Fi-Zilal-al-Quran - Al-Ahzaab : 9
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَآءَتْكُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًاۚ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ایمان والو اذْكُرُوْا : یاد کرو نِعْمَةَ اللّٰهِ : اللہ کی نعمت عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْ جَآءَتْكُمْ : جب تم پر (چڑھ) آئے جُنُوْدٌ : لشکر (جمع) فَاَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجی عَلَيْهِمْ : ان پر رِيْحًا : آندھی وَّجُنُوْدًا : اور لشکر لَّمْ تَرَوْهَا ۭ : تم نے انہیں نہ دیکھا وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرًا : دیکھنے والا
اے لوگو ، جو ایمان لائے ہو ، یاد کرو اللہ کے احسان کو جو (ابھی ابھی) اس نے تم پر کیا ہے۔ جب لشکر تم پر چڑھ آئے تو ہم نے ان پر ایک سخت آندھی بھیج دی اور ایسی فوجیں روانہ کیں جو تم کو نظر نہ آتی تھیں۔ اللہ وہ سب کچھ دیکھ رہا تھا جو تم لوگ اس وقت کر رہے تھے
درس نمبر 189 ایک نظر میں جنگلی حیات اور حادثات کے میدان کارزار میں اسلامی شخصیت کی تشکیل ہو رہی تھی۔ ہر نئے دن کے طلوع ہوتے کے بعد اور ہر نئے حادثے کے بعد یہ شخصیت واضح ہوتی جاتی تھی۔ اس کے خدوکال نکھر کر سامنے آتے تھے۔ جماعت مسلمہ ان شخصیات سے تشکیل پا رہی تھی جن کی خاص صلاحیتیں تھیں۔ ان کی خاص اقدار حیات تھیں اور تمام دوسری سوسائیٹوں سے اس کا رنگ ڈھنگ بالکل مختلف تھا۔ اس جماعت کے خلاف دور کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا اور یہ واقعات جماعت کے لیے بڑا فتنہ بن جاتے اور یہ فتنہ اس طرح ہوتا تھا جس طرح سونے کا ” فتنہ “ ہوتا ہے۔ اس فتنے سے اصلی جوہر اور کھوٹ علیحدہ ہوجاتے تھے۔ انسانوں کی حقیقت اور ان کا اصل جوہر سامنے آجاتا تھا۔ جھاگ دور ہوجاتی تھی اور خالص سونا جدا ہوجاتا تھا۔ یوں اسلامی سوسائٹی سے ایسی قدریں ختم ہوجاتی تھیں جن میں ملاوٹ ہوتی تھی۔ ان ابتلاؤں میں قرآن کریم نازل ہوتا تھا یا واقعات و حادثات کے بعد ان پر تبصرہ ہوتا تھا۔ اس تبصرے میں واقعات بتائے جاتے ، ان پر روشنی ڈالی جاتی اور ان کے نشیب و فراز بتائے جاتے۔ یوں ہر ایک کا موقف سامنے آتا۔ ضمیر و شعور اور نیت و ارادے کی اصلاح ہوتی اور ان واقعات کی روشنی میں لوگوں کو ہدایت دی جائیں اور وہ ہدایات اچھی طرح ان کی سمجھ میں آجائیں لوگ ان ہدایات سے اچھی طرح متاثر ہوتے اور اپنی اصلاح کرتے۔ یوں اسلامی جماعت کی تربیت ہر دن کے بعد ہوتی رہتی اور ہر حادثے کے بعد اسے ہدایات ملتی رہتیں۔ اسلامی نظام حیات کے اہداف کے مطابق اس جماعت مسلمہ کی شخصیت بنتی اور وہ ان تبصروں سے تاثرات ملتے۔ یوں نہیں ہوا کہ تمام احکام اور ہدایات ایک ہی باز نازل کرکے مسلمانوں کے سامنے رکھ دئیے گئے ہوں اور پھر یہ کہا گیا ہو کہ جاؤ ان پر عمل کرو۔ بلکہ یہ ہدایات اور یہ قوانین واقعات کے بعد نازل ہوتے رہے ، آزمائش آتیں ، فتنے آتے اور واقعات پیش آتے ، ادھر سے وحی آجاتی کیونکہ اللہ خالق کریم کو یہ علم تھا کہ انسان اخلاق کو صرف تدرئج ہی کے ساتھ اچھی طرح نئے سانچے میں ڈھالا اور اچھی طرح پختہ کیا جاسکتا ہے۔ انسانی اخلاق کی نوک پلک صرف آزمائشوں اور واقعات و حادثات کی شکل میں درست کی جاسکتی ہے۔ یعنی واقعاتی تجربات کی صورت میں۔ کیونکہ عملی تجربات کے نتیجے میں بات دلوں کی تہ تک اتر جاتی ہے اور اعصاب بھی اس کے مطابق حرکت کرنے لگتے ہیں۔ یہ اعصاب پھر اس طرح جدید ردعمل ظاہر کرتے ہیں جس طرح معرکہ کا رزار میں یا واقعات اور حادثات میں انسان کا فطری ردعمل ہوتا ہے۔ ایسے واقعات میں جب قرآن نازل ہوتا تو وہ بتا دیتا کہ یہ واقعہ کیا ہے۔ اس کے پیچھے کیا عوامل ہیں اور اس میں ایک مسلمان کا اسلامی ردعمل کیا ہونا چاہئے۔ اس طرح اسلامی شخصیت آزمائشوں کی بھٹی سے صاف و ستھری ہوکر نکل آتی ، نکھر آتی ، آزمائش کی تپش اس کے اخلاقی جسم سے ہر قسم کا کھوٹ نکال کر رکھ دیتی اور اب اسلام جس سانچے میں چاہتا ، ان شخصیات کو ڈھال لیتا۔ یہ ایک عجیب دور تھا جو مسلمانوں نے نبی ﷺ کی قیادت میں گزارا۔ اس میں آسمانوں و زمین کے قلابے ملے ہوئے تھے۔ آسمان سے اہل زمین کا براہ راست رابطہ تھا۔ تمام واقعات اور تمام مکالمات میں آسمان سے ہدایت آجاتی۔ ہر مسلمان رات اور دن یوں زندگی بسر کر رہا تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے سن رہا ہے۔ ابھی کوئی ہدایت یا تبصرہ نہ آجائے۔ اس کا کوئی کلمہ ، اس کی کوئی حرکت بلکہ اس کا کوئی ارادہ نزول وحی کا سبب نہ بن جائے۔ لوگوں کے سامنے ظاہر نہ ہوجائے ، رسول اللہ کے پاس سے اس کے بارے میں کوئی تبصرہ نہ آجائے۔ گویا ہر مسلمان محسوس کرتا تھا کہ وہ رب تعالیٰ کے ساتھ براہ راست منسلک ہے۔ اگر اسے کوئی معاملہ درپیش ہوتا یا کوئی مشکل درپیش ہوتی تو وہ انتظار کرتا کہ اس کے بارے میں کوئی فتویٰ ، کوئی ہدایت ، کوئی فیصلہ آسمان سے آجائے اور اللہ بتا دے بذات خود ، اے فلاں تم نے یہ کہا ، تم نے یوں کہا ، تم نے یوں سوچا۔ یہ ظاہر کیا اور چھپایا ، یوں کرو ، یوں نہ کرو ، اور ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو۔ یہ ایک عجیب دور تھا کہ اللہ کا ایک متعین حکم کسی متعین شخص کے بارے میں آپہنچتا۔ اور یہ حکم پھر اس کے لیے بھی ہوتا اور تمام اہل زمین کے لیے بھی ہوتا۔ زمین کے ذرے ذرے کے لیے ہوتا۔ پوری زمین کے لیے ہی ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عجیب دور تھا ۔ آج جب انسان اس کے بارے میں سوچتا ہے اس کے واقعات اور حادثات کو دہراتا ہے ، پڑھتا ہے ، پڑھاتا ہے تو وہ اچھی طرح ایک نقشہ ذہن میں لاسکتا ہے ، ایک منظر دیکھ سکتا ہے کہ کس قدر عجیب دور تھا یہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی تربیت صرف اس شعور کے ذریعہ ہی نہیں کی کہ ان کی شخصیت کو پختہ کردیا جائے بلکہ ان کو عملی تجربوں سے گزارا گیا۔ ان کو آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا جس میں ان کا نقصان بھی ہوا لیکن فائدے بہت ہوئے اور یہ سب امور اللہ کی گہری حکمتوں کے مطابق سر انجام پاتے ، کیونکہ اللہ علیم وخبیر ہے اور وہ اپنی مخلوق کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے۔ یہ حکمت کیا تھی ؟ ہمیں اس پر ذرا طویل غوروفکر کرنا چاہئے تاکہ ہم اسے معلوم کرلیں ، پھر اس پر تدبر کریں۔ اور پھر ہم زندگی کے واقعات ، آزمائشوں پر اس کی روشنی میں غور کریں۔ اس سبق میں تحریک اسلامی کو پیش آنے والے ایک بڑے واقعہ کی تشریح کی گئی ہے۔ اور اسلامی تاریخ کے اس واقعہ میں جماعت مسلمہ کے لیے ایک بڑی آزمائش تھی اور یہ وقت امت مسلمہ پر بہت برا وقت تھا۔ بڑی مشکل دور سے تحریک گزر رہی تھی۔ یعنی غزوہ احزاب کا دور۔ یہ جنگ ہجرت کے پانچویں یا چوتھے سال میں پیش آئی۔ یہ اس نئی اٹھنے والی تحریک کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی۔ تحریک اسلامی کی تمام اقدار اور تمام نظریات داؤ پر تھے۔ ان آیات پر غور کرنے سے غزوہ احزاب کے واقعہ کے پیش کرنے سے ، اس کے اسلوب بیان سے ، بعض واقعات پر تبصرے سے ، بعض لوگوں کی حرکتوں سے ، بعض افراد کی سوچ سے ، اور بعض لوگوں کے خدشات سے اور پھر اس جنگ میں سامنے آنے والی اقدار سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ امت مسلمہ کی تربیت کس خوش اسلوبی سے فرما رہے تھے۔ جنگ احزاب جیسے اہم واقعہ پر قرآن کریم کس انداز سے تبصرے کرتا ہے اور امت کو کس انداز سے ہدایات دیتا ہے۔ قرآنی نصوص کی تشریح سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس واقعہ کی پوری تفصیل ذرا اختصار سے کتب سیرۃ سے نقل کردی جائے۔ اس سے ہم تقابلی مطالعہ کرسکیں گے کہ انسان واقعات کو کس طرح بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے تبصرہ کیسے ہوتا ہے۔ محمد ابن اسحاق نے اپنی سند کے ساتھ ایک جماعت سے نقل کیا ہے ۔۔۔ جنگ خندق کے واقعات میں یہ ہے کہ کچھ یہودی جن میں سے سلام ابن ابو الحقیق نضری ، یحی ابن اخطب نضری ، کنانہ ابن ابو الحقیق نضری ، ہودہ ابن قیس وائلی اور ابو عماد وائلی تھے اور ان کے ساتھ کچھ لوگ بنو نضیر ، کچھ لوگ بنی وائل کے بھی تھے۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے رسول اللہ کے خلاف لشکر جمع کیے۔ یہ سب سے پہلے گھروں سے نکلے ، قریش سے ملے اور ان کو دعوت دی کہ رسول خدا کے خلاف جنگ کریں اور انہوں نے کہا کہ ہم تمہارا ساتھ اس وقت تک دیں گے جب تک اس کو بنیاد سے نہ اکھاڑ دیں۔ قریش نے کہا ، اے ملت یہود ، تم لوگ پہلی کتاب کے حاملین ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے اور محمد ﷺ کے درمیان کیا اختلاف ہے ، تم لوگ بتاؤ کہ اس کا دین اچھا ہے یا ہمارا۔ تو انہوں نے کہا اس کے دین سے تمہارا دین سچا ہے اور اس کے مقابلے میں تم زیادہ برحق ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں یہ آیات اتریں : الم تر الی الذین ۔۔۔۔۔۔ امنوا سبیلا (4: 51) ” کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں “۔ یہاں سے لے کر آیات ام یحسدون الناس علی ما اتھم ۔۔۔۔۔۔۔ وکفی بجھنم سعیرا (4: 54 – 55) ” پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیم کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا۔ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لائے اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا اور منہ موڑنے والوں کے لیے تو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے “۔ جب انہوں نے قریش کو یہ فتویٰ دیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور جوش میں آگئے اور رسول اللہ کے خلاف لڑنے کی حامی بھرلی۔ یہ لوگ اب قریش کو چھوڑ کر غطفان کے پاس گئے ، جو قیس غیلان کی نسل سے ہیں۔ انہوں نے ان کو بھی دعوت دی کہ وہ حضرت محمد ﷺ کے خلاف لڑیں انہوں نے ان کو بتایا کہ وہ خود بھی ساتھ دیں گے اور قریش بھی ساتھ دیں گے۔ لہٰذا تم لوگ قریش کے ساتھ میٹنگ کرو۔ چناچہ قریش کا یہ لشکر ابو سفیان ابن حرب کی سر براہی میں ، غطفان اپنے سردار عبینہ ابن حنن بن فزاری کے ساتھ ، اور حارث ابن عوف بنی مروہ کے ساتھ اور مسعر ابن امیہ اپنے متعین بنی اشجع کے ساتھ نکلے۔ جب رسول اللہ ﷺ کو اس لشکر کشی کی اطلاعات ملیں تو آپ ﷺ نے مدینہ کے اردگرد خندق کھودنا شروع کردی۔ خندق کھودنے میں رسول اللہ ﷺ نے بھی کام کیا اور مسلمانوں نے بھی کام کیا۔ آپ نے بھی جانفشانی سے کام کیا اور مسلمانوں نے بھی سخت جانفشانی سے کام کیا۔ اس کام میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے مقابلے میں بعض منافقین نے نہایت سست روی سے کام لیا۔ وہ بہت چھوٹے موٹے کاموں میں لگ جاتے اور بغیر اذن رسول ﷺ کے کھسک جاتے۔ وہ گھروں کو چلے جاتے اور رسول اللہ کو علم بھی نہ ہوتا۔ اور مسلمانوں کی روش یہ ہوتی کہ اگر کسی کا کوئی ضروری کام پیش آتا تو وہ رسول اللہ ﷺ سے اجازت لے کر چلا جاتا اور کام کرکے جلدی سے واپس آجاتا۔ اور نہایت ہی ذوق و شوق سے کام کرتا۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی : انما المومنون باللہ ۔۔۔۔۔ ان اللہ غفور رحیم (24: 62) ” مومن تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقعہ پر رسول کے ساتھ ہوں تو اس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں۔ اے نبی جو لوگ تجھ سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں۔ پس وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے چاہو ، اجازت دے دیا کرو۔ اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو۔ اللہ غفور و رحیم ہے “۔ اس کے بعد اللہ نے ان لوگوں کے بارے میں کہا جو بغیر اجازت کے کھسک جاتے تھے اور کام چوری کرتے تھے۔ لاتجعلوا دعآء الرسول ۔۔۔۔۔۔ او یصیبھم عذاب الیم (24: 63) ” مسلمانوں ! اپنے درمیان رسول کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کا سا بلا نا نہ سمجھ بیٹھو۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو تم میں ایسے ہیں کہ ایک دوسرے کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ فتنے میں گرفتار نہ ہوجائیں یا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے “۔ جب رسول اللہ ﷺ خندق سے فارغ ہوئے تو قریش حبشیوں ، کنانہ اور تہامہ کا ایک بڑا لشکر حراپرلے کر پہنچ گئے۔ یہ مقام درمہ کے مجمع اسیال پر اترے اور عطفان اور ان کے تابع دوسرے کچھ قبائل احد کے پاس ذنب نقمی پر اترے۔ اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمان تین ہزار کی تعداد میں تھے۔ اسلامی لشکر کی پشت کوہ سلع کی طرف تھی ۔ یہ لشکر یہاں اترا اور احزاب اور مسلمانوں کے لشکر کے درمیان خندو تھی۔ بچوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ وہ قلعہ بند ہوجائیں۔ اللہ کا دشمن حیی ابن اخطب نضری ، کعب ابن اسد قرظی سے ملا۔ یہ صاحب تھے جنہوں نے بنی قریظہ کی طرف سے عہد کیا تھا اس نے اپنی قوم کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو یقین دہانی کرائی تھی اور ان پر رسول اللہ ﷺ سے عہد و سمان کیا تھا۔ حبی کعب ابن اسد سے چپکا رہا اور اسے رسول اللہ ﷺ کے خلاف آمادہ کرتا رہا۔ اسے دھوکہ دینے کے لیے بار بار چکر لگاتا رہا۔ یہاں تک کہ اس نے اس سے بھی وعدہ لے لیا کہ اگر قریش اور عطفان واپس ہوگئے اور محمد پر حملہ آور نہ ہوئے تو میں تمہارے ساتھ تمہارے قلعہ میں رہوں گا تاکہ مجھے بھی وہ بات نہ پہنچ جائے جو تجھے پہنچے۔ ان یقین دہانیوں پر کعب ابن اسد نے حضور اکرم ﷺ سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور اس کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان جو عہد تھا ، اس سے براءت کا اظہار کردیا۔ اس پر مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا اور خوف و ہراس پھیل گیا۔ اب اوپر سے بھی دشمن حملہ آور ہوگیا اور نیچے سے بھی۔ مسلمانوں نے ہر قسم کے خیالات دل میں دوڑانے شروع کر دئیے۔ بعض منافقین کا نفاق بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا ۔ ایک شخص مصعب ابن قیصر ، بنی عمر ابن عوف قبیلے کے فرد سے یہ کہتے سنا گیا ” محمد ﷺ تو ہم سے یہ وعدے کرتے تھے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے کھائیں گے اور آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم ، میں سے کوئی بےخوف ہو کر قضائے حاجت کے لیے نہیں جاسکتا “۔ اور قبیلہ بنی حارثہ کے ایک شخص اوس ابن قیظی کہنے لگا ” حضور ہمارے گھرغیر محفوظ ہیں اور یہ بات انہوں نے اپنی قوم کے سامنے کہی تو آپ ہمیں اجازت دے دیں کہ ہم لوگ اپنے گھروں کو چلے جائیں کیونکہ ہمارے گھر مدینہ سے باہر ہیں “۔ رسول اللہ ﷺ بھی ڈٹے رہے اور مشرکین بھی تقریباً ایک ماہ تک پڑے رہے۔ جنگ صرف تیروں اور محاصرے تک محدود رہی۔ جب لوگوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا تو حضور ﷺ نے ایک وفد عبینہ ابن حصن اور حارث ابن عوف کی طرف بھیجا۔ یہ دونوں غطفان کے لیڈر تھے۔ ان کو یہ پیش کش کی کہ ہم مدینہ کی کھجوروں کا 3/1 حصہ ادا کریں گے اس شرط پر کہ تم لوگ اپنے آدمیوں کو لے کر واپس ہوجاؤ۔ صلح کے مذاکرات ہوئے ، ایک معاہدے کا مسودہ بھی تیار ہوگیا۔ شہادت اور دستخط ابھی نہ ہوئے تھے جب حضور ﷺ نے دستخط کرنا چاہئے تو آپ نے سعد ابن معاذ رئیس اوس اور سعد ابن عبادہ رئیس خزرج کو بلایا اور ان کے سامنے اس معاہدے کا تذکرہ کیا اور مشورہ طلب کیا۔ انہوں نے کہا حضور اکرم ﷺ اگر آپ اس معاہدے کو پسند کرتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے ، دستخط کردیں۔ یا اگر اللہ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر۔ اور اگر یہ بات آپ ہمارے مفاد میں کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا میں یہ صرف تمہاری خاطر کرنا چاہتا ہوں۔ میں تو یہ اس لئے کر رہا ہوں کہ تمام عرب ایک ہی کمان سے تمہارے خلاف تیراندازی کر رہے ہیں اور ہر طرف سے تمہارے اوپر ٹوٹ پڑے ہیں۔ تو میں نے سوچا کہ ان کی قوت میں کچھ کمی کر دوں “۔ اس پر سعد ابن معاذ نے فرمایا ہم اور یہ لوگ سب شرک پر تھے۔ اور بتوں کی بندگی کرتے تھے۔ نہ اللہ کی بندگی کرتے تھے اور نہ اللہ کو پہچانتے تھے۔ یہ لوگ ہم سے کھجور کا ایک دانہ بھی نہ لے سکتے تھے الایہ کہ بیعہ خریدتے یا بطور مہمان نوازی کے ہم ان کو کھلاتے۔ اب جبکہ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ہے اور ہمیں ہدایت دی ہے اور آپ کے ذریعہ ہمیں اعزاز دیا ہے تو کیا اب ہم ان کو اپنا دل دے دیں۔ ہمیں اس رعایت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ تلوار کرے گی۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا جو آپ کی مرضی ہو۔ سعد ابن معاذ نے وہ مسودہ لیا اور اس کے اندر جو کچھ لکھا تھا ، مٹا دیا۔ اس نے کہا وہ ہمارے خلاف جو کچھ کرنا چاہیں کریں۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان نہایت خوف اور شدت کی حالت میں رہے۔ کیونکہ دشمن نے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور اس کی قوت زیادہ تھی۔ یہودیوں نے ان کے ساتھ معاہدہ کرلیا تھا کہ وہ خیبر کی کھجوریں دیں گے ۔ اگر وہ اس موقعہ پر ان کی امداد کریں (تبریزی) ۔ حضرت ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ کئی شدت اور سرخف کے مقامات پر رہی ہوں۔ غزوہ مریسع ، خیبر ، حدیبیہ ، فتح مکہ ، حنین۔ ان میں سے کسی جگہ حضور ﷺ نے تھکاوٹ محسوس نہیں کی۔ نہ زیادہ خائف ہوئے ، جس قدر تھکاوٹ اور خوف خندق میں تھا۔ بنی قریظہ عورتوں اور بچوں کے قریب تھے۔ مدینہ میں ساری رات پہرہ ہوتا تھا ۔ ہم مسلمانوں کا نعرہ تکبیر صبح تک سنتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے خود بخود ان کو واپس کردیا۔ ایک اہم واقعہ یہ ہوا کہ ایک شخص نعیم ابن مسعود ابن عامر غطفانی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے کہا رسول خدا ﷺ میں مسلمان ہوشکا ہوں لیکن میری قوم کو میرے اسلام کا پتہ نہیں۔ آپ جو خدمت میرے سپرد کریں ، اس وقت کرسکتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا ” ہم میں آپ واحد آدمی ہیں تو جس طرح ہوسکے ، لوگوں کو ہمارے خلاف جنگ کرنے سے روک لیں کیونکہ جنگ ایک قسم کی چال ہوتی ہے۔ اس نے ایک ایسی کاروائی کی جس کی وجہ سے ان احزاب اور بنو قریظہ کے درمیان اعتماد ختم ہوگیا۔ اس کی تفصیلات کتب سیرت میں مفصلاً موجود ہیں ۔ اللہ نے احزاب کے اندر بھی بددلی پیدا کردی اور ایک ایسا طوفان بادوباراں بھیجا کہ سردیوں کی شدید ٹھنڈی رات میں ان کے خیمے اکھڑ گئے ، ان کی ہانڈیاں الٹ گئیں اور چولہے بجھ گئے۔ ۔ جب رسول اللہ ﷺ تک ان کے اختلافات پہنچے ، اور ان کی اجتماعیت ختم ہوگئی تو اس آخری رات کے حالات معلوم کرنے کے لئے حضور ﷺ نے حضرت حذیفہ ابن الیمان کو بھیجا۔ محمد ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ میرے سامنے زید ابن زیاد ابن محمد ابن کعب قرظی نے روایت کی ہے ” ایک کوفی باشندے نے حضرت حذیفہ ابن الیمان سے کہا : ابو عبد اللہ ! تم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے اور آپ کے ساتھ صحبت کی ہے۔ تو اس نے کہا ہاں بھتیجے ، میں نے دیکھا اور صحبت کی۔ تو پھر تم کیا کرتے تھے ؟ خد ا کی قسم ہم بہت جدوجہد کرتے تھے تو اس شخص نے کہا خدا کی قسم اگر ہم رسول اللہ ﷺ کو پاتے تو اسے ہرگز زمین پر چلنے نہ دیتے۔ اور اپنی گردنوں پر انہیں اٹھائے رکھتے۔ اس پر حضرت حذیفہ نے فرمایا : بھتیجے ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ جنگ خندق میں حصہ لیا۔ یوں ہوا کہ حضور ﷺ نے رات کے ایک حصے میں نماز پڑھی اور پھر ہماری جانب متوجہ ہوئے۔ کون ہے جو اٹھے اور جاکر معلوم کرے کہ یہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ پھر وہ واپس آجائے۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے واپسی کی شرط لگائی۔ میں اللہ سے سوال کروں گا کہ وہ جنت میں میرا ساتھی ہو “۔ اس قدر شدید خوف تھا کہ کوئی نہ اٹھا۔ اس قدر بھوک تھی کہ کسی میں تاب نہ تھی اور سردی بھی شدید تھی۔ جب کوئی نہ اٹھا تو مجھے رسول اللہ ﷺ نے پکارا۔ جب حضور ﷺ نے میرا نام لیا تو میرے لیے اب کوئی چارہ کار نہ تھا۔ فرمایا ” حذیفہ جاؤ، ان لوگوں میں داخل ہوجاؤ، دیکھو وہ کیا کرتے ہیں اور کوئی بات نہ کرو جب تک ہمارے پاس نہ آجاؤ “۔ حذیفہ کہتے ہیں میں گیا۔ لشکر کے اندر داخل ہوگیا۔ طوفان اور اللہ کے لشکر ان کے ساتھ وہ کچھ کر رہے تھے جو کر رہے تھے۔ ہانڈیاں اپنی جگہ ٹھہر نہ سکتی تھیں۔ آگ سلک نہ سکتی تھی۔ ابوسفیان کھڑا ہوا ، حکم دیا کہ ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے بارے میں تسلی کرے۔ میں نے پہلے ہی اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھ لیا کون ہو ؟ تو اس نے بتایا فلاں ابن فلاں۔ اس کے بعد ابو سفیان نے کہا اہل قریش اب یہاں مزید نہیں رہ سکتے۔ گھوڑے اور اونٹ ہلاک ہوگئے۔ بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کردی اور ان کی جانب سے ہمیں وہ جواب ملا جسے ہم ناپسند کرتے ہیں ، طوفان اس قدر ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ ہنڈیا اپنی جگہ قرار نہیں پکڑتی ، آگ نہیں جلتی ، خیمے اکھڑ گئے۔ لہٰذا کون کرو میں تو یہ گیا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا۔ اپنے اونٹ کو اٹھایا۔ وہ تین ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا اور اس کا عقال اس نے کھڑے کھڑے کھولا۔ اگر مجھے رسول اللہ ﷺ نے یہ حکم نہ دیا ہوتا کہ کوئی بات نہ کرو جب تک میرے پاس نہ آجاؤ تو میں ایک ہی تیر مار کر ابو سفیان کا کام تمام کردینا۔ حذیفہ کہتے ہیں کہ میں جب واپس پہنچا تو دیکھا کہ حضور ﷺ کھڑے ہیں اور ایک ایسی چادر میں نماز پڑھ رہے ہیں جو لمبی تھی اور منقش تھی۔ یہ آپ ﷺ کی ازواج میں سے کسی کی تھی۔ جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے پاؤں کے نیچے چادر میں داخل کرلیا اور چادر کا ایک حصہ مجھ پر ڈال دیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے رکوع کیا اور سجدہ کیا اور میں چادر ہی میں لپٹا رہا۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو میں نے آپ ﷺ کو پوری اطلاع دی۔ اب غطفان نے جب سنا کہ قریش نے یہ کام کیا ہے تو وہ بھی اپنے علاقوں کی طرف واپس ہوگئے۔ قرآن کے ان نصوص میں اشخاص کے نام نہیں لیے گئے۔ بلکہ لوگوں کے نمونے دئیے گئے ہیں اور واقعات کی تفصیلات اور جزئیات بھی قرآن نے چھوڑ دی ہیں۔ قرآن نے وہ اقدار ، وہ کردار اور وہ طرز عمل یہاں ریکارڈ کیے ہیں جو نمونہ ہیں اور ہمیشہ رہنے والے ہیں۔ وہ کردار جو کسی واقعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ، جو کسی شخص کے ساتھ مخصوص نہیں۔ جو حالات کے مٹ جانے سے مٹتے نہیں۔ وہ کردار اور وہ قدریں یہاں درج کردی ہیں جو آیندہ کی نسلوں کے لیے نمونہ عبرت ہیں اور ہر گروہ کیلئے معیار مطلوب ہیں۔ قرآن کریم تمام واقعات اور حادثات کو اللہ کی تدبیر اور تقدیر کے ساتھ منسلک کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ دست قدرت کس کس مرحلے پر مسلمانوں کا معاون رہا اس معرکے کے ہر مرحلے میں تدبیر الٰہی نے اپنا کام کیا اور قرآن نے ہر مرحلے کا تبصرہ پیش کیا قرآن کریم نے یہ قصہ ان لوگوں کے سامنے دہرایا۔ جو اس کے اندر موجود تھے جو اس کے کردار تھے۔ لیکن قرآن کریم وہ اسباب بھی ان کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے جن کا انہیں علم نہ تھا۔ ان واقعات و حادثات کے وہ پہلو جو نظروں سے اوجھل تھے حالانکہ وہ اس کہانی کے کردار تھے۔ قرآن کریم نفس انسانی کے نشیب و فراز کو بھی کھول کر ان کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ وہ لوگوں کے ضمیر کے میلانات بتاتا ہے اور بتاتا ہے کہ لوگوں کے دلوں کے اندر کیا کیا خلجانات پیدا ہوگئے تھے۔ ان باتوں کے علاوہ انداز بیان کی خوبصورتی ، اس کا رعب اور شوکت کلام ، بات کی قوت اور حرارت اور منافقین کے بارے میں مزاحیہ انداز ، اور ان کے نفاق کے پیچ و تاب اور مسلمانوں کی شجاعت اور ایمان ، صبر اور اللہ پر پورا بھروسہ ، غرض یہ سب باتیں قرآن نہایت خوبصورتی کے ساتھ قلم بند کرتا ہے۔ یہ نصوص قرآنی دراصل ہر پڑھنے والے کو عمل پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ صرف ان لوگوں کو آمادہ نہیں کرتیں جن لوگوں نے یہ معرکے لڑے اور ان میں ان کا بنیادی کردار رہا اور انہوں نے سب کچھ دیکھا بلکہ زمانہ مابعد کے تمام ادوار اور معاشروں میں بھی یہ نصوص ابھارنے والی ہیں ، جب بھی تحریک اسلامی کو ایسے ہی حالات سے واسطہ پڑتا ہے جیسا کہ ان لوگوں کو پڑا اگرچہ بہت زمانہ گزر چکا ہو۔ اگر جدید ترین متنوع معاشروں میں بھی ایسے حالات پیش ہوں تو بعینہ اسی طرح یہ نصوص ایک مومن کو متحرک رکھتی ہیں جس طرح قرون اول میں انہوں نے مسلمانوں کو متحرک رکھا۔ ان نصوص کو صحیح طرح وہی شخص سمجھ سکتا جس کے لیے ویسے ہی حالات درپیش ہوں جس طرح جنگ احزاب میں اس وقت کے مسلمانوں کو درپیش تھے۔ جب ایسے حالات ہوں پھر ان آیات سے ہدایات کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اسلام کے لیے کام کرنے والوں کے دل ان کے معانی کے لیے کھل جاتے ہیں۔ اب قرآن کے کلمات اور سطریں قوت اور اسلحہ بن جاتی ہیں اور کارکن ایسے ہی معرکوں میں کود جاتا ہے۔ پھر یہ آیات زندہ ، بیدار ، آگے بڑھنے والے لوگ پیدا کرتی ہیں اور یہ لوگ ایک حقیقی تحریک لے کر آٹھتے ہیں ۔ قرآن کریم کی یہ نصوص عالم واقعہ میں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں۔ یاد رہے کہ قرآن کریم محض تلاوت اور علمی مباحث کی کتاب نہیں ہے۔ یہ کام تو بہت ہوچکا ، یہ تو ایک زندگی ہے ، اچھلتی آگے بڑھتی زندگی۔ یہ تو نئے نئے واقعات کے لیے نئی نئی ہدایات ہیں۔ جب بھی کوئی دل ان نصوص کو سمجھے ان کے ہمقدم ہو کر چلے ، ان پر لبیک کہے تو ان نصوص کے اندر پوشیدہ قوت کے سرچشمے پھوٹ پڑتے ہیں ۔ یہ ہے اس کتاب کا راز کہ اس کے اندر انفجار و قوت کے ذخائر ہیں۔ ایک انسان ایک آیت کو ہزار بار پڑھتا ہے ، پھر وہ ایسے موقف اور ایسے حادثے کا شکار ہوتا ہے اور جب وہ اسی آیت کو پڑھتا ہے تو یہ وہ آیت نہیں ہوتی۔ یہ بالکل ایک نئی آیت ہوتی ہے۔ یہ اسے وہ کچھ بتلاتی ہے جو پہلے نہ بتلاتی تھی۔ یا اس کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ یہ حیران کن سوالات کا جواب دینے لگتی ہے۔ یہ پیچیدہ مشکلات حل کردیتی ہے۔ صاف صاف راستہ بتلاتی ہے۔ ایک سمت متعین کردیتی ہے اور وہ اس دل کو اس معاملے میں عزم بالجزم میں تبدیل کرکے رکھ دیتی ہے اور پڑھنے والے کو پورا پورا اطمینان ہوجاتا ہے۔ درس نمبر 189 تشریح آیات 9 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 27 قرآن کریم اس سورة کا آغاز یوں کرتا ہے کہ اے اہل ایمان اس بات کو ذرا یاد کرو کہ یہ لشکر تمہارے خلاف جمع ہوئے اور ان کا ارادہ یہ تھا کہ تمہیں بیخ و بن سے اکھاڑ کر پھینک دیں اللہ نے محض اپنے کرم سے اور اپنی خاص فوجوں کی مدد سے ان کو نامراد واپس کردیا۔ چناچہ پہلی ہی آیت میں واقعہ کا مزاج ، اس کا آغاز اور اس کا انجام بتا دیا کریں ، اور ان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے کہ اللہ کا منشاء یہ ہے کہ تم اللہ ، رسول ﷺ اور وحی کی اتباع کرو ، اس پر توکل کرو ، اور کافرین اور منافقین کی اطاعت نہ کرو ، اور یہ کہ اللہ کی دعوت اور اس کے نظام پر جو لوگ عمل کرتے ہیں ، اللہ ان کا حامی و مددگار ہوتا ہے بمقابلہ کافرین اور منافقین کے۔ یایھا الذین امنوا ۔۔۔۔۔۔ بما تعملون بصیرا (9) ” “۔ یوں اس اجمالی آغاز ہی میں معرکہ کا آغاز اور انجام قلم بند کردیا گیا۔ اور وہ عناصر بھی بتا دئیے گئے جو اس معرکے میں فیصلہ کن رہے۔ یعنی احزاب کا جمع ہو کر ٹوٹ پڑتا ، اور طوفان باد باراں اور دوسری خدائی افواج کا آنا جو نظر نہ آتی تھیں ، اور اللہ کی نصرت جو اللہ کے علم و تدبیر پر مبنی تھیں اور وہ مسلسل نگرانی کر رہا تھا۔ اب اس کے بعد تفصیلات :
Top