Fi-Zilal-al-Quran - Al-Maaida : 43
وَ كَیْفَ یُحَكِّمُوْنَكَ وَ عِنْدَهُمُ التَّوْرٰىةُ فِیْهَا حُكْمُ اللّٰهِ ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ۠   ۧ
وَكَيْفَ : اور کیسے يُحَكِّمُوْنَكَ : وہ آپ کو منصف بنائیں گے وَعِنْدَهُمُ : جبکہ ان کے پاس التَّوْرٰىةُ : توریت فِيْهَا : اس میں حُكْمُ اللّٰهِ : اللہ کا حکم ثُمَّ : پھر يَتَوَلَّوْنَ : پھرجاتے ہیں مِنْۢ بَعْدِ : بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ : اور نہیں اُولٰٓئِكَ : وہ لوگ بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ماننے والے
اور یہ تمہیں کیسے حکم بناتے ہیں جبکہ ان کے پاس تورات موجود ہے جس میں اللہ کا حکم لکھا ہوا ہے اور پھر یہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے ۔
(آیت) ” نمبر 43۔ ” اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے) یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی اللہ کے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے اور پھر بھی مومن ہو ‘ یا وہ اللہ کے قانون پر راضی نہ ہو اور پھر بھی یہ زعم رکھتا ہو کہ وہ مومن ہے ۔ یہ ہر گز ممکن نہیں ہے ۔ اگر کوئی ایمان لاتا ہے تو اسے اپنی پوری زندگی میں شریعت کا نفاذ کرنا ہوگا ۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا دعوائے ایمان جھوٹا ہے اور اس کا موقف اس قطعی نص کی بالکل ضد ہے ۔ (آیت) ” وما اولئک بالمومنین “ (5 : 43) (یہ لوگ ایمان نہیں رکھتے) یہ معاملہ فقط اس حد تک نہیں ہے کہ حکام کی جانب سے اسلامی شریعت کانفاذ نہیں ہے بلکہ اگر محکوم لوگ بھی جن پر شریعت کا نفاذ ہوتا ہے ‘ شریعت کے نفاذ پر راضی نہیں تو بھی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوں گے اگرچہ زبانی طور پر وہ ایمان کا دعوی کریں ۔ یہ آیت سورة نساء کی آیت کے عین مطابق ہے جس میں کہا گیا ہے ۔ (آیت) ” (فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلموا تسلیما “ (4 : 65) ” خدا کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک یہ اپنے تنازعات کا فیصلہ آپ سے نہ کرائیں ۔ پھر یہ اپنے دل میں آپ کے فیصلے پر کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور پوری طرح سرتسلیم خم نہ کردیں) ان دونوں آیات کا تعلق محکوم عوام الناس سے ہے ‘ حکام سے نہیں ہے جبکہ دونوں ایمان سے نکل جاتے ہیں ۔ جو لوگ اللہ اور رسول کے فیصلوں پر راضی نہیں ہوتے ان کے بارے میں یہ آیات کہتی ہیں کہ یہ مومن نہیں رہتے یا اگر رسول فیصلہ کریں اور یہ لوگ روگردانی کردیں اور تسلیم نہ کریں ۔ خلاصہ کلام یہ ہے جیسا کہ اس سبق کے آغاز میں ہم نے کہا تھا کہ یہ مسئلہ اللہ کی حاکمیت کے اقرار کا مسئلہ ہے ۔ اللہ کی حاکمیت ‘ اس کی قیومیت اور انسان پر اس کی نگرانی ونگہبانی کے اقرار کا مسئلہ ہے یا اس کے انکار کا مسئلہ ہے اور اللہ کی شریعت کو قبول کرنا اور اس کے مطابق فیصلے کرانا اللہ کی حاکمیت ‘ اس کی نگہبانی کے اقرار کا ایک مظہر اور ثبوت ہے اور شریعت پر فیصلے نہ کرانا اس کے انکار کا مظہر اور ثبوت ہے ۔ یہ تو فیصلہ ان لوگوں کے بارے میں تھا جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے قبول نہیں کرتے ۔ اب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو حکام اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے ان کے بارے میں فتوی کیا ہے اور یہ فتوی ان تمام ادیان کا ہے جو اللہ کی جانب سے نازل ہوتے ہیں سب سے پہلے تورات کا فتوی ۔
Top