Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 127
وَ یَسْتَفْتُوْنَكَ فِی النِّسَآءِ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِیْهِنَّ١ۙ وَ مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فِی الْكِتٰبِ فِیْ یَتٰمَى النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَ تَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الْوِلْدَانِ١ۙ وَ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰى بِالْقِسْطِ١ؕ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِهٖ عَلِیْمًا
وَيَسْتَفْتُوْنَكَ
: اور وہ آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں
فِي النِّسَآءِ
: عورتوں کے بارہ میں
قُلِ
: آپ کہ دیں
اللّٰهُ
: اللہ
يُفْتِيْكُمْ
: تمہیں حکم دیتا ہے
فِيْهِنَّ
: ان کے بارہ میں
وَمَا
: اور جو
يُتْلٰي
: سنایا جاتا ہے
عَلَيْكُمْ
: تمہیں
فِي الْكِتٰبِ
: کتاب (قرآن) میں
فِيْ
: (بارہ) میں
يَتٰمَي
: یتیم
النِّسَآءِ
: عورتیں
الّٰتِيْ
: وہ جنہیں
لَا تُؤْتُوْنَھُنَّ
: تم انہیں نہیں دیتے
مَا كُتِبَ
: جو لکھا گیا (مقرر)
لَھُنَّ
: ان کے لیے
وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ
: اور نہیں چاہتے ہو کہ
تَنْكِحُوْھُنَّ
: ان کو نکاح میں لے لو
وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ
: اور بےبس
مِنَ
: سے (بارہ) میں
الْوِلْدَانِ
: بچے
وَاَنْ
: اور یہ کہ
تَقُوْمُوْا
: قائم رہو
لِلْيَتٰمٰي
: یتیموں کے بارہ میں
بِالْقِسْطِ
: انصاف پر
وَمَا تَفْعَلُوْا
: اور جو تم کرو گے
مِنْ خَيْرٍ
: کوئی بھلائی
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
كَانَ
: ہے
بِهٖ عَلِيْمًا
: اس کو جاننے والا
(لوگ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتوی پوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے معاملے میں فتوی دیتا ہے ‘ اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو (یا لالچ کی بنا پر تم خود ان سے نکاح کرلینا چاہتے ہو) اور وہ احکام جو ان بچوں کے متعلق ہیں جو بیچارے کوئی زور نہیں رکھتے ۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو ‘ اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی)
درس نمبر 41 ایک نظر میں : اس سورة کے آغاز میں اسلام نے جاہلی معاشرے کی اصلاح کے جس کام کا آغاز کیا تھا یہ سبق اسی کا ایک حصہ ہے ۔ اس اصلاح کا تعلق عورتوں کے حقوق اور خاندانی نظام کے ساتھ ہے ۔ ایک خاندان کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہوتے ہیں ان میں سے بعض یتیم رہ جاتے ہیں ۔ ان کے مسائل اس میں لے گئے ہیں ۔ اسلامی معاشرے کو تنبیہ کی گئی ہے کہ ان مسائل کے اندر جاہلیت کے دور کی جو ناہمواریاں رہ گئی ہیں انہیں دور کیا جائے اور ایک گھرانے کو اس اساس پر اٹھایا جائے کہ اس کے اندر مرد اور عورت دونوں کا احترام ہو ‘ دونوں کی مصلحتوں کا خیال رکھا جائے ۔ خاندان کے اندر جو اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ان کی اصلاح کی تدابیر اس سبق کا موضوع ہے ۔ یعنی اگر اختلافات ہوں تو معاملات کے بگاڑ سے پہلے ان کی اصلاح کی جائے تاکہ گھرانے ٹوٹنے نہ پائیں ۔ خصوصا وہ بچے جو ان گھرانوں میں پیدا ہوچکے ہوتے ہیں اور خاندان ان کے لئے نرسری ہوتا ہے ان کی صحیح ترتیب ہو سکے ۔ نیز عام معاشرے کے اندر زیردست لوگوں کی دیکھ بھال کی جائے تاکہ یہ نہ ہو کہ غالب اور زور آور لوگوں کا قانون چلے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا دور دورہ ہو ۔ یہ سبق بعض معاملات کی اصلاح اس طرح کرتا ہے کہ انہیں نظام کائنات کے ساتھ مربوط کرتا ہے ۔ جس سے مخاطب کو یہ تصور دینا مطلوب ہے کہ عورتوں ‘ گھرانوں ‘ خاندانوں اور معاشرے کے اندر کمزوروں کے مسائل معمولی مسائل نہیں ہیں ۔ ان کی بہت بڑی اہمیت ہے جس کی تفصیلات ہم اس پارے میں دے چکے ہیں ۔ پارہ چہارم کے مقدمے میں ‘ ہم تفصیل کے ساتھ بیان کرچکے ہیں کہ اسلام میں خاندانی نظام کو کتنی عظیم اہمیت دی گئی ہے ۔ اور یہ کہ اسلامی نظام نے خاندانی ادارے کو جاہلیت کی رسوم بد سے پاک کرنے کے لئے کس قدر عظیم جدوجہد کی ہے اور کس قدر کوشش کی ہے کہ معاشرے کے اندر لوگوں کی اخلاقی ‘ نفسیاتی اور اجتماعی سطح کو بلند کیا جائے تاکہ اسلامی معاشرہ ان تمام معاشروں پر فوقیت حاصل کرلے جو اس وقت اس کے اردگرد پھیلے ہوئے تھے ۔ جو دین اسلام کو قبول نہ کرتے تھے اور جن کی تربیت اسلامی منہاج کے مطابق نہ تھی اور جو اسلامی نظام کے زیر حکومت نہ تھے ۔ اب ذرا تفصیلات کے ساتھ زیر بحث آیات کو لیجئے ۔ درس نمبر 41 تشریح آیات : 127۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 134 (آیت) ” نمبر 127۔ سورة نساء کے ابتدا میں جو آیات نازل ہوئی تھیں ان کی وجہ سے کئی سوالات پیدا ہوگئے تھے اور لوگ سوالات کیا کرتے تھے ۔ مسلمانوں کی جانب سے ’ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے ابتدائی دور میں مختلف مسائل کے بارے میں سوالات کرنا ایک عام پریکٹس تھی اور اس کی تہ میں یہ جذبہ کار فرما تھا کہ وہ اسلامی نظام زندگی سے متعلق احکام معلوم کرنا چاہتے تھے اس لئے کہ جاہلیت سے اسلام کی طرف منتقل ہونے کا عمل دراصل ان کی زندگیوں میں ایک گہرا انقلاب تھا ۔ اس کی وجہ سے ان کے شعور میں جاہلیت کے دور میں ہونے والے تمام افعال اور رسول کے بارے میں شک پیدا ہوگیا تھا ۔ وہ ہر وقت یہ محسوس کرتے تھے کہ کسی پیش آمدہ معاملے میں اسلام نے سابق پریکٹس کو منسوخ نہ کردیا ہو ۔ یہ بیداری اور اسلامی احکام کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنے کا جذبہ ان حضرات کی ایک عام صفت تھی ۔ اس کے باوجود بعض آثار جاہلیت ان کی زندگیوں میں باقی تھے ۔ اصل بات یہ ہے کہ انکے اندر ایک قومی جذبہ موجود تھا ‘ جس کے مطابق وہ اپنی زندگی کے تمام حالات کو اسلام کے مطابق ڈھالتے تھے اور اس روح کے ساتھ وہ بعض احکام کے بارے میں استفسارات کرتے تھے یہ کام وہ محض علم و ثقافت اور محض سوال کی خاطر نہ کرتے تھے جیسا کہ آج کل مفتی حضرات کے پاس اکثر سوالات محض حصول علم و ثقافت کے لئے ہوتے ہیں کوئی عمل کرنے کے لئے نہیں پوچھتا ۔ اس وقت مسلمانوں کو دینی مسائل کے پوچھنے کی حقیقی ضرورت بھی تھی ‘ اس لئے کہ یہ دین ان کے لئے زندگی کا نظام تھا اور وہ اس کے مسائل پوچھنے کے معاملے میں بہت ہی سرگرم تھے ، مقصد یہ تھا کہ ان کی عملی زندگی احکام دین کے مطابق بن جائے ۔ وہ جاہلیت سے نکلنے کے عمل سے گزر رہے تھے اور جاہلیت کی تمام عادات وتقالید اور اوضاع واطوار سے خائف تھے کہ کہیں کوئی بات نظام اسلام کے خلاف نہ ہو ۔ اسلام نے ان کے اندر جو تغیر اور انقلاب برپا کردیا تھا اس کے بارے میں وہ بہت ہی حساس تھے ۔ دوسرے الفاظ میں اسلام نے انہیں ان کے اس سچے عزم اور اسلام کے بارے میں ان کے جوش و خروش کی وجہ سے ملا ۔ وہ اس شکل میں کہ اللہ کی خاص عنایت اور توجہ انکی طرف مبذول ہوئی ذات باری نے خود براہ راست انہیں ان کے اس استفاء کا جواب دیا ۔ (آیت) ” (ویستفتونک فی النسآئ) (4 : 127) (لوگ تم سے عورتوں کے معاملہ میں فتوی پوچھتے ہیں) وہ تو رسول اللہ ﷺ سے پوچھتے تھے اور اللہ تعالیٰ حضرت نبی ﷺ سے کہتے تھے : ” کہو اللہ تمہیں فتوی دیتے ہیں ‘ تمہارے سوال اور بقیہ دونوں امور کے بارے میں جن کا ذکر اس آیت میں ہوا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ عنایت ہے جس کی قدروقیمت صحابہ کرام ہی جانتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نہایت ہی مہربانی ‘ نہایت ہی عزت افزائی کرتے ہوئے بذات خود جماعت مسلمہ کو فتوی دیتے ہیں اور یہ اللہ کی جانب سے نیابت یا بندہ پروری اور مہربانی ہے اور بندوں کی جدید زندگی کے لئے ضروری سوالوں کا جواب خود دیا جا رہا ہے ۔ یہ سوال ان عملی حالات کے بارے میں تھا جو جاہلیت میں روز مرہ کا معمول تھے ۔ وہ جاہلیت جس سے پوچھنے والوں کو اللہ اور اللہ کے نظام نے نکالا تھا ۔ دوسرے یہ سوالات ان امور کے بارے میں تھے جن کے ذریعے جدید اسلامی معاشرے کو مزید ترقی دینا مطلوب تھا ۔ (آیت) ” (قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتب فی یتمی النساء التی لا توتونھن ما کتب لھن وترغبون ان تنکحوھن والمستضعفین من الولدان وان تقوموا للیتمی بالقسط (4 : 127) (کہو اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے معاملے میں فتوی دیتا ہے ‘ اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو ان یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو (یا لالچ کی بنا پر تم خود ان سے نکاح کرلینا چاہتے ہو) اور وہ احکام جو ان بچوں کے متعلق ہیں جو بیچارے کوئی زور نہیں رکھتے ۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو) علی ابن ابو طلحہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں نقل کیا ہے کہ جاہلیت کے دور میں جس کے پاس یتیم لڑکی ہوتی ‘ وہ اس پر اپنا کپڑا ڈال دیتا ‘ جب وہ ایسا کرلیتا تو اس یتیم لڑکی کے ساتھ کوئی شخص بھی کبھی نکاح نہ کرسکتا ۔ اگر وہ خوبصورت ہوتی اور وہ اسے پسند کرتا تو وہ اس کے ساتھ خود نکاح کرلیتا اور اس کا مال کھاتا رہتا ۔ اور اگر بدصورت ہوتی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی اس کا نکاح کرنے کی اجازت نہ دیتا یہاں تک کہ وہ مرجاتی اور یہ اس کے مال کا وارث ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس فعل کا حرام قرار دیا اور آئندہ کے لئے اس سے منع فرمایا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” والمستضعفین من الولدان “۔ (4 : 127) (اور بچوں میں سے کمزور لوگ) کون تھے ؟ جاہلیت میں دراصل کمزور بچوں کو وراثت میں سے حق نہ دیا جاتا تھا اور نہ لڑکیوں کو دیا جاتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ! (آیت) ” لا توتونھن ما کتب لھن “۔ (4 : 127) (تم ان کو وہ حق نہیں دیتے جس اللہ تعالیٰ نے فرض قرار دے دیا ہے) اللہ نے اس سے بھی روک دیا اور ہر حقدار کا حصہ قرآن میں مقرر کردیا اور کہا کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے خواہ عورتوں چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں۔ سعید بن جبیر ؓ کہتے ہیں (آیت) ” (وان تقوموا للیتمی بالقسط “۔ (4 : 127) کی تفسیر یہ ہے کہ اگر یتیم لڑکی مالدار اور خوبصورت ہو تو ولی کہتا کہ میں اسے اپنے لئے چن لیتا ہوں اور اس کے ساتھ نکاح کرلیتا اور اگر صاحب مال و جمال نہ ہوتی تو اسے دوسروں کے نکاح میں دے دیتا ۔ (آیت) ” ویستفتونک فی النسآء قل اللہ یفتیکم فیھن “۔ تاآیت (وترغبون ان تنکحوھن) کے بارے میں حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں ۔ یہ اس شخص کے بارے میں ہے جس کے پاس یتیم لڑکی ہوتی ۔ وہ اس کا ولی اور وارث ہوتا ۔ وہ اسے اپنے مال میں شریک کرلیتی یہاں تک کہ کھجور کے اس گچھے میں بھی جو کھانے کے لئے توڑ لیا جاتا ۔ وہ اس کے ساتھ نکاح کرنا بھی پسند نہ کرتا تھا اور کسی دوسرے شخص کے نکاح میں بھی نہ دیتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ مال میں شریک نہ ہوجائے ۔ اس طرح وہ عورت معطل رہتی ۔ (بخاری مسلم) ابن ابو حاتم (رح) نے عروہ ابن زبیر ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی ایک دوسری روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں : حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا :” اس آیت کے بعد لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس آیت کے بعد دوبارہ ان عورتوں کے بارے میں پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” ویستفتونک فی النسآء قل اللہ یفتیکم فیھن قل اللہ یفتیکم فیھن وما یتلی علیکم فی الکتب “۔ (4 : 127) حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اس آیت میں یہ جو کہا گیا ہے کہ جو تم پر کتاب میں پڑھا جاتا ہے (یعنی سابقہ احکام) تو اس سے مراد وہ سابقہ آیت ہے یعنی (آیت) ” وان خفتم الا تقسطوا فی الیتامی فانکحوا ماطاب لکم من النسائ “۔ یعنی اگر وہ صاحب مال و جمال نہ ہوں اور تم انکے ساتھ نکاح نہ کرنا چاہتے ہو۔ اور اگر وہ صاحب مال و جمال ہوں اور تم ان کے ساتھ نکاح کرنا چاہتے ہو صرف مال کی غرض ہو تو نکاح نہ کرو الا یہ کہ عدل کے ساتھ نکاح کرنا چاہو۔ ان احادیث اور قرآنی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جاہلیت کے دور میں کیا ہو رہا تھا ۔ خصوصا یتیم نوجوان عورتوں کے ساتھ ۔ یتیم لڑکی کے ساتھ ولی کی طرف سے مال و دولت میں بھی بےایمانی ہوتی اور اس کے مہر میں بھی اس کے ساتھ زیادتی ہوتی ۔ اس کا مال لٹایا جاتا اور اگر وہ بدصورت ہوتی تو اس کا مال بھی ہڑپ ہوتا اور اس کے ساتھ نکاح بھی نہ ہوتا ۔ کسی دوسرے کے نکاح میں بھی نہ دی جاتی کہ کہیں وہ ولی کے ساتھ مال میں شریک نہ ہوجائے کیونکہ مال ولی کے تصرف میں ہوتا ۔ یہی حال چھوٹے بچوں اور لڑکیوں کا ہوتا ۔ ان کو میراث سے محروم کردیا جاتا ۔ اس لئے کہ وہ ضعیف ہوتے تھے اور وہ اس مال کی مدافعت نہ کرسکتے تھے یا وہ جنگ نہ کرسکتے تھے ۔ اس لئے ان کے لئے کوئی حق یا حصہ نہ ہوتا اور یہ قبائلی تصورحیات کے مطابق ہوتا جن کی مطابق قبیلے کے تمام اموال جنگ کرنے والوں کے لئے ہوتے اور ضعیفوں کے لئے کچھ نہ ہوتا ۔ یہ تھے وہ بدوی اور بدنما رسم و رواج جن کو اسلام نے تبدیل کرنا شروع کیا اور ان کی جگہ ترقی یافتہ قرآنی رسم و رواج کی بنیاد ڈالی اور یہ تبدیلی ایسی نہ تھی کہ گویا بہت ہی تیزی سے بطور لانگ جمپ یہ انقلابی تبدیلی کی گئی اور عربی معاشرے کو ایک ترقی یافتہ معاشرہ بنا دیا گیا بلکہ یہ عربوں کے لئے ایک نیا جنم تھا ۔ ان کی حقیقت کو بدل کر ایک نئی حقیقت انکو دی گئی ۔ یہاں جو اہم بات ہم ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ نشاۃ جدیدہ کسی منصوبے کے تحت نشاۃ ثانیہ نہ تھی اور نہ اس کے لئے کوئی خاص منصوبہ بنایا گیا تھا اور نہ منصوبے کے لئے کوئی ابتدائی تیاری کی گئی تھی یا یہ ترقی کسی مادی تبدیلی کی وجہ سے ہوئی تھی اور صرف عربوں کی زندگی میں ہوئی تھی ۔ اس لئے کہ حقیقت ملکیت کے جاہلی سبب محاربت کو منسوخ کرکے ‘ اس کی جگہ انسانی اساس پر حق ملکیت کو استوار کرنا ‘ بچے ‘ یتیم اور عورت کو بھی انسانی حقوق عطا کرنا محض اس وجہ سے نہ تھا کہ معاشرے کے اندر تبدیلی آگئی تھی اور اس معاشرے کے اندر جنگی قوت رکھنا یا دفاع کرنا ہی اہم عامل نہ رہا تھا ‘ اس وجہ سے جنگی قوت رکھنے والے افراد خاندان ان کی امتیازی حیثیت کو ختم کردیا گیا ۔ اب خاندان والوں کے لئے جنگی قوت رکھنے والے افراد کی سرے سے ضرورت ہی نہ تھی اور نہ ان کی امتیازی حیثیت کی ضرورت تھی ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اسلامی دور میں بھی جنگی افراد کی افراد کی اہمیت اپنی جگہ قائم تھی ۔ ان کی ضرورت بھی تھی لیکن جو فرق پڑا وہ یہ تھا کہ اسلامی نظام آگیا تھا اور یہ انسان کے لئے ایک جدید جنم تھا ۔ یہ جنم ایک کتاب کے ذریعے ملا تھا ۔ ایک نظام سے انہیں یہ جنم ملا تھا اور جدید معاشرہ اس جدید نظام نے قائم کیا تھا اور اسی سرزمین پر قائم کیا تھا جس پر جاہلیت قائم تھی اور انہی حالات میں جن میں ذرائع پیداوار کے اندر کوئی تبدیلی نہ کی گئی تھی ۔ نہ مادے اور اس کے خواص میں کوئی تبدیلی کی گئی تھی بلکہ تصور حیات اور نظریہ حیات کے اندر انقلاب پیدا ہوگیا تھا ۔ اور یہ انقلاب محض اس نظریہ جدیدہ کی وجہ سے ہوا تھا ۔ یہ بات بھی حقیقت تھی کہ اسلامی نظام نے لوگوں کے ذہنوں اور طرز عمل سے جاہلیت کے آثار کو مٹانے کے لئے طویل ترین جدوجہد کی اور ان کی جگہ اسلامی تصورات اور اسلامی عادات واطوار بٹھانے کیلئے سخت محنت کی ۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ جاہلیت کے بعض اطوار ابھی تک اپنے آپ کو بچانے کے لئے کوشاں تھے اور بعض انفرادی حالات میں انکا پھر سے ظہور ہوجاتا تھا ۔ یہ عادات واطوار مختلف شکلوں میں اپنے آپ کو زندہ رکھنا چاہتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ نظام جو آسمانوں سے نازل ہوا اور وہ تصورات جو اس نظام نے عطا کئے یہی تو جاہلیت کو بیخ وبن سے اکھاڑنے کی سعی میں مصروف تھے اور یہ بات نہ تھی کہ مادی صورت حال یا اس کے اندر موجود تضادات اس تبدیلی میں موثر تھے یا ذرائع پیداوار میں کوئی تبدیلی ہوگئی تھی یا کوئی اور مارکسی فیکٹر تھا جو مادے یا ذرائع پیداوار میں تبدیلی کی وجہ سے معاشرے میں تغیر لا رہا تھا ۔ عرب قوم کی زندگی میں جو نئی چیز تھی وہ دین تھی جو عالم بالا سے ان پر نازل ہوئی تھی ۔ اس پر بعض نفوس نے لبیک کہا اس لئے کہ وہ انسانی فطرت سے ہمکلام تھی اور یہ فطرت ہر انسان کے اندر موجود تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ یہ عظیم انقلاب رونما ہوا بلکہ انسان کو یہ نیا جنم ملا ‘ جس نے زندگی کے تمام خدوخال بدل دیئے ‘ ہر پہلو سے بدل دیئے اور جاہلیت کے تو تمام نشانات مٹا دیئے ۔ معاشرے کے جدید وقدیم خدوخال کے درمیان جس قدر تنازع بھی نظر آئے اور اس تطہیر اور تجدید کی راہ میں جس قدر رنج والم اور قربانیاں بھی دی گئی ہوں ‘ یہ سب کچھ آسمانی رسالت کی وجہ سے ہوا ۔ ایک نظریاتی اور اعتقادی تصور تھا جو اس انقلاب کے لئے پہلا اور آخری فیکٹر تھا ۔ بلکہ اس نئے جنم کے لئے وہی اول وآخر عامل تھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ پھر اس انقلاب کا طوفان صرف اسلامی معاشرے تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس نے پوری انسانی اقدار اور تمام انسانی معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل اسلام نے رسول سے تو صرف عورتوں کے بارے میں پوچھا تھا ‘ اور اللہ نے ان عورتوں کے علاوہ یتیم لڑکیوں ‘ چھوٹے بچوں اور ضعیفوں کے حق کے بارے میں بھی جواب دیا تھا ‘ تو اس سوال و جواب کو اللہ تعالیٰ نے اس مصدر کے ساتھ باندھ دیا جس کے ذریعے سے یہ انقلاب آیا تھا ۔ (آیت) ” وما تفعلوا من خیر فان اللہ کان بہ علیما “۔ (4 : 127) (اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی) جو کچھ بھی تم کرو گے وہ نامعلوم نہ رہ جائے گا ‘ ضائع نہ ہوگا ۔ اللہ کے ہاں ریکارڈ ہوگا اور جو چیز اللہ کے ہاں ریکارڈ ہوجائے وہ ہر گز ضائع نہ ہوگی ۔ یہ ہے ہو آخری مرجع جس کی طرف ایک مومن اپنے اعمال بھیجتا ہے اور یہی وہ قبلہ ہے جس کی طرف مومن کے فکر وعمل کا رخ ہوتا ہے ۔ اس مرجع کی قوت اور گرفت ہی ان ہدایات اور اس نظام کی قوت اور گرفت ہوتی ہے اور اس کا انسانی نفس اور اس کی عادات واطوار بلکہ پوری زندگی پر اثر ہوتا ہے ۔ یہ بات اہم نہیں ہوتی کہ کوئی بہت سی ہدایات دے یا لکھ دے ‘ یا کوئی نظام حیات تجویز کرے یا کوئی نیا نظم ونسق قائم کرے ۔ اصل حیات اہمیت اس گرفت اور قوت کی ہوتی ہے جو کسی ہدایت ‘ کسی نظام اور کسی تنظیم کی پشت پر ہوتی ہے ۔ وہ گرفت جس سے یہ تمام تصورات اور یہ تمام ادارے قوت نافذہ حاصل کرتے ہیں ۔ ان نظامہائے زندگی اور ان اقدار میں جو ایک انسان اللہ سے لیتا ہے اور ان میں جو ایک انسان اپنے جیسے انسانوں سے لیتا ہے ‘ زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ یہ اس صورت میں جیسے دوسری صفات کے حوالے سے انسانی نظام اور الہی نظام کے درمیان مساوات فرض کرلی جائے اور یہ بات فرض کرلی جائے کہ یہ دونوں نظام نہایت بلند اور ترقی یافتہ ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ایسا فرض کرنا بھی محال اور جنون ہے ۔ الا یہ کہ انسان سوچ لے کہ یہ بات کس کے منہ سے نکلی اور یہ کہ اس کے بارے میں ہماری سوچ کیا ہے اور اس کے بارے میں ہمارے رائے کیا ہے ۔ ایک طرف اللہ العلی العظیم کی بات ہے اور دوسری جانب انسان ابن انسان کی بات ہے ۔ اجتماعی ضابطہ بندی کا ایک قدم اور ۔ یہ بھی خاندان کے دائرے میں اور اس معاشرے میں جسے اسلام نیا جنم دے رہا تھا اور یہ جنم ملاء اعلی سے اسلامی نظام حیات کے ذریعے رہا تھا اور اس کے اندر کسی زمینی فیکٹر یاعامل کا کوئی داخل نہ تھا ۔ مادی ہو یا پیداوار سے متعلق ہو ۔ ملاحظہ ہو۔
Top