Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 153
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ
: آپ سے سوال کرتے ہیں
اَهْلُ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
اَنْ
: کہ
تُنَزِّلَ
: اتار لائے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
كِتٰبًا
: کتاب
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
فَقَدْ سَاَلُوْا
: سو وہ سوال کرچکے ہیں
مُوْسٰٓى
: موسیٰ
اَكْبَرَ
: بڑا
مِنْ ذٰلِكَ
: اس سے
فَقَالُوْٓا
: انہوں نے کہا
اَرِنَا
: ہمیں دکھائے
اللّٰهَ
: اللہ
جَهْرَةً
: علانیہ
فَاَخَذَتْهُمُ
: سو انہیں آپکڑا
الصّٰعِقَةُ
: بجلی
بِظُلْمِهِمْ
: ان کے ظلم کے باعث
ثُمَّ
: پھر
اتَّخَذُوا
: انہوں نے بنالیا
الْعِجْلَ
: بچھڑا (گؤسالہ)
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
مَا
: کہ
جَآءَتْهُمُ
: ان کے پاس آئیں
الْبَيِّنٰتُ
: نشانیاں
فَعَفَوْنَا
: سو ہم نے درگزر کیا
عَنْ ذٰلِكَ
: اس سے (اس کو)
وَاٰتَيْنَا
: اور ہم نے دیا
مُوْسٰى
: موسیٰ
سُلْطٰنًا
: غلبہ
مُّبِيْنًا
: ظاہر (صریح)
اے نبی ! یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰ سے کرچکے ۔ اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی ۔ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے ۔ اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا ۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو صریح فرمان عطا کیا ۔
جزیرۃ العرب میں یہودیوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے مقابلے میں کھلا معاندانہ دشمنی کا موقف اختیار کیا ۔ وہ آپ کے خلاف مسلسل خفیہ اور نہایت ہی معاندانہ سازشیں تیار کرتے رہے جن کی تفصیلات کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے ۔ اور جن کے کچھ رنگ ہم سورة بقرہ ‘ سورة آل عمران اور خود اسی سورة کے پارہ پنجم میں دکھا چکے ہیں ۔ ان آیات میں جو باتیں کہی جا رہی ہیں وہ بھی ان کے اس مسلسل موقف کا ایک رنگ ہے ۔ ان کی پہلی ہٹ دھرمی یہ ہے کہ وہ حضور ﷺ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ آسمانوں سے ایک کتاب نازل فرما دیں ‘ یہ لکھی ہوئی ہو ‘ وہ مجسم طور پر آسمانوں سے انکے سامنے آرہی ہو اور وہ اسے اپنے ہاتھوں کے ساتھ چھولیں ۔ (آیت) ” یسئلک اھل الکتب ان تنزل علیھم کتبا من السمآء (4 : 153) اے نبی ! یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ) اس سوال کا جواب ‘ حضرت نبی اکرم ﷺ کی جانب سے خود اللہ تعالیٰ عنایت فرماتے ہیں اور حضور ﷺ اور مسلمانوں کے سامنے ‘ یہودیوں کی تردید کرتے ہوئے خود یہودیوں کی اپنی تاریخ سے ‘ ان کا اپنے نجات دہندہ اور قائد اور عظیم نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کے رویے کی ایک جھلک پیش فرماتے ہیں ۔ حالانکہ ان یہودیوں کا زعم یہ ہے کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لاتے ہیں اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی تصدیق نہیں کرتے ۔۔۔۔۔۔ ان کی تاریخ کا یہ صفحہ الٹ کر بتایا جاتا ہے کہ ان کی یہ عادت کوئی نئی عادت نہیں ہے ۔ موجودہ مدینہ کے یہودی ہی ایسے سوالات نہیں کر رہے بلکہ از منہ قدیمہ سے ان کی ایسی ہی عادت رہی ہے ۔ ان کی جبلت آج بھی وہی ہے جو عہد موسیٰ میں ہوا کرتی تھی حالانکہ وہ انکے قائد بھی تھے ‘ نبی بھی تھے اور ان کے نجات دہندہ بھی تھے ۔ وہ موٹے دماغ کے لوگ ہیں ۔ ان کو صرف محسوس چیزوں کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے ۔ جس طرح یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں ہٹ دھرم تھے ‘ عناد کرنیوالے تھے اور ماسوائے اس کے کہ انہیں کسی کی بات کو زبردستی تسلیم کرنے پر مجبور کردیا جائے ‘ یہ مان کر نہیں دیتے ۔ یہ آج بھی ویسے ہی کفر پیشہ اور غدار ہیں اور دوڑکر وعدہ توڑنے والے ہیں ۔ یہ وہی ہیں جھوٹے اور گندے لوگ ۔ وہ کسی موقف پر ثابت قدم رہنے والے نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی یہ لوگ بدگوئی سے چوکتے ہیں ۔ یہ ہر وقت لالچ کے بندے ہیں اور دنیا پرستی انکا شعار ہے ۔ لوگوں کے مال باطل اور ناجائز طریقے سے کھانا ان کا وطیرہ ہے ۔ یہ بھی ان کی قدیم عادت ہے کہ یہ لوگ اللہ کے حکم سے روگردانی کرتے ہیں اور اس کے ہاں جو ثواب آخرت میں ملتا ہے اسے خاطر ہی میں نہیں لاتے ۔ ان آیات میں ان کے خلاف یہ مہم اسی لئے چلائی گئی ہے کہ ان کی حقیقت کھول کر سامنے رکھدی جائے ۔ انہیں شرمندہ کردیا جائے ۔ اس مہم کے زور اور اس کے تنوع کو دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ اس وقت یہودی سازش کو بےنقاب کرنے کی کسی قدر ضرورت تھی جو سازش وہ اسلام اور وقت کے نبی کے خلاف کر رہے تھے ۔ یہودیوں کی یہی حیثیت اور ناپاک سازشیں ہیں جو آج تک اس دین اور اس کے ماننے والوں کے خلاف بدستور جاری ہیں ۔ (آیت) ” یسئلک اھل الکتب ان تنزل علیھم کتبا من السمآء (4 : 153) اے نبی ! یہ اہل کتاب اگر آج تم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تم آسمان سے کوئی تحریر ان پر نازل کراؤ) آپ ان کی اس ہٹ دھرمی سے پریشان نہ ہوں ‘ اس لئے کہ انکی یہ ہٹ دھرمی تعجب انگیز تعجب انگیز نہیں ہے ‘ نہ یہ کوئی نئی بات ہے ۔ (آیت) ” فقد سالوا موسیٰ اکبر من ذلک فقالوا ارنا اللہ جھرۃ (4 : 153) ”(تو اس سے بڑھ چڑھ کر مجرمانہ مطالبے یہ پہلے موسیٰ سے کرچکے ۔ اس سے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں خدا کو علانیہ دکھا دو ) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو بیشمار معجزات نازل فرمائے تھے وہ ان کے احساس کو نہ جگا سکے ۔ ان عظیم معجزات سے بھی ان کے وجدان کے اندر کوئی ارتعاش پیدا نہ ہوا۔ اور یہ حیران کن معجزات بھی ان کے دلوں کو مائل بہ ہدایت و اطاعت نہ کرسکے اور یہ بدبخت آگے بڑھے اور ذات باری کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کردیا ۔ بالکل کھلے بندوں دیکھنے کا ۔ یہ ان کا ایک متکبرانہ مزاج اور مطالبہ تھا ‘ جس میں ایمان کی تروتازگی سرے سے موجود ہی نہ تھی بلکہ ان کی جبلت میں سرے سے ایمان کی استعداد ہی موجود نہ تھی ۔ ٍ (آیت) ” فاخذتھم الصعقۃ بظلمھم) اور اسی سرکشی کی وجہ سے یکایک ان پر بجلی ٹوٹ پڑی تھی ۔ لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف ہی کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا اور اپنے آپ سے ان کے بارے میں عاجزانہ التماس کو قبول ہی کرلیا ۔ اس دعا کی تفصیلات سورة اعراف (155) میں ہیں ۔ (آیت) ” فلما اخذتھم الرجفۃ قال رب لوشئت اھلکنھم من قبل وایایء اتھلکنا بما فعل السفھآء منا ان ھی الا فتنک تضل بھا من تشآء وتھدی من تشآء انت ولینا فاغفرلنا وارحمنا وانت خیر الغفرین (155) واکتب لنا فی ھذہ الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ انا ھدنا الیک (156) (7 : 155۔ 156) (جب ان لوگوں کو ایک سخت زلزلے نے آپکڑا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا ۔ ” اے میرے سرکار ‘ آپ تو پہلے ہی ان کو اور مجھے ہلاک کرسکتے تھے ‘ کیا اس قصور میں جو ہم میں سے چند نادانوں نے کیا تھا ہم سب کو ہلاک کردیں گے ؟ یہ تو آپ کی ڈالی ہوئی آزمائش تھی جس کے ذریعے سے آپ جسے چاہتے ہیں گمراہی میں مبتلا کردیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ہدایت پخش دیتے ہیں ۔ ہمارے سرپرست تو آپ ہی ہیں ۔ پس ہمیں معاف کردیجئے اور ہم پر رحم فرمائیے ۔ آپ سب کو معاف فرمانے والے ہیں ۔ اور ہمارے لئے اس دنیا کی بھلائی بھی لکھ دیجئے اور آخرت کی بھی ۔ ہم نے آپ کی طرف رجوع کرلیا ہے۔ “ ) (آیت) ” ثم اتخذوالعجل من بعد ما جآء تھم البینت “۔ (4 : 153) (پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے) یہ بچھڑا سونے کا بنا ہوا تھا ۔ اسے سامری نامی شخص نے بنایا تھا ۔ یہ اس نے سونے کے ان زیورات سے بنایا تھا ‘ جو انہوں نے مصری عورتوں سے لئے تھے جب وہ وہاں سے نکل رہے تھے ۔ یہ لوگ اس بچھڑے کے اردگرد جمع ہوگئے اور انہوں نے اسے اپنا معبود بنا لیا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس وقت کوہ طور پر گئے ہوئے تھے جہاں انہوں نے اپنے رب سے ایک مقررہ وقت میں بات کرنی تھی ۔ جہاں ان کو تورات کی الواح اور ہدایت اور نئی روشنی عطا ہونی تھی ۔ (آیت) ” (فعفونا عن ذلک) (اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ) لیکن یہودی یہودی ہی تو تھے ۔ ان کے ساتھ معاملات کرنے میں صرف خوف اور جبر مفید رہتا ہے ۔ (آیت) ” واتینا موسیٰ سلطنا مبینا (153) ورفعنا فوقھم الطور بمیثاقھم وقلنالھم ادخلوا الباب سجدا وقلنالھم لا تعدوا فی السبت واخذنا منھم میثاقا غلیظا “ (154) (4 : 153۔ 154) (ہم نے ان سے درگزر کیا ۔ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو صریح فرمان عطا کیا اور ان لوگوں پر طور کو اٹھا کر ان سے اس فرمان کی اطاعت کا عہد لیا ۔ ہم نے ان کو حکم دیا کہ دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہو۔ ہم نے ان سے کہا کہ اللہ کا قانون نہ توڑو اور اس پر ان سے پختہ عہد لیا ۔ ) یہاں سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جو سلطان عطا فرمایا وہ کیا چیز ہے ۔ غالبا وہ وہی شریعت ہے جو الواح میں موجود تھی ‘ تو اللہ تعالیٰ کی شریعت گویا اللہ کی جانب سے سلطان اور حاکمیت ہے اور اللہ کے سوا جو شریعت اور قانون بھی ہوگا اس پر اللہ کی جانب سے کوئی سلطان اور سند قبولیت نہ ہوگی ۔ عملا بھی غیر اللہ کی شریعت اور قوانین کو دلوں پر کوئی حکمرانی حاصل نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے لئے جو قوانین خود بناتے ہیں ان کی کوئی وقعت عوام الناس کے دلوں میں نہیں ہوتی ۔ ان قوانین کا نفاذ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ داروغہ سر پر کھڑا ہو یا جلاد کی تلوار سر پر ہو ۔ رہی اللہ کی شریعت تو لوگ اس کے سامنے نہایت ہی عاجزی سے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور ان کے دل مائل باطاعت ہوتے ہیں ۔ دلوں کے اندر شریعت کے خلاف ورزی کا خوف ہوتا ہے اور اللہ کی سزا کا ڈر نظروں میں ہوتا ہے ۔ لیکن یہودی جن کے دل شعور ایمان سے محروم تھے انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ کی جانب سے دی گئی الواح شریعت کے ماننے سے صاف انکار کردیا ۔ اس مقام پر پھر ان پر اللہ کا غضب آتا ہے ‘ اس لئے کہ وہ اپنی فطرت اور اپنے مزاج کے اعتبار سے اس کے لائق تھے ۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ایک عظیم چٹان ان کے سروں پر لٹک رہی ہے ۔ یوں نظر آتا تھا کہ ابھی ان کے سروں پر گری کہ گری ۔ وہ چونکے فورا انہوں نے اس شریعت کو تسلیم کرنے کا اقرار کیا اور وعدہ کرلیا ۔ پختہ میثاق طے ہوگیا ۔ اور بڑی بڑی یقین دہانیوں کے ساتھ طے ہوگیا ۔ حالانکہ پہلے وہ نہ تسلیم کرنے تھے نہ عہد کرنے کیلئے تیار تھے اور نہ ہی اس عہد قدیم کو لینے کے لئے تیار تھے ۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ یہاں انہیں ان کی اس صفت قدیمہ کو یاد دلاتے ہیں ۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اس منظر میں ایک سخت پتھر جو ان کے سروں پر لٹک رہا تھا اور دوسری طرف ان کے سینوں میں سخت پتھر کی طرح دل رکھے ہوئے ہیں۔ چناچہ اس منظر میں ان دو قسم کے پتھروں کے درمیان مناسبت پیدا کردی گئی ہے۔ اس طرح انداز تعبیر پختہ ‘ متعین اور مجسم ہوجاتا ہے ۔ جس طرح قرآن کریم کا عمومی انداز تعبیر ہے کہ وہ وہ بیت المقدس میں سجدہ ریز ہو کر داخل ہوں اور یہ کہ وہ سبت کا احترام کریں جسے خود ان کے مطابلے پر ان کیلئے خوشی کا دن بنایا گیا تھا ۔ لیکن ہوا کیا ؟ پتھر لٹکنے کے خوف وہراس کے غائب ہوتے ہی اور اس قاہرانہ فضا کے ختم ہوتے ہی ان کے قدم پھسل گئے اور فخر سے یہ کہنے لگے کہ ہمارے دل تو کسی نصیحت سے متاثر نہیں ہوتے ۔ وہ مردوں میں ہیں اور ان تک کوئی بات پہنچتی ہی نہیں ہے کیونکہ ان کے دروازے بند ہیں ۔ اور یہ کہنے کے بعد انہوں نے ان تمام برے افعال کا ارتکاب کیا جس کی تفصیلات اللہ میاں یہاں نبی ﷺ کو بتاتے ہیں ۔ یہ یہاں اس لئے گنوائے گئے ہیں تاکہ حضور ﷺ یہودیوں کو ذرا آئینہ دکھا دیں کہ وہ ہیں کیا ؟
Top