Fi-Zilal-al-Quran - Az-Zumar : 49
فَاِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا١٘ ثُمَّ اِذَا خَوَّلْنٰهُ نِعْمَةً مِّنَّا١ۙ قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِیْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ١ؕ بَلْ هِیَ فِتْنَةٌ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب مَسَّ : پہنچتی ہے الْاِنْسَانَ : انسان ضُرٌّ دَعَانَا ۡ : کوئی تکلیف وہ ہمیں پکارتا ہے ثُمَّ اِذَا : پھر جب خَوَّلْنٰهُ : ہم عطا کرتے ہیں اس کو نِعْمَةً : کوئی نعمت مِّنَّا ۙ : اپنی طرف سے قَالَ : وہ کہتا ہے اِنَّمَآ : یہ تو اُوْتِيْتُهٗ : مجھے دی گئی ہے عَلٰي : پر عِلْمٍ ۭ : علم بَلْ هِىَ : بلکہ یہ فِتْنَةٌ : ایک آزمائش وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان میں اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : جانتے نہیں
یہی انسان جب ذرا سی مصیبت اسے چھو جاتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے ، اور جب ہم اسے اپنی طرف سے نعمت دے کر اپھار دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے ، نہیں بلکہ یہ آزمائش ہے ، مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
آیت نمبر 49 یہ آیت انسانوں کے ایک ایسے نمونے کا ذکر کرتی ہے جو ہر جگہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایسا نمونہ ہے جس کی فطرت نے سچائی تک رسائی حاصل نہیں کی۔ رب واحد کے عقیدے تک نہیں پہنچ سکی کہ اسے صحیح رویہ معلوم ہو اور خوشی اور غم کی حالت میں بھی وہ اپنا صحیح راستہ نہ بھولے۔ مصیبت ، انسانی فطرت کے اوپر سے خواہشات نفسانیہ کی جمی ہوئی دبیز تہوں کو دور کردیتی ہے اور مصنوعی عوامل کو ہٹا کر انسانی ضمیر کے اندر موجود سچائی نکھارتی ہے۔ جب انسان مشکلات سے دوچار ہوتا ہے تو اسے اللہ نظر آتا ہے ” جب کیا تنگ بتوں نے تو خدایاد آیا “ اب خدا کی تعریف ہونے لگتی ہے اور لوگ صرف اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اور جب یہ شدت اور مصیبت ختم ہوجاتی ہے اور خوش حالی اور امن لوٹ آتا ہے تو انسان ان باتوں کو بھول جاتا ہے جو اس نے شدت و مصیبت کے وقت میں کی تھیں اور اس کی فطرت پھر خواہشات نفسانیہ اور وقتی عوامل کے دباؤ میں آجاتی ہے اور اللہ کی نعمتوں اور فضل وکرم کے بارے میں وہ کہتا ہے۔ انمآ اوتیته علی علم (39: 49) ” یہ تو مجھے علم کی بناء پر دیا گیا ہے “۔ یہ بات قارون نے بھی کہی تھی۔ ہر وہ شخص اور قوم جسے یہ دھوکہ ہوجائے کہ اسکے اچھے دن علم و حکمت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہیں۔ یہ اسکی مہارت ہے کہ اسکو مال اور اقتدار ملا ہے۔ ایسے لوگ فضل وکرم کے اصل مصدر سے غافل ہوتے ہیں اور علم دینے والے کو نہیں پہچانتے جو مبب الاسباب ہے اور جو رزق مقرر کرتا ہے۔ یہ ہے امتحان اور آزمائش۔ اسکے ذریعے اللہ معلوم کرتا ہے کہ جس پر فضل وکرم ہورہا ہے ، وہ شکر کریگا یا کفر کرے گا۔ آیا اس فضل وکرم کی وجہ سے اسکی اصلاح ہوتی ہے یا وہ مزید بگڑتا ہے۔ وہ راہ راست لیتا ہے یا گمراہی کی راہ آگے بڑھتا ہے۔ قرآن کریم نے بندوں پر مہربانی کرتے ہوئے یہ راز ان پر کھول دیا ہے اور اس خطرے سے انہیں پیشگی آگاہ کردیا ہے کہ یہ مال اور دولت اور اقتدار وجاہ بھی تمہارے لیے آزمائش ہے۔ قرآن کریم اقوام گزشتہ کے حالات ان پر پیش کر کے ان کو متنبہ کرتا ہے کہ پہلے بھی اس قسم کے لوگوں نے کہا تھا کہ۔ اوتیته علیٰ علم (39: 49) ” یہ تو مجھے علم کی بنا پر دیا گیا ہے
Top