Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠   ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ : تم پر فرض کی گئی الْقِتَالُ : جنگ وَھُوَ : اور وہ كُرْهٌ : ناگوار لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تَكْرَھُوْا : تم ناپسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ خَيْرٌ : بہتر لَّكُمْ : تمہارے لیے وَعَسٰٓى : اور ممکن ہے اَنْ : کہ تُحِبُّوْا : تم پسند کرو شَيْئًا : ایک چیز وَّھُوَ : اور وہ شَرٌّ : بری لَّكُمْ : تمہارے لیے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
جہاد کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اور وہ تمہیں ناگوار گزرتا ہے لیکن بہت ممکن ہے کہ ایک بات تم ناگوار سمجھتے ہو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ایک بات تمہیں اچھی لگتی ہے اور اس میں تمہارے لیے برائی ہو اللہ جانتا ہے مگر تم نہیں جانتے
جنگ تم پر فرض کی گئی ہے اس کی حقیقت سمجھ میں آئے گی تو نا گواری ختم ہوجائے گی : 367: جنگ ؟ آخر کیوں ؟ اس لئے کہ تم زندہ رہو گے اور تمہاری قوم کو دائمی زندگی نصیب ہوگی اور تمہاری انفرادی و اجتماعی حیات کا راز اسی میں پوشیدہ ہے ۔ جنگ کی حالت کوئی ایسی حالت نہیں ہے جو تمہارے لئے خوشگوار ہو لیکن یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں کتنی ہی خوشگواریاں ہیں جو ناگواریوں سے پیدا ہوتی ہیں اور کتنی ہی خوشگوار باتیں ہیں جن کا نتیجہ ناگوار ہوتا ہے۔ جنگ ” برائی “ ہے لیکن انسانی طاقت کا ظلم و فساد اس سے بھی بڑھ کر برائی ہے۔ پس جب ایسی حالت پیش آجائے کہ ظلم کا ازالہ اور کسی طرح ممکن نہ ہو تو جنگ کے سوا چارہ نہیں۔ قوموں کی موت اور زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرو ۔ جس قوم کا جسم زندہ ہو لیکن روح مردہ ہو تو وہ قوم کبھی زندہ قوم نہیں کہلاتی قومی زندگی کے لئے ضروری ہے کہ اس کی روح بھی زندہ ہو۔ دیکھو جب نبی کریم ﷺ اس دنیا میں مبعوث ہوئے تو جس قوم میں مبعوث ہوئے وہ من حیث الجسم زندہ تھی لیکن من حیث الروح مردہ ہوچکی تھی قرآن کریم نے جو دعوت دی اس میں ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْ 1ۚ (الانفال 8 : 24 ) ” اے مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو جب وہ پکارے تاکہ تمہیں (رُوحانی موت سے نکال کر) زندہ کر دے۔ “ ٹھہرو ! جلدی نہ گزر جائو ، ان الفاظ پر غور کرو نہیں پھر غور کرو یہ وہی بات ہے جو قرآن کریم کے صفحات میں بار بار نمایاں کی گئی ہے اس کی دعوت سراسر تعقل و تفکر کی دعوت ہے جو انسان اپنے حواس و عقل سے کام نہیں لیتا وہ اس کے نزدیک انسان ہی نہیں بدترین چارپایہ ہے نیز وہ فکر و عمل کی جس حالت کو کفر کی حالت قرار دیتا ہے اس کا سرچشمہ یہی عقل و حواس کا تعطل ہے۔ اب حوالہ کی آیت پر نظر کرو فرمایا جا رہا ہے کہ پیغمبر اسلام کی دعوت اس لئے ہے کہ تمہیں زندہ کر دے یعنی وہ انسانیت اعلیٰ کے انبعاث و قیام کی دعوت ہے غور کرو اس دعوت نے وقت کی تمام مردہ جماعتوں کو کس طرح قبروں سے اٹھا کر زندگی کے میدانوں میں متحرک کردیا تھا ؟ اس سے بڑھ کر مردوں کو جلانا اور کیا ہوگا ؟ عرب کے ساربانوں میں ابوبکر و عمر و عثمان وعلی ، سیدہ عائشہ ، خالد ، ابن وقاص اور ابن العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے لوگ پیدا کر دئے اور پچاس سال کے اندر کرئہ ارض کی سب سے بڑی مہذب و اشرف قوم وہی عرب کے وحشی تھے۔
Top