Fi-Zilal-al-Quran - An-Naba : 18
یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًاۙ
يَّوْمَ : جس دن يُنْفَخُ : پھونک مار دی جائے گی فِي الصُّوْرِ : صور میں فَتَاْتُوْنَ : تو تم آؤ گے اَفْوَاجًا : فوج در فوج
جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی ، تم فوج در فوج نکل آﺅ گے۔
یوم ینفخ ................................ سرابا (18:78 تا 20) ” جس روز صور میں پھونک مار دی جائے گی ، تم فوج در فوج نکل آﺅ گے۔ اور آسمان کھول دیا جائے گا ، حتیٰ کہ وہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا اور پہاڑ چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب ہوجائیں گے “۔ صور سے مراد بگل ہے۔ ہم صرف اس کے نام سے واقف ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ اس میں پھونک ماری جائے گی۔ اس کی کیفیت کیا ہوگی تو اس میں ہمیں نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر ہم اس کی تفصیلی کیفیت معلوم بھی کرلیں تو اس سے ہمارے ایمان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اللہ نے ہماری قوت فہم وادراک کو ایسے لاحاصل موضوعات پر کھپانے سے بچایا ہے اور جس قدر علم کی ضرورت تھی وہ ہمیں بتادیا ہے۔ پس ہم یہی سوچتے ہیں کہ ایک آواز ہوگی اور اس کے نتیجے میں سب انسان قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہمارے ذہنوں میں یہ منظر آتا ہے کہ انسانی نسلیں فوج در فوج چلی آرہی ہوں گی۔ حالانکہ دنیا میں اللہ نے ایسا نظام قائم کیا تھا کہ اگلی نسلیں جاتی رہتی تھیں اور نئی نسلیں ان کی جگہ لیتی تھیں تاکہ یہ نہ ہو کہ زمین پر لوگوں کے رہنے کی جگہ ہی نہ رہے ، بہرحال ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ لوگ فوج درفوج ہر نشیب و فراز سے چلے آرہے ہوں گے۔ ایک ہی میدان میں ہوں گے۔ یہ چیونٹیوں کی طرح قبروں سے نکل رہے ہوں گے اور یہ اس قدر لوگ ہوں گے کہ نہ ان کا پہلا سرا معلوم ہوگا اور نہ آخری۔ اور یہ عظیم اجتماع دلوں کے اندر ایک خوف پیدا کررہا ہوگا کیونکہ کسی نے کبھی اس قدر عظیم اجتماع نہ دیکھا ہوگا اور نہ سوچا ہوگا اس لئے کہ یہ اجتماع قیامت کے دن ہی ہوگا۔ یہ کہاں ہوگا اس کا ہمیں علم ہیں ہے۔ کیونکہ کائنات کا یہ نظام تو تباہ کردیا جائے گا۔ عظیم حادثات اور انقلابات ہوچکے ہوں گے۔
Top