Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 176
وَ لَا یَحْزُنْكَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْكُفْرِ١ۚ اِنَّهُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰهَ شَیْئًا١ؕ یُرِیْدُ اللّٰهُ اَلَّا یَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَلَا : اور نہ يَحْزُنْكَ : آپ کو غمگین کریں الَّذِيْنَ : جو لوگ يُسَارِعُوْنَ : جلدی کرتے ہیں فِي الْكُفْرِ : کفر میں اِنَّھُمْ : یقیناً وہ لَنْ يَّضُرُّوا : ہرگز نہ بگاڑ سکیں گے اللّٰهَ : اللہ شَيْئًا : کچھ يُرِيْدُ : چاہتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَلَّا : کہ نہ يَجْعَلَ : دے لَھُمْ : ان کو حَظًّا : کوئی حصہ فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب عَظِيْمٌ : بڑا
(اے پیغمبر) جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں ‘ یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے ۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ‘ اور بالآخر ان کو سخت سزا ملنے والی ہے ۔
غزوہ احد کے واقعات کا یہ بہترین اختتامیہ ہے ۔ اس لئے کہ اس غزوہ میں مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے تھے اور اس جنگ میں کفار کو فتح اور غلبہ نصیب ہوا تھا ۔ حق و باطل کی کشمکش میں ہمیشہ یہ شبہ پیدا ہوجاتا ہے اور اہل حق کے دلوں میں یہ بات ہمیشہ کھٹکتی ہے یا بعض اوقات کامیابی کی خواہش دلوں میں ابھرتی رہتی ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں حق کو کامیاب ہی ہونا چاہئے اور اگر کسی جگہ حق کو شکست ہو جس طرح احد میں اور کفر و باطل کو فتح وظفر نصیب ہو تو یہ کیوں ہوتی ہے ؟ یہ جھوٹا شبہ ہوتا ہے اور ہمیشہ دلوں میں اٹھتا رہتا ہے۔ اور انسان کی خواہش کامیابی اسے مسلسل دبارہی ہوتی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے اے رب ! حق کو شکست اور باطل کو فتح کیوں ہوتی ہے ؟ اہل حق مصائب میں مبتلاہو رہے ہیں اور اہل باطل نجات پا رہے ہیں اور کامیاب ہورہے ہیں اور اس طرح کیوں نہیں ہوتا کہ جب بھی حق و باطل کی باہم کشمکش ہو تو حق کو فتح نصیب ہو اور وہ غلبہ اور غنیمت لے کر واپس ہو ؟ کیا حق اور سچائی اس بات کی مستحق نہیں ہے کہ اسے فتح نصیب ہو اور باطل کے لئے یہ قوت اور یہ رعب کیوں ہے کہ حق کے ساتھ ٹکراؤ میں اسے ایسی کامیابیاں ہوتی ہیں جس سے اہل حق کے دلوں میں فتنے پیدا ہوتے ہیں اور ان کے دل متزلزل ہوجاتے ہیں۔ اور یہ سوالات عملاً اس وقت سامنے آئے جب احد کے دن اہل ایمان نے نہایت ہی تعجب اور سراسیمگی میں یہ سوال کیا کہ اَنّٰی ھٰذَا ؟…………… ” یہ کیسے ہوگیا “………لہٰذا اس آخری اختتامیہ میں اس کا آخری جواب دیا جاتا ہے ۔ آخری اور فیصلہ کن بات کردی جاتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ پریشان دلوں کو سکون فراہم فرمادیتے ہیں اور اس پہلو سے جو بڑا وسوسہ بھی دلوں کے اندر راہ پاتا ہے ‘ اسے صاف کردیا جاتا ہے ۔ اللہ کی سنت کا بیان ہوتا ہے ۔ اللہ کی سنت کے تحت اس کی تقدیروں کا بیان ہوتا ہے اور پھر ان تمام سنن اور تقدیروں کے پیچھے جو اس کی وسیع تر تدبیر اور حکمت کارفرماہوتی ہے ‘ وہ بھی بتادی جاتی ہے اور یہ حکمت کل بھی تھی ‘ آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی۔ اور ہر اس جگہ ہوگی جہاں حق و باطل کی کشمکش ہو اور احد جیسے نتائج نکلیں۔ دنیا کے کسی معرکے سے باطل کا فتح مندی کے ساتھ نکل کر چلاجانا اور ایک وقت کے لئے اس کا پھول جانا اور طاقتور نظر آنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ بس اللہ تعالیٰ نے اسے کھلی چھٹی دے دی ہے ۔ یا یہ کہ وہ اس قدر طاقتور ہوگیا ہے کہ اس پر اب غلبہ نہیں پایا جاسکے گا یا یہ کہ باطل ہمیشہ کے لئے حق کے لئے مضر ہی رہے گا ۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح کسی معرکے میں سچائی کا شکست اور مصائب میں مبتلا ہوکر نکلنا یا سچائی کا کسی دور میں ضعف کا شکار ہوجانا ‘ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ کوئی انصاف فرما رہے ہیں یا اللہ نے حق کو بھلادیا یا اس نے باطل کو آزاد چھوڑدیا کہ وہ سچائی کو بیخ وبن سے اکھاڑکر تباہ کردے۔ یوں ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ یہ تو اللہ کی گہری حکمت اور تدبیر ہوتی ہے جو ہر جگہ اپنا کام کررہی ہوتی ہے ۔ کبھی حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باطل کو مہلت دی جائے اور وہ اپنی آخری سرحد تک پہنچ جائیں ۔ وہ اپنے تمام برے نتائج ظاہر کریں ‘ وہ لوگوں پر ناقابل برداشت بوجھ ڈال دیں اور آخر کار وہ اس بات کے مستحق ہوجائیں کہ ان پر سخت سے سخت حملہ کیا جائے اور پھر حق کو آزمائش میں اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ حق و باطل کے درمیان فرق ہوجائے ۔ طیب اور خبیث کے اندر امتیاز ہوجائے ‘ اور ان آزمائشوں میں جو لوگ ثابت قدم رہیں انہیں عظیم اجر ملے اور وہ ممتاز مقام کے مستحق ہوجائیں ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ صورت حال سچائی کے لئے کمائی ہے اور باطل کے لئے خسارہ ہے ۔ ادہر یہ کمائی زیادہ سے زیادہ ہورہی ہو تو ادہر خسارہ زیادہ سے زیادہ ہورہا ہے۔ وَلا ﻳَﺤۡﺴَﺒَﻦَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لأنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ” اے پیغمبر جو لوگ کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں۔ یہ اللہ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے ۔ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ‘ اور بالآخر ان کو سخت سزاملنے والی ہے۔ “ یہ نبی ﷺ کے لئے تسلی ہے ‘ اس کے ذریعہ آپ کے غبار خاطر کو دور کیا جارہا ہے جو آپ کے دل پر ان واقعات کی وجہ سے تھا۔ آپ اس سے بےحد دلگیر تھے کہ جو لوگ کفر میں غلامی کررہے ہیں وہ کفر میں سرپٹ بھاگے جارہے ہیں ۔ وہ نہایت سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔ گویا ان کے لئے کوئی ہدف مقرر ہے اور انہوں نے اسے حاصل کرنا ہے۔ یہ ایسے الفاظ ہیں اور ایسی تعبیر ہے ‘ جن کے ذریعہ ان کی حقیقی نفسیاتی حالت کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔ اکثر اوقات نظرآتا ہے کہ بعض لوگ کفر میں متشدد ہوتے ہیں ۔ وہ باطل ‘ شر اور اللہ کی نافرمانی کو اپنا نصب العین بنالیتے ہیں ۔ اس طرح کہ گویا انہوں نے اس کے مقابلے میں گول تک پہنچنا ہے ۔ اس لئے ایسے لوگ نہایت قوت ‘ نہایت جرأت اور نہایت ہی تیزی سے آگے بڑھتے ہیں ‘ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید پیچھے سے انہیں کوئی دھکیل رہا ہے کہ آگے بڑھو یا آگے سے کوئی انہیں پکار رہا ہے کہ جلدی پہنچو یہ ہے تمہارا انعام ۔ آپ کا یہ غبار خاطر اور رنج وغم اللہ کی اس مخلوق کے لئے تھا ۔ آپ حسرت سے انہیں دیکھتے تھے کہ یہ لوگ آستین چڑھائے آگ کی طرف تیزی سے گامزن ہیں اور آپ وہ قوت نہیں پا رہے کہ انہیں بزور بازو روک دیں ۔ یہ لوگ اللہ کی طرف سے بار بار کے ڈراوے کی طرف بھی کان نہیں دھرتے ۔ پھر آپ اس سے بھی پریشان ہوتے ہیں کہ یہ لوگ جو آستین چڑھائے جہنم کی طرف سرپٹ دوڑ رہے ہیں ‘ وہ صرف اپنے آپ ہی کو مصیبت میں مبتلا نہیں کررہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اہل اسلام کے لئے بھی رنج والم اور درد ودکھ کا باعث بن رہے ہیں ۔ یہ لوگ دعوت اسلامی کو بھی دکھ دے رہے ہیں اور جمہور کے اندر اس کے پھلاؤ کو بھی روک رہے ہیں ۔ اس لئے کہ جمہور عربب یہ دیکھ رہے تھے کہ مدینہ اور مکہ کی معرکہ آرائی کا انجام کیا ہوتا ہے تاکہ وہ بھی اس صف میں شامل ہوجائیں جس کا مستقبل روشن ہو۔ جب قریش مسلمان ہوگئے اور انہوں نے سرتسلیم خم کرلیا تو تمام لوگ اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوگئے ۔ اور اس بات میں شک نہیں کہ اس صورت حال کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے دل پر اثرات تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کو مطمئن کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔ آپ کو تسلی دی گئی اور آپ کے غبار خاطر کو دور کیا گیا۔ وَلا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ” اے پیغمبر جو لوگ آج کفر کی راہ میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں۔ یہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہ سکیں گے۔ “……یہ کمزور بندے اس جو گے نہیں ہوسکتے کہ وہ اللہ کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ اور یہ بات محتاج بیان ہی نہیں ہے ‘ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ نظریاتی جنگ نظریاتی رہے اور مشرکین کے ساتھ معرکہ اپنی جگہہ رہے ۔ اور یہ خود اس کی جنگ اور اس کا معرکہ رہے ۔ اس لئے رسول اللہ ﷺ کے کندھوں سے اس ذمہ داری کو اٹھالیا جاتا ہے ۔ اسی طرح مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری نہیں رہتی کہ وہ لوگوں کے نظریات تبدیل کرنے کے پابند ہوں ۔ جو لوگ کفر کے اندر تیزی دکھا رہے ہیں وہ درحقیقت اللہ کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اور اللہ کے ساتھ اس جنگ میں انہیں ہرگز کامیابی نہیں ہوسکتی ‘ اس لئے کہ وہ اس ذات باری کے مقابلے میں بہت ہی ضعیف ہیں ۔ لہٰذا وہ دعوت اسلامی کو مآل کار کوئی ضرر نہیں پہنچاسکتے ۔ اور اس سے نتیجہ خود بخود نکل آتا ہے کہ وہ ان حاملین دعوت اسلامی کو بھی نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں جنہیں وہ اس وقت شکست خوردہ سمجھتے ہیں ۔ چاہے جس قدر بھی وہ سرعت دکھائیں اور جس قدر بھی وہ اہل دعوت کو اذیتیں دے دیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے انہیں یہ کھلی چھٹی کیوں دے رکھی ہے کہ وہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جائیں اور اپنے غلبہ کی وجہ سے پھولے نہ سمائیں ۔ حالانکہ وہ اللہ کے براہ راست دشمن ہیں ۔ اس لئے کہ اللہ نے ان کے لئے نہایت ہی برا اور نہایت ہی رسواکن انجام تیار کررکھا ہے۔ يُرِيدُ اللَّهُ أَلا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الآخِرَةِ……………” اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ رکھے ۔ “ اللہ یہ چاہتا ہے کہ وہ اپناتمام سرمایہ یہاں ہی ختم کردیں اور اپنے تمام گناہوں کو اٹھائے ہوئے ہوں اور آخرت میں تمام عذاب کے سزاوار ہوجائیں اور یہ کفر کی راہ میں تیزی سے آگے بڑھ کر اپنی آخری منزل تک پہنچ جائیں ۔ اس لئے کہ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ……………” ان کے لئے بڑا عظیم عذاب ہے ۔ “ اور ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس شرمناک انجام کا ارادہ کیوں کرلیا ہے ؟ اس لئے کہ انہوں نے خود اپنی مرضی سے ایمان کے بدلے میں کفر خرید کر اپنے آپ کو اس کا مستحق بنالیا ہے ۔
Top