Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - An-Nisaa : 51
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ وَ یَقُوْلُوْنَ لِلَّذِیْنَ كَفَرُوْا هٰۤؤُلَآءِ اَهْدٰى مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَبِیْلًا
اَلَمْ تَرَ
: کیا تم نے نہیں دیکھا
اِلَى
: طرف (کو)
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جو
اُوْتُوْا
: دیا گیا
نَصِيْبًا
: ایک حصہ
مِّنَ
: سے
الْكِتٰبِ
: کتاب
يُؤْمِنُوْنَ
: وہ مانتے ہیں
بِالْجِبْتِ
: بت (جمع)
وَالطَّاغُوْتِ
: اور سرکش (شیطان)
وَيَقُوْلُوْنَ
: اور کہتے ہیں
لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: جن لوگوں نے کفر کیا (کافر)
هٰٓؤُلَآءِ
: یہ لوگ
اَهْدٰى
: راہ راست پر
مِنَ
: سے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا
: جو لوگ ایمان لائے (مومن)
سَبِيْلًا
: راہ
” کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتاب کے علم میں سے کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ان کا حال یہ ہے کہ جبت اور طاغوت کو مانتے ہیں اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔
(آیت) ” نمبر 51 تا 55۔ جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھی وہ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ وہ اس آخری کتاب قرآن پر ایمان لے آئیں اور شرک سے باز آجائیں جو ان لوگوں کا شیوہ ہے جن کو اللہ کی طرف سے کوئی کتاب ہدایت نہیں ملی ۔ وہ اپنی زندگیوں میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کریں اور طاغوت کی اطاعت نہ کریں (طاغوت ہر وہ قانون ہے ‘ جو اللہ کی طرف سے نہیں ہے اور ہر وہ حکم ہے جس کی پشت پر کوئی شرعی سند نہیں ہے) لیکن یہودی جو ہر وقت پاکی دامان کے قصہ خواں تھے اور اس امر پر فخر کرتے تھے کہ وہ اللہ کے محبوب بندے ہیں ‘ ان دعاوی کے ساتھ ساتھ وہ باطل اور شرک کے پیروکار تھے ۔ وہ کاہنوں کی تابع داری کرتے تھے اور اپنے احبار کی اطاعت کرتے تھے جو ان کے لئے ایسے قوانین بناتے تھے جن پر اللہ کی جانب سے کوئی سند نہ ہوتی تھی ۔ وہ طاغوت پر ایمان لاتے تھے (طاغوت وہ نظام حکومت اور قانونی نظام ہے جو شریعت پر مبنی نہ ہو ) اسے طاغوت اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں طغیان اور دست درازی پائی جاتی ہے ۔ مثلا کوئی انسان اپنے لئے ان خصوصیات کا مدعی ہوجاتا ہے جو اللہ کی الوہیت اور حاکمیت کی اہم خصوصیات ہیں اور یہ انسان اپنے آپ کو شریعت کے ضابطے کی اطاعت سے باہر نکال لیتا ہے ‘ جس کے مطابق عدل کرنا اس پر لازمی تھا ۔ یہ عمل ہے طغیان کا اور ایسا شخص طاغوت ہے اور اس طاغوت کے مطیع اور اس پر ایمان لانے والے مشرک ہیں یا کافر ہیں ۔ ایسے لوگوں پر اللہ تعجب کا اظہار فرماتے ہیں کہ وہ یہ فعل مکروہ اس کے باوجود کرتے ہیں کہ ان کو اس سے قبل کتاب دی گئی تھی ، لیکن انہوں نے اس کتاب کی پیروی نہ کی ۔ جبت (ہرقسم کی وہمیات) اور طاغوت پر ایمان لانے پر مزید انہوں نے یہ کیا کہ کفار اور مشرکین کی صف میں جا کھڑے ہوئے اور ان مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوگئے جن کو اللہ نے کتاب دی ہے ۔ (آیت) ” ویقولون للذین کفروا ھولآء اھدی من الذین امنوا سبیلا (4 : 51) ” اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں ۔ “ ابن اسحاق نے بواسطہ محمد ابن ابی محمد ‘ عکرمہ اور سعید ابن جبیر ‘ حضرت ابن عباس ؓ اجمعین سے یہ روایت نقل کی ہے کہ قریش ‘ غطفان ‘ بنی قریظہ کے جن لوگوں نے جنگ احزاب میں تمام پارٹیوں اور احزاب کو جمع کیا تھا ان میں حیی ابن اخطب ‘ سلام ابن الحقیق ‘ ابو رافع ‘ ربیع ابن الحقیق ‘ ابو عامر ‘ وحوح ابن عامر اور ہوذہ ابن قیس تھے ۔ جب یہ لوگ قریش کے پاس آئے تو انہوں نے کہا : ” یہ لوگ یہودیوں کے احبار اور علماء ہٰں اور یہ لوگ پہلی کتاب کے ماہرین علماء ہیں آپ لوگ ان سے جو پوچھنا چاہیں پوچھ لیں کہ تمہارا دین اچھا ہے یا محمد ﷺ کا دین اچھا ہے ۔ قریش نے ان سے پوچھا انہوں نے جواب دیا : تمہارا دین محمد کے دین سے بہتر ہے اور جو لوگ محمد کے تابع ہوگئے ہیں تم ان سے زیادہ ہدایت پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ (آیت) ” الم تر الی الذین اوتوا نصیبا من الکتب) سے لے کر (واتینھم ملکا عظیما) (4 : 54) اور یہ ان لوگوں پر لعن طعن ہے اور اس بات کا اعلان ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کا کوئی ناصر اور مددگار نہ ہوگا ‘ یہ لوگ اب مشرکین سے امداد چاہتے ہیں ۔ انہوں نے مشرکین کو زیادہ ہدایت یافتہ اس لئے کہا تاکہ ان کو اپنی امداد کے لئے مائل کرلیں ۔ چناچہ انہوں نے انکی دعوت قبول کرلی اور یوم الاحزاب میں یہ لوگ لشکر لے کر آگئے ۔ اس جنگ میں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ اجمعین نے مدینہ کے اردگر خندق کھودی اور ان لوگوں کے اس عظیم شرکا دفعیہ صرف اللہ نے کیا اور (اللہ نے ان لوگوں کو بھاری غم واندوہ کے ساتھ لوٹا دیا جنہوں نے کفر کیا تھا ‘ اور وہ کچھ خیر نہ پاسکے اور اللہ تعالیٰ مومنین کی مدد کے لئے کافی تھا ۔ وہ تو بہت قوی اور غالب تھا) ۔ یہ بات تعجب انگیز تھی کہ یہودی یہ کہنے پر اتر آئیں کہ مشرکین کا دین ‘ دین محمد ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کے دین سے بہتر ہے ۔ اور مشرکین ان لوگوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ پر ایمان لائے ہیں لیکن یہودیوں کی جانب سے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے ۔ حق و باطل کے درمیان انہوں نے ہمیشہ باطل کو ترجیح دی اور اہل حق اور اہل باطل میں سے ان کو ہمیشہ اہل باطل اچھے لگتے ہیں ۔ یہ اس قدر لالچی ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔ وہ اس قدر نفسانیت میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ ان کے مزاج میں اعتدال کا آنا ممکن ہی نہیں ہے ۔ ان کے سینے بغض سے بھرے ہوئے ہیں جو کبھی صاف نہیں ہو سکتے ۔ وہ اہل حق کے ہاں ‘ اپنی ٰخواہشات ‘ اپنے لالچ اور اپنے کین سے کا سامان نہیں پاتے ۔ انہیں اگر کچھ ملتا ہے تو ہمیشہ اہل باطل سے ملتا ہے ۔ اس لئے وہ ہمیشہ شہادت حق کے مقابلہ میں شہادت زور کے عادی ہیں اور اہل حق کے مقابلے میں اہل باطل کے لئے شہادت دیتے ہیں ۔ یہ ان کے دائمی حالات و عادات ہیں۔ ان حالات کی پشت پر جو اسباب تھے وہ اب بھی قائم ہیں اس لئے کہ یہ فعل ان کا طبیع اور منطقی فعل تھا کہ وہ کافروں کے متعلق یہ شہادت دیں کہ وہ اہل ایمان مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ ہدایت پر ہیں۔ آج یہودی برملا کہتے ہیں کہ وہ اپنی اس قوت سے جو میڈیا کے حوالے سے ان کے قبضے میں ہے ‘ اس کرہ ارض پر کامیاب ہونے والی ہر تحریک کو باکام کرسکتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ اہل باطل کے ساتھ پوری پوری معاونت کرتے ہیں تاکہ وہ تحریک اسلامی کو بدنام اور نیست ونابود کر دے ۔ اور یہ راز داری وہ اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اگر یہ کھل کر سامنے آتے ہیں تو دور جدید میں ان کے فریب کا پردہ چاک ہوتا ہے اور ان کے ایجنٹ عوام الناس میں بدنام ہوتے ہیں ‘ جو درحقیقت ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر جگہ اسلامی تحریکات کو بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے رات دن کام کرتے ہیں ۔ بلکہ بعض اوقات ان کیمکاری اور ہشیاری اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ بظاہر اپنے ایجنٹوں کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے ساتھ لڑتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ان لوگوں کے مددگار ہوتے جو اسلامی تحریکات کا قلع قمع کرنے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں اور سچائی کو مٹا رہے ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات وہ اپنے ان ایجنٹوں کے ساتھ جھوٹی لڑائی شروع کردیتے ہیں جو صرف زبان و کلام کے لئے کام کرکے انکے دور رس مقاصد پورے کرتے رہیں ۔ وہ اسلام اور مسلمانوں کی شکل بگاڑنے کے کام کو کبھی نہیں چھوڑتے اس لئے کہ انہیں اصل بغض تو اسلامی نظریہ حیات سے ہے اور ان کی اصل دشمنی احیائے اسلام کی ہر اس تحریک کے ساتھ ہے جو انہیں دور سے نظر آئے اور وہ اسے دھوکے میں نہ ڈال سکتے ہوں۔ یہ ایک ہی فطرت ہے ‘ ایک ہی منصوبہ ہے اور یک ہی مقصد ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو اللہ کی جانب سے مردود اور ملعون ہونے کا اعلان ہوتا ہے ۔ ان کو راندہ درگاہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اور یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ ان کے لئے کوئی نصرت نہ ہوگی اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوگا ۔ (آیت) ” اولئک الذین لعنھم اللہ ومن یلعن اللہ فلن تجدلہ نصیرا “۔ (4 : 52) ”۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے اور جس پر اللہ لعنت کر دے پھر تم اس کا کوئی مددگار نہیں پاؤ گے ۔ “ آج یہ بات ہمیں ہولناک نظر آتی ہے کہ تمام مغربی ممالک یہودیوں کے ناصر و مددگار ہیں۔ اس لئے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اللہ کا یہ وعدہ کہاں گیا کہ اللہ نے یہودیوں پر لعنت کی اور جس کو اللہ نے ملعون قرار دے دیا ‘ اس کا کوئی مددگار نہ ہوگا ؟ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی مددگار صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔ حقیقی مددگار لوگ نہیں ہیں اور نہ حکومتیں ہیں۔ اگرچہ ان کے پاس ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم ہوں اور میزائل ہوں۔ حقیقی ناصر اللہ ہے اور وہ اپنے تمام بندوں کے اوپر کنٹرول والا ہے اور بم اور میزائل ان لوگوں کے پاس ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مکمل کنٹرول میں ہیں ۔ اللہ ہی حقیقی مددگار ہے ان لوگوں کا جو اس کی مدد کرتے ہیں۔ (آیت) ” (وینصرون اللہ من ینصرہ) اور اللہ صرف ان لوگوں کی معاونت کرتا ہے جو اللہ پر اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح ایمان لانے کا حق ہے اور وہ اس کے نظام کی اس طرح اطاعت کرتے ہیں جس طرح اطاعت کا حق ہوتا ہے اور جو تسلیم ورضا کے ساتھ اپنے تمام فیصلے اسلامی منہاج اور اسلامی شریعت کے مطابق کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کے ذریعے ایک ایسی امت کو خطاب کیا تھا جو صحیح معنوں میں اللہ پر ایمان لا چکی تھی ۔ وہ اسلامی نظام زندگی کی مطیع تھی ۔ وہ اپنے تمام فیصلے شریعت کے مطابق کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس مومن امت کے مقابلے میں اس کے دشمنوں یعنی یہودیوں کو کمزور بنایا تھا اور اس وقت اہل ایمان کو یہودیوں پہ نصرت ملتی تھی اور فتح حاصل ہوتی تھی اس لئے کہ ان کا مددگار کوئی نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ کئے ہوئے وعدے کو عملی شکل دے دی تھی اور اللہ کا وعدہ عملی شکل صرف ان لوگوں کے ذریعے اختیار کرتا ہے جو صحیح معنوں میں مومن ہوں ۔ ہمیں اس وقت تمام ملحدین ‘ مشرکین اور اہل صلیب کی جانب سے بالاتفاق یہودیوں کی پشت پناہی سے خائف نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ وہ تو ہر دور میں اسلام کے خلاف یہودیوں کے ناصر و مددگار رہے ہیں ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ہمیں یہ بات دھوکے میں بھی نہ ڈال دے ۔ نصرت کا وعدہ صرف مومنین کے ساتھ ہے ۔ جب بھی ہم مومن بن جائیں گے فتح ہمارے قدم چومے گی ۔ اہل اسلام کو چاہئے کہ وہ تجربہ کرلیں ‘ ایک بار تجربہ کریں کہ وہ صحیح مسلمان بن جائیں پھر دیکھیں کہ آیا یہودیوں کے لئے کوئی مددگار اس دنیا رہتا ہے اور کیا یہودیوں کو ان مشرکین اور اہل صلیب کی نصرت کوئی فائدہ دیتی ہے ؟ اہل کتاب کے حالات ان کے موقف اور ان کی باتوں پر تعجب کا اظہار کرنے اور ان کو ذلیل اور ملعون قرار دینے کے بعد ‘ اس بات پر نکیر کی جاتی ہے کہ ان لوگوں کا موقف حضرت محمد ﷺ اور مسلمانوں کے بارے میں قابل مواخذہ ہے ۔ نیز یہ کہ وہ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ اللہ نے حضور اکرم ﷺ اور مسلمانون پر یہ احسان کیوں فرمایا کہ ان کو دین ‘ نصرت اور فتح سے ہمکنار کیا اور پھر اللہ نے ان پر فضل وکرم کی جو بارش کی اس پر بھی وہ جل بھن گئے ۔ حالانکہ اہل اسلام کو کوئی خیر یا بھلائی ان سے چھین کر نہ دی گئی تھی ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر سخت مزاج اور کس قدر لالچی تھے ۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے علاوہ بھی کسی کو کچھ ملے ۔ حالانکہ اللہ نے ان پر بھی فیضان رحمت فرمایا ۔ ان کے آباء پر بھی احسان کیا اور ان کو فیاضی اور رواداری سے منع نہ کیا تھا اور نہ ان کو یہ بغض اور حسد سکھایا تھا ۔ (آیت) ” ام لھم نصیب من الملک فاذا لا یوتون الناس نقیرا (53) ام یحسدون الناس علی ما اتھم اللہ من فضلہ فقد اتینا ال ابرھیم الکتب والحکمۃ واتینھم ملکا عظیما (54) (4 : 53۔ 54) ” کیا حکومت میں ان کا کوئی حصہ ہے ؟ اگر ایسا ہوتا تو دوسروں کو ایک پھوٹی کوڑی تک نہ دیتے ۔ پھر کیا یہ دوسروں سے اس لئے حسد کرتے ہیں اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا ؟ اگر یہ بات ہے تو انہوں معلوم ہو کہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا ۔ “ یہ نہایت ہی تعجب انگیز بات ہے کہ یہ لوگ یہ برداشت ہی نہیں کرسکتے کہ اللہ اپنے خزانوں سے کسی اور پر فضل وکرم کرے ۔ کیا یہ لوگ اللہ کے ساتھ اس کے نہ ختم ہونے والے خزانوں میں شریک ہیں ۔ کیا یہ لوگ اللہ کے اقتدار میں اس کے شریک ہیں ۔ یہ تو اللہ ہی ہے جو داتا ہے اور وہی ہے جو روکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ لوگ اپنی کنجوسی اور سختی کی وجہ سے کسی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دیتے نقیر سے مراد وہ جھلی ہے جو گٹھلی کی پشت پر ہوتی ہے ۔ اور یہودیوں کی کنجوسی اور ان کا بخل اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اتنا بھی کسی کو دے دیں اگر اللہ کی بادشاہی میں ان کا کوئی حصہ ہوتا ۔ یہ خدا کا شکر ہے کہ خدائی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوتا تو اگر تمام لوگ بھی بھوک سے ہلاک ہوجاتے تو وہ کسی کو گٹھلی کا چھلکا تک نہ دیتے ۔ شاید انہیں رسول خدا ﷺ سے اس بات پر حسد ہے کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا ہے کہ انکو یہ دین دیا جس سے ان عربوں کو جدید جنم نصیب ہوا اور وہ از سر نو ترقی کرنے لگے اور ان جاہل عربوں کو صاحب امتیاز قوم اور انسان بنا دیا ان کو روشنی یقین ‘ اطمینان اور اعتماد عطا کیا ۔ انکو پاکیزگی اور صفائی اور دنیا کے اندر اقتدار عطا کیا یقینا یہ صورت حال ان یہودیوں کے حسد کی وجہ ہے ۔ وہ اس بات پر مر گئے تھے کہ جاہل ‘ متفرق ‘ باہم متصادم عربوں پر ان کی ادبی اور ثقافتی اور اقتصادی برتری اب ختم ہونے والی ہے ۔ یہ برتری اس وقت قائم تھی جب ان کے پاس کوئی دینی پیغام نہ تھا ۔ یہ لوگ اس بات پر کیوں حسد کرتے ہیں کہ اللہ کسی قوم کو نبوت اور زمین پر اقتدار اعلی عطا فرمائے حالانکہ ان پر تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے سے ہی یہ فضل وکرم ہوتا رہا ہے جن کو اللہ نے کتاب اور حکمت (نبوت) عطا کی تھی ۔ ان کی آل واولاد میں نبوت جاری رہی تھی اور ان کو حکومت اور اقتدار اعلی بھی دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس فضل وکرم کی کچھ قدر نہ کی ۔ نہ اس نعمت کو سنبھالا ‘ نہ انہوں نے اس عہد قدیم کا پاس رکھا جو انہوں نے اللہ سے کیا تھا بلکہ ان میں سے کئی لوگ تو سرے سے مومن ہی نہ تھے ۔ جن لوگوں پر اس قدر فضل عظیم کیا گیا ہو ‘ ان کے لئے یہ تو مناسب نہیں ہے کہ ان میں منکر اور کافر پیدا ہوں ۔ (آیت) ” فقد اتینا ال ابرھیم الکتب والحکمۃ واتینھم ملکا عظیم (54) فمنھم من امن بہ ومنھم من صد عنہ وکفی بجھنم سعیرا “۔ (55) (4 : 54۔ 55) ” ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا ‘ ۔ مگر ان میں سے کوئی اس پر ایمان لایا اور کوئی اس سے منہ موڑ گیا ‘ اور منہ موڑنے والوں کے لئے تو بس جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے “۔ حسد کا درد کس کے حصے میں آتا ہے ۔ اگر کوئی نادار شخص کسی مالدار صاحب نعمت سے حسد کرے تو یہ حسد بھی فعل بد ہے ۔ لیکن اگر کوئی مالدار صاحب نعمت کسی پر حسد کرنے لگے تو یہ رذالت سے بھی آگے نہایت گہرا شر ہے اور اس قسم کا شر و فساد صرف یہودیوں کا حصہ ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ انکو جہنم کی آگ کی دھمکی دی گئی ہے ‘ جو اس رذالت کے لئے نہایت ہی مناسب جزاء ہے ۔ (آیت) ” وکفی بجھنم سعیرا “۔ (4 : 55) (ان کیلئے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ ہی کافی ہے) ۔ جب بات یہاں تک پہنچی کہ آل ابراہیم میں سے بعض لوگ مومن ہوئے اور بعض نے لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکا تو اس کے بعد ضروری ہوگیا کہ اہل ایمان کا انجام بھی بتا دیا جائے اور ان لوگوں کا انجام بھی بتا دیا جائے جو راہ ایمان سے روکتے ہیں ۔ یہ سزا وجزاء ہر دین میں ہمیشہ ایس طرح رہی ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نہایت ہی شدید اور خوفناک مناظر قیامت کی صورت میں اس کا ذکر کرتے ہیں۔
Top