Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 130
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَنْ : کہ تُنَزِّلَ : اتار لائے عَلَيْهِمْ : ان پر كِتٰبًا : کتاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَقَدْ سَاَلُوْا : سو وہ سوال کرچکے ہیں مُوْسٰٓى : موسیٰ اَكْبَرَ : بڑا مِنْ ذٰلِكَ : اس سے فَقَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَرِنَا : ہمیں دکھائے اللّٰهَ : اللہ جَهْرَةً : علانیہ فَاَخَذَتْهُمُ : سو انہیں آپکڑا الصّٰعِقَةُ : بجلی بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے باعث ثُمَّ : پھر اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا (گؤسالہ) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَتْهُمُ : ان کے پاس آئیں الْبَيِّنٰتُ : نشانیاں فَعَفَوْنَا : سو ہم نے درگزر کیا عَنْ ذٰلِكَ : اس سے (اس کو) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دیا مُوْسٰى : موسیٰ سُلْطٰنًا : غلبہ مُّبِيْنًا : ظاہر (صریح)
اور ہم نے فرعونیوں کو قحطوں اور میووں کے نقصان میں پکڑا تاکہ نصیحت حاصل کریں۔
فرعونیوں پر عذاب کی ابتداء : آیت 130: وَلَقَدْ اَخَذْنَآ ٰالَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ (ہم نے فرعونیوں کو قحط سالیوں کے عذاب میں مبتلا کردیا) سنین کا معنی قحط ہے۔ یہ سات سال تھے اور سنۃ یہ دابہ اور نجم کی طرح اسمائے غالبہ میں سے ہے۔ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ (اور پھلوں کی پیداوار کی کمی میں مبتلا کردیا) قحط دیہاتیوں کے لیے اور نقص اثمار شہریوں کے لیے لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ (تاکہ وہ سمجھ جائیں) تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور متنبہ ہوجائیں یہ حال ان کے اصرار کفر کی وجہ سے تھا۔ اور شدت و قحط میں لوگوں کے دلوں میں رقت و نرمی زیادہ ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ فرعون چارسو سال زندہ رہا۔ اس نے تین سو بیس سال تک کوئی تکلیف نہ دیکھی تھی۔ اگر اس کو اس زمانہ میں سردرد بھوک وقحط، بخار پہنچتا تو وہ الوہیت کا مدعی نہ بنتا۔
Top