Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hajj : 42
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُۙ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : تمہیں جھٹلائیں فَقَدْ كَذَّبَتْ : تو جھٹلایا قَبْلَهُمْ : ان سے قبل قَوْمُ نُوْحٍ : نوح کی قوم وَّعَادٌ : اور عاد وَّثَمُوْدُ : اور ثمود
” اے نبی ﷺ اگر وہ (یعنی کفار) تمہیں جھٹلاتے ہیں تو ان سیپ ہلے قوم نوح اور عاد اور ثمود
درس نمبر 146 ایک نظر میں اس سے پہلے سبق کا خاتمہ اس پر ہوا تھا کہ نظریات ، عقائد اور ملت کے شعار کی مدافعت کے لئے جنگ کی اجازت ہے۔ جو لوگ اسلامی نظریہ حیات کے تقاضے پورے کریں گے ان کو اللہ کی طرف سے پوری پوری نصرت بھی حاصل ہوگی۔ بشرطیکہ انہوں نے خود اپنی جماعت کے اندر اسلامی نظام حیات قائم کر رکھا ہو۔ جب یہ بتا دیا گیا کہ اللہ کی نصرت کے استحقاق کے لئے شرائط و فرائض کیا ہیں تو اب رسول اللہ ﷺ کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ دست قدرت نے آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی حمایت میں کام شروع کردیا ہے جس طرح آپ سے قبل آپ کے بھائی رسولوں کے حق میں دست قدرت نے کیا اور ہر دور میں مکذبین کو بڑی سختی سے پکڑا۔ نیز مکذبین اور مشرکین کو بھی اس طرف متوجہ کیا جاتا ہے کہ اگر ان کا دل و دماغ کام کرتا ہے تو وہ غور و فکر کریں کیونکہ آنکھوں کا اندھا دراصل اندھا نہیں ہوتا ، بلکہ حقیقی اندھا وہ ہوتا ہے جس کے سینے میں دھڑکنے والا دل اندھا ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کو یہ اطمینان دلایا جاتا ہے کہ اللہ اپنے رسولوں کو شیطان کی سازشوں سے بچاتا ہے۔ اس طرح وہ جھٹلانے والوں کی سازشوں سے بھی بچاتا ہے۔ نیز وہ شیطان کی مکاریوں کو باطل کر کے ، اپنی آیات کو سلیم الطبع لوگوں کے ذہن نشین کرا رہا ہے۔ رہے وہ لوگ جن کے دل مریض ہیں ، یا جن کے دل کافر ہیں تو وہ اسی طرح شک میں گرفتار رہیں گے یہاں تک کہ وہ اپنے برے انجام کو دیکھ لیں۔ یہ پورا سبق دست قدرت کے آثار اور کرشموں پر مشتمل ہے۔ اللہ کا ہاتھ دعوت اسلامی کو آگے بڑھانے کے لئے متحرک ہوگیا ہے لیکن نتائج سامنے تب آئیں گے جب وہ اصحاب دعوت اپنے فرائض کو بطرز احسن پورا کریں اور وہ تقاضے پورے کریں جن کے بارے میں پہلے وضاحت کردی گئی ہے یعنی اس سے پہلے سبق میں۔ درس نمبر 146 تشریح آیات 42……تا 57 وان یکذبوک ……کان نکیر (44) تمام رسولوں کے بارے میں یہ اللہ کی اٹل سنت ہے کہ رسول معجزات لے کر آئے اور ان کی قوموں نے ان کو جھٹلایا۔ اس لئے مشرکین مکہ کی طر سے رسول آخر الزمان ﷺ کی تکذیب کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن تمام جھٹلانے والوں کا انجام بھی تو معلوم ہے۔ انجام کے لئے بھی مشرکین مکہ تیار ہوجائیں۔ فقد کذبت قبلھم قوم نوح و عاد وثمود (32) وقوم ابرہیم و قوم لوط (22 : 33) ” اس سے پہلے قوم نوح ، اور عاد وثمود اور قوم ابراہیم اور قوم لوط نے جھٹلایا ہے “ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے علیحدہ فقرہ و کذب موسیٰ (اور موسیٰ جھٹلائے جا چکے ہیں) اس لئے کہ اس کی قوم نے انہیں نہیں جھٹلایا تھا بلکہ فرعون اور اس کے سرداروں نے جھٹلایا تھا۔ دوسرے اس لئے کہ جو معجزات حضرت موسیٰ لے کر آئے تھے وہ بہت ہی واضح تھے۔ نیز موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت ہی بڑے واقعات پیش آئے۔ ان تمام پیغمبروں کے واقعات میں اللہ نے کافروں کو ایک وقت تک مہلت دی۔ جیسا کہ اب قریشک و مہلت دی جا رہی ہے اور اس کے بعد اللہ نے بڑی سختی سے ان کو پکڑا۔ یہاں سوالیہ انداز مزید ڈرانے اور اظہار تعجب کے لئے ہے۔ فکیف کان نکیر (22 : 33) ” اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ “ نکیر کا مفہوم ہے ایسا سخت انکار جس میں تبدیلی کا شائبہ ہو۔ اس سوال کا جواب معلوم ہے کہ خوفناک عذاب تھا۔ طوفان ، خسف تدمیر ، ہلاکت ، زلزلے ، تباہی طوفان اور کڑک کی وجہ سے خوف میں مبتلا کر کے ہلاک کرنا۔
Top