Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 122
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِي اِسْرَائِيلَ : اے بنی اسرائیل اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِي : جو کہ اَنْعَمْتُ : میں نے انعام کی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّي : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی عَلَى : پر الْعَالَمِينَ : زمانہ والے
اے بنی اسرائیل یاد کرو میری نعمت جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی
درس 7 ایک نظر میں ان یہاں سے وہ حالات بیان کئے جارہے ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے کے دور سے متعلق ہیں یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعات ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کو جس طرح بیان کیا جارہا ہے اس سیاق کلام میں اس کی اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے ۔ مدینہ طیبہ میں اسلامی جماعت اور یہودیوں کے درمیان جو مختلف النوع اختلافات پائے جاتے تھے ، ان پر روشنی ڈالنے کے لئے یہ قصہ بےحد اہم تھا۔ کیونکہ اہل کتاب حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے واسطے سے اپنی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف کرتے تھے اور اپنی اس نسبت اور اللہ تعالیٰ کی جاب سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے بعد اولاد ابراہیم کے ساتھ ترقی اور برکت کا وعدہ کرنے پر فخر کرتے تھے۔ اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ ہدایت اور صحیح دین پر قائم رہنا گویا ان کی اجارہ داری ہے ۔ جیسا کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں چاہے ان کا عمل جیسا بھی ہو۔ اہل قریش بھی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے واسطے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد تھے ۔ اور اپنی اس نسبت پر فخر کرتے تھے اور انہوں نے بیت اللہ کی نگرانی اور مسجد حرام کی تعمیر کے مناصب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی ورثے میں پائے تھے اور پورے عرب پر دینی سیادت اور فضل وشرف کے رتبے بھی انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی سے ورثے میں پائے تھے ۔ اس سے قبل جنت کے بارے میں یہود ونصاریٰ کے دعاوی پر کلام کرتے ہوئے یہاں تک کہا گیا تھا۔ ” وہ کہتے ہیں کہ جنت میں صرف وہی شخص داخ ہوگا ، جو یہودی ہو یا عیسائی ہو۔ “ اور دوسری جگہ ان کا یہ قول نقل کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو یہودی یا عیسائی بنانے کی سعی کرتے ہوئے کہتے ہیں ! ” تم یہوی بن جاؤ یا عیسائی تاکہ ہدایت پاؤ۔ “ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کو اللہ کی مساجد میں ذکر الٰہی سے روکتے ہیں اور مساجد کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہاں ہم نے یہ کہا تھا کہ یہ باتیں واقعہ تحویل سے متعلق ہوسکتی ہیں ۔ کیونکہ اس موقع پر یہودیوں نے اسلامی جماعت کے خلاف مسموم پروپیگنڈہ شروع کردیا تھا۔ اب یہاں حضرت ابراہیم حضرت اسحاق وحضرت اسماعیل (علیہم السلام) اور بیت اللہ ، اس کی تعمیر اور اس سے متعلق اسلامی شعائر کی بابت بات کی جارہی ہے کیونکہ یہی مناسب موقع ہے ۔ تاکہ انبیاء کرام کے شجر ونسب اور باہمی تعلق کے بارے میں یہودیوں ، عیسائیوں اور مشرکین کے بےبنیاد دعوؤں کے بارے میں صحیح حقائق لوگوں کے ذہن نشین ہوجائیں اور مسلمانوں کو جسے قبلے کی طرف مڑنا ہے اس کے مسئلے کا بھی فیصلہ ہوجائے۔ نیز اس موقع پر دین ابراہیم (علیہ السلام) یعنی خالص توحید کی وضاحت بھی کردی جاتی ہے ۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین نے جو من گھڑت عقائد اور بےراہ روی اختیار کی ہوئی ہے ، اس کا اسلام کے عقیدہ ٔ توحید کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) (اسرائیل جس کی طرف سے یہ لوگ نسبت کرتے ہیں) اور مسلمانوں کے عقائد اور اخری دین میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہی تمام انبیاء اور رسل کا مشن رہا ہے اور وہ کسی قوم یا کسی نسل کے ساتھ مخصوص نہیں ہے نہ اس پر کسی کی اجارہ داری ہے۔ یہ تو ایک عقیدہ ہے جو دل مومن کی دولت ہے ۔ اندھی عصبیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی میراث ہے جو خون اور نسل کے رشتوں پر تقسیم نہیں ہوتی بلکہ ایمان اور عقائد کے رشتے پر ختم ہوتی ہے ۔ لہٰذا جو شخص بھی اس دین کو قبول کرے اور اس کی نگہبانی کرے ، وہ جس نسل سے متعلق ہے اور جس قوم کا فرد ہو ، وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے ۔ یعنی اپنے حقیقی بھائیوں اور صلبی اولاد سے بھی زیادہ۔ کیونکہ یہ اللہ کا دین ہے اور اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی نسبی یا کوئی اور رشتے کا تعلق نہیں ہے۔ یہ حقائق جو اسلامی تصور حیات کے اساسی خطوط کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ قرآن کریم یہاں انہیں بڑے عجیب طرز ادا میں نہایت واضح کرکے بیان کرتا ہے ۔ فصیح وبلیغ انداز بیان کے علاوہ سیاق کلام یہاں غایت درجہ مربوط ہے ۔ پہلے بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آزمایا اور وہ اس آزمائش میں پورے اترے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا اور امت مسلمہ کو برپا کیا گیا۔ اس لئے امت مسلمہ اس ورثے کی جائز وارث بن گئی اور اولاد ابراہیم (علیہ السلام) سے یہ اعزار چھین لیا گیا ۔ کیونکہ نظریاتی ورثے کے مستحق صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو رسالت پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور اچھی طرح سے اسے روبہ عمل لاتے ہیں اور رسالت کا صحیح تصور قائم رکھتے ہیں ۔ یہی ہے علت نظریاتی میراث کی۔ ان تاریخی حقائق کے بیان کے درمیان ، طرز ادا سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اپنے مفہوم کے اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردیا جائے ، سلسلہ رسل کی ابتداء میں بھی پیغام اول تھا ، اور اس سلسلے کے اختتام پر بھی یہی اسلام رسولوں کا مشن تھا۔ یہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا نظریہ تھا ، اور آپ کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور دوسری رسالتوں اور تحریکات حقہ کا عقیدہ تھا۔ ان حضرات نے اس امانت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے سپرد کیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہ وراثت آخرکارامت مسلمہ تک آپہنچی ۔ اس عقیدے اور اس نظریئے پر جو بھی ثابت قدم ہوگا وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا روحانی وارث ہوگا ۔ اور وہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا حق دار اور ان کی دی ہوئی بشارتوں کا مصداق ہوگا۔ اور جس شخص نے اسلام سے روگردانی کی اور اپنے نفس کو ملت ابراہیمی سے دور رکھا ، تو گویا وہ اللہ کے عہد کا مستحق نہ رہا اور اس نے اپنے آپ کو اس حق وفا سے محروم کردیا اور ان بشارتوں کا مصداق نہ رہا۔ یہاں آکر یہود ونصاریٰ کے وہ تمام دعوے اپنی اساس کھودیتے ہیں کہ وہ چیدہ اور برگزیدہ قوم ہیں ۔ محض اس لئے کہ وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پڑ پوتے ہیں ، اور ان کے خلیفہ ہیں ، اس لئے کہ جب سے انہوں نے عقیدہ توحید کو خیرباد کیا ، تب سے وہ وراثت ابراہیمی سے محروم ٹھہرے ۔ اور اس مقام پر قبیلہ قریش کے یہ دعوے بھی منہدم ہوجاتے ہیں کہ وہ بیت اللہ کی تولیت اور دیکھ بھال اور تعمیر کے حق دار ہیں ۔ کیونکہ انہوں نے اس مقام مقدس کے بانی اول کی روحانی میراث سے انحراف اختیار کرلیا ۔ اسی طرح یہودیوں کو یہ دعویٰ بھی منہدم ہوجاتا ہے کہ وہ بیت المقدس کے اصحاب قبلہ ہیں اور مسلمانوں کے لئے بھی مناسب یہی ہے کہ وہ بدستور بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھیں۔ اس لئے خانہ کعبہ ان کا بھی قبلہ ہے اور ان کے والد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بھی قبلہ تھا۔ ان تمام امور کو ایک حسین و جمیل پیرائے میں ادا کیا گیا جس کے اندر بیشمار واضح اشارات موجود ہیں اور جس کے اندر ایسے مواقف اور مقامات غور وفکر بھی ہیں جن کے اندر نہایت ہی دقیق مفاہم پوشیدہ ہیں اور ایسی توضیحات ہیں جو نہایت پر اثر ہیں ۔ اب ہم اس فصیح وبلیغ انداز کلام پر ، درج بالااشارات کی روشنی میں تفصیلی بات کریں گے۔
Top