہ ہوچکا ہے اور وہ انہیں پھر یاد دلاتے ہیں اور یہ کہ تجربے کے بعد تجربہ بتلاتا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) برداشت نہیں کرسکتے۔
Top