Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠ ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ
: تم پر فرض کی گئی
الْقِتَالُ
: جنگ
وَھُوَ
: اور وہ
كُرْهٌ
: ناگوار
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَعَسٰٓى
: اور ممکن ہے
اَنْ
: کہ
تَكْرَھُوْا
: تم ناپسند کرو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّھُوَ
: اور وہ
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَعَسٰٓى
: اور ممکن ہے
اَنْ
: کہ
تُحِبُّوْا
: تم پسند کرو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّھُوَ
: اور وہ
شَرٌّ
: بری
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
تمہیں جنگ کا حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو ۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بری ہو ۔ اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے ۔ “
قتال فی سبیل اللہ بہت بارگراں فریضہ ہے ۔ اس کے باوجود یہ ایسا ہے کہ اس کی ادائیگی واجب ہے ۔ اس لئے کہ اس میں ایک مسلمان کے لئے بھی بڑی خیر ہے ، اسلامی جماعت کے لئے بھی خیر کثیر ہے بلکہ اس میں پوری انسانیت کی عظیم بھائی ہے ۔ یہ فریضہ محض سچائی کے لئے ہے ، بھلائی کے لئے ہے اور اصلاح احوال کے لئے ہے ۔ اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے ، اس لئے وہ ہر معاملے میں اپنا موقف اور نقطہ نظر بھی عین فطرت کے مطابق اختیار کرتا ہے ۔ اس فریضے کی ادائیگی میں جو مشقتیں اور دشواریاں ہیں اللہ ان کا انکار نہیں کرتا۔ نہ اسے آسان اور ہلکا تصور کیا جاتا ہے۔ نہ اس بات کا انکار کیا جاتا ہے کہ نفس انسانی اسے بتقاضائے فطرت ناپسند کرتا ہے اور اسے بھاری سمجھتا ہے ۔ اسلام نہ فطرت کا انکار کرتا ہے ۔ نہ کسی معاملے میں نظام فطرت سے متصادم ہوتا ہے ۔ نہ انسان پر اس کے ان فطری احساسات کو حرام قرار دیتا ہے ، جن کے انکار کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ جن کو کالعدم نہیں گردانا جاسکتا ۔ البتہ اسلام ان فطری احساسات کا علاج ایک دوسرے طریقے سے کرتا ہے ۔ اسلام فطرت کی ان تاریکیوں کو ایک جدید قسم کی روشنی سے ختم کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تم جو فرض عائد کیا گیا ہے بیشک وہ شاق ناپسندیدہ ہے ، لیکن اس کے پس منظر میں ایک عظیم مصلحت ہے جس کی وجہ سے وہ بہت ہی ہلکا ہوجاتا ہے ، آسان ہوجاتا ہے ۔ اس کی مشقت کم ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے ذائقے کی کڑواہٹ کم ہوجاتی ہے ۔ اس کے ذریعہ ایک پوشیدہ بھلائی وجود میں آتی ہے ۔ اس پوشیدہ بھلائی کو انسان کی سطحی نظر اچھی طرح نہیں دیکھ سکتی ۔ اس نقطہ نظر کو پالینے کے بعد ، انسانی روح پر معرفت کے لئے دروازے کھل جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ انسان اس معاملے کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ اب انسان جہاد و قتال کے مسئلے پر ایک نئے زاویہ سے نگاہ ڈالتا ہے ۔ اور پھر جب انسان مشکلات سے دوچار ہوتا ہے اور مصائب میں گھر اہوتا ہے ، تو اس کے روح کے اس زاویہ ار معرفت کے اس نئے دروازے سے اس کے قلب ونظر پر ٹھنڈی ٹھنڈی خوشگوار ہواچلتی ہے اور اسے اطمینان نصیب ہوتا ہے اس لئے کہ عین ممکن ہے شاید ان مشکلات کے بعد آسانیاں ہوں اور کسے خبر ہے کہ شاید پسندیدہ امر کا انجام یہ نہ ہوگا ۔ یہ تو وہی ہے جو دور دراز انتہاؤں کا علم رکھنے والا ہے جبکہ تمام لوگ اس علم کے ایک حصہ سے بھی خبردار نہیں ہیں ۔ جب نفس انسانی پر یہ خوشگوار بادنسیم چلتی ہے تو اس پر ٹوٹنے والے تمام مصائب اور مشقتیں اور سختیاں آسان ہوجاتی ہیں ۔ امید وبقا کے دریچے کھل جاتے ہیں ، سخت تپش میں بھی دل ٹھنڈک محسوس کرتا ہے اور یقین وامید کے ساتھ اطاعت اور ادائے فرض کی طرف مائل ہوجاتا ہے۔ اسلام فطرت کے ساتھ یوں معاملہ کرتا ہے کہ وہ انسان کے فطری رجحانات پر کوئی نکیر نہیں کرتا ۔ اور نہ ہی انسان کو کسی مشکل فرض کے سرانجام دینے پر محض آرڈر اور حکم کے ذریعہ مجبور کرتا ہے ، بلکہ وہ انسان کی تربیت کرکے اسے اطاعت پر آمادہ کرتا ہے ۔ امید کا دائرہ وسیع کردیتا ہے ۔ وہ اسے یہ تعلیم دیتا ہے کہ ادنیٰ چیز کو خرچ کرکے اعلیٰ ترین حاصل کرو ، وہ انسان کو ذاتی خواہشات کے مقابلے میں نہیں بلکہ خوشی ورضا سے کھڑا کرتا ہے تاکہ انسان کی فطرت کو اس بات کا احساس ہو کہ اللہ کا رحم وکرم اس کے شامل حال ہے کیونکہ وہ انسانی کمزوریوں سے خوب واقف ہے ۔ وہ وہ معترف ہے کہ انسان پر جو فریضہ عائد کیا گیا ہے وہ ایک مشکل کام ہے ۔ وہ اس کی مجبوریوں سے بھی واقف ہے اور انسان کی بھی قدر کرتا ہے اور بلندہمتی ، التجا اور امید کے ذریعے اسے مسلسل آگے بڑھانے کی ہمت بھی دیتا رہتا ہے ۔ یوں اسلام انسانی فطرت کی تربیت کرتا ہے ، وہ فرائض پر ملول نہیں ہوتی ، صدمات کی ابتلا میں جزع وفزع نہیں کرتی اور نہ مصائب شروع ہوتے ہی وہ ہمت ہار بیٹھتی ہے ۔ اگر مشکلات کے مقابلے میں کمزوری ظاہر ہوجائے تو شرمندہ ہو کر صاف گرہی نہیں جاتی بلکہ ثابت قدم رہنے کی سعی کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے عنداللہ معذور سمجھاجائے گا۔ اسے یہ امید ہوتی ہے کہ اللہ اس کی امداد کرے گا اور اپنی طرف سے قوت بخشے گا اور مصائب کا مقابلہ کرنے کا پختہ ارادہ کرلیتی ہے ۔ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان مشکلات کی تہہ میں کچھ خیر پوشیدہ ہو۔ مشکلات کے بعد آسانیاں آجائیں ۔ تھکاوٹ اور ضعف کے بعد بہت بڑا آرام نصیب ہوجائے ۔ یہ فطرت محبوبات ومرغوبات پر فریفتہ نہیں ہوتی اس لئے کہ عیش و عشرت کا نتیجہ حسرت بھی تو ہوسکتی ہے۔ محبوب کی تہہ سے مکروہ بھی برآمد ہوسکتا ہے ۔ کبھی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روشن تر امیدوں کے پس پردہ ہلاکت اور مصیبت انتظار کررہی ہو۔ تربیت کا یہ عجیب نظام ہے ۔ بہت ہی گہرا اور بہت ہی سادہ ۔ یہ نظام نفس انسانی کے سرچشموں ، اس کے پوشیدہ گوشوں اور اس کے مختلف گزرگاہوں کا شناسا ہے ۔ یہ نظام تربیت سچائی اور صداقت سے کام لیتا ہے ۔ اس میں جھوٹے اشارے ، جھوٹے تاثرات اور نظر فریب جعل سازی نہیں ہوتی ۔ پس یہ حقیقت ہے انسان کا ناقص اور ضعیف ذہن کسی بات کو ناپسند کرے حالانکہ وہ خیر ہی خیر ہو۔ اور یہ بھی حق ہے کہ انسان کسی چیز کو پسند کرے اور اس کا جانثار ہو ۔ لیکن اس میں شر ہی شر ہو ۔ اور یہ بھی حق ہے کہ اللہ جانتا ہے اور انسان نہیں جانتے ۔ لوگوں کو عواقب اور انجام کا کیا علم ہے ۔ وہ کیا جانیں کیونکہ پردہ گرا ہوا ہے اور پس پردہ کیا ہے ؟ غرض لوگوں کو ان حقائق کا علم نہیں ہوسکتا جو ہماری خواہشات ، جہالت اور نفس کے تابع نہیں ہیں۔ قلب انسانی کے اندر یہ ربانی احساس ، اس کے دریچے کھول دیتا ہے ۔ اس کے سامنے ایک نئی دنیا نمودار ہوجاتی ہے ۔ یہ دنیا اس محدود دنیا سے بالکل مختلف ہے جسے ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔ اس کی نظروں کے سامنے کچھ دوسرے عوامل بھی آجاتے ہیں جو اس کائنات کی گہرائیوں میں کام کررہے ہوتے ہیں ، جو معاملات کی کا یا پلٹ دیتے ہیں ، جو نتائج کی اس ترتیب کو الٹ دیتے ہیں جن میں انسان کو تمنا ہوتی ہے یا وہ ان کی توقع کئے ہوئے ہوتا ہے ۔ جب قلب مومن تن بہ تقدیر اس ربانی احساس کے تابع ہوجاتا ہے ، تو پھر وہ پرامیدہوکر کام کرتا ہے ۔ اسے امید بھی ہوتی ہے اور اللہ کا ڈر بھی ، لیکن وہ تمام نتائج برضا ورغبت دست قدرت کے سپرد کردیتا ہے جو حکیم ہے اور علیم ہے ۔ جس کا علم سب کو گھیرے ہوئے ہے ۔ یہ ہے دراصل سلامتی کے کھلے دروازے کا داخلہ ۔ نفس انسانی کو اسلام کا صحیح شعور اس وقت تک نصیب نہیں ہوسکتا ، جب تک اس میں یہ یقین پیدا نہ ہوجائے کہ خیر اسی میں ہے جسے اللہ نے خیر بتایا ، بھلائی اس میں ہے کہ اپنے رب کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کی جائے ۔ اللہ تعالیٰ کو آزمانے اور اللہ سے براہین طلب کرنے میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔ پختہ یقین ، پرسکوں امید اور سعی پیہم ہی سلامتی کے دروازے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو انہی دروازوں سے داخل ہونے کی دعوت دیتا ہے اور حکم دیتا کہ نیمے دروں اور نیمے بیروں میں نہیں بلکہ پورے پورے ان دروازوں میں داخل ہوجاؤ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بڑے سادہ عجیب لیکن بہت گہرے منہاج کے ساتھ اس سلامتی کی طرف لے جارہا ہے ۔ بڑی نرمی ، بڑی آسانی اور دھیمی رفتار سے ۔ سلامتی کے اس راستے پر وہ انہیں اس طریقے سے لے جارہا ہے کہ آخرکار وہ ان پر قیام امن کے لئے قتال بھی فرض کردیتا ہے ۔ سلامتی کیا چیز ہے ؟ سلامتی یہ ہے کہ میدان جنگ میں انسان کی روح اور اس کا ضمیر مطمئن اور امن وسلامتی سے رہیں ۔ قرآن کریم کی اس آیت میں قتال کی نسبت سے جو اشارہ کیا گیا ہے ، وہ قتال تک ہی محدود نہیں ہے ۔ قتال تو ان امور کی ایک واضح مثال ہے جسے نفس انسانی فطرتاً پسند نہیں کرتا۔ لیکن اس میں نتائج کے اعتبار سے بھلائی ہوتی ہے ۔ یہ نکتہ دراصل مومن کی پوری زندگی میں اس کا فلسفہ حیات ہے ۔ اس کے تمام واقعات زندگی پر اس کا پرتو ہوتا ہے ۔ انسان تو کسی معاملے میں یہ نہیں جانتا کہ خیر کہاں ہے اور شر کہاں ہے ؟ بدر کے دن مسلمان نکلے کہ قریش کے قافلے کو لوٹ لیں اور ان کے مال تجارت پر قبضہ کرلیں ۔ اللہ نے ان سے غنیمت کا وعدہ بھی کر رکھا تھا ، وہ سمجھتے تھے کہ یہی قافلہ اور اس کا مال تجارت بس انہیں ملنے ہی والا ہے ۔ ان کے تصور میں بھی یہ نہ تھا کہ انہیں قریش کی فوج کے ساتھ دوچار ہونا پڑے گا ، لیکن اللہ کا کرنا یہ تھا کہ قافلہ بچ نکلا اور ان کا سامنا قریش کی ساز و سامان سے لیس فوج سے ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں اہل اسلام کو وہ کامیابی نصیب ہوئی جس کی آواز بازگشت پورے جزیرۃ العرب میں سنی گئی ۔ اب دیکھئے کہ مسلمانوں کی کامیابی کے مقابلہ میں قافلہ اور اس کے تجارتی سامان کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟ اب دیکھئے ، مسلمانوں نے اپنے لئے جو پسند کیا اس کی قدر و قیمت کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جو اختیار کیا اس کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے اور لوگ نہیں جانتے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ساتھی نوجوان اپنا کھانا بھول گیا یعنی مچھلی ۔ جب پتھر کے پاس پہنچے تو مچھلی دریا میں چلی گئی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے چلے گئے اور اپنے خادم سے کہا لاؤ ہمارا ناشتہ آج کے سفر میں تو ہم بری طرح تھک گئے ہیں ۔ خادم نے کہا آپ نے دیکھا ، یہ کیا ہوا ؟ جب ہم اس چٹان کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے ، اس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کردیا کہ میں اس کا ذکر آپ سے کرنا بھول گیا ۔ مچھلی توعجیب طریقے سے نکل کردریا میں چلی گئی ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا : اسی کی تو ہمیں تلاش تھی ، چناچہ وہ دونوں اپنے نقش قدم پر واپس ہوئے اور وہاں انہوں نے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا ۔ یہی وہ مقصد تھا جس کے لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سفر اختیار کیا ۔ اگر مچھلی کا واقع نہ ہوتا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہ لوٹتے اور وہ پورا مقصد فوت ہوجاتا جس کے لئے انہوں نے یہ تھکا دینے والا سفر اختیار کیا تھا۔ ہر اگر انسان اگر تامل کرے تو وہ بعض مخصوص تجربوں میں اس سچائی کو دریافت کرسکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کئی ایسے تجربات سے دوچار ہوا جو اسے ناپسند تھے ۔ لیکن ان کے پس پردہ وہ خیر عظیم کارفرما تھی ۔ اور کئی پر ذائقہ اور لذید چیزیں بھی تھیں ۔ لیکن ان کی تہہ میں شر عظیم نہا تھا۔ کئی ایسے مقاصد ہوتے ہیں کہ جن سے انسان محروم ہوجاتا ہے اور اسے اپنی اس محرومی کا بےحد صدمہ بھی ہوتا ہے لیکن ایک عرصہ کے بعد نتائج دیکھ کر انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محروم رکھ کر دراصل بلائے عظیم سے نجات دی تھی ۔ کئی مصائب وشدائد ایسے جاں گسل ہوتے ہیں ، کہ انسان بڑی ناخوش گواری سے ان کے کڑوے گھونٹ بھرتا ہے اور قریب ہوتا ہے کہ ان مصائب کی سختی کے نتیجے میں اس کی جان ہی نکل جائے ، لیکن ایک طویل عرصہ نہیں گزرتا کہ ان سختیوں کے نتائج اتنے اچھے نکلتے ہیں جتنے ایک طویل پر آسائش زندگی کے نتیجے میں اچھے نہ ہوسکتے تھے۔ یہ ہے منہاج تربیت جس کے مطابق اللہ نفس انسانی کو لیتا ہے کہ وہ ایمان لے آئے ، اسلام میں داخل ہوجائے اور آنے والے نتائج اللہ کے سپرد کردے ۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ بقدر استطاعت ، ظاہری جدوجہد کے میدان میں اپنی پوری قوت لگادے ۔ تحریک اسلامی کو امن وسلامتی کی طرف لے جایا جارہا تھا کہ وہ پوری کی پوری سلامتی کے نظام میں داخل ہوجائے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی حرام مہینوں میں قتال کے بارے میں فتویٰ بھی ہے ۔ چناچہ فرماتے ہیں
Top