Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا۔
درس نمبر 90 ایک نظر میں آیات کا یہ حصہ ، بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر حکم نفیر عام کے بعد نازل ہوا ہوگا۔ جب حضور کو معلوم ہوا کہ رومی جزیرۃ العرب کے شمالی علاقے شام کی حدود پر جمع ہوگئے ہیں۔ الا یہ کہ ہر قل نے اپنے ساتھیوں اور فوجیوں کو ایک سال کا راشن فراہم کردیا ہے اور ان افواج کے ساتھ قبائل لخم ، جذاب ، عاملہ اور غسان بھی شامل ہوگئے ہیں جو شمالی عربی قبائل تھے۔ ان کے ہر اول دستے مقام بلقا تک آپہنچے ہیں۔ ان حالات میں حضور نے بھی مسلمانوں کو عام لشکر کشی کی تیاری کا حکم دے دیا۔ حضور جب بھی کسی غزوے کے لیے نکلتے تو آپ جنگ چال کے طور پر تیاریوں کا رخ دوسری جانب پھیرتے پتہ نہ ہوتا کہ آپ نشانہ کہاں لگائیں گے مگر آپ نے غزوہ تبوک میں اس اصول کو چھوڑ دیا چونکہ یہ دور کا سفر تھا اور موسم نہایت ہی سخت تھا۔ اس لیے حضور نے اس سفر کی بات صاف صاف بتا دی تھی۔ سخت گرمی پڑھ رہی تھی۔ چھاؤں خوشگوار تھی۔ باغات پک چکے تھے۔ اور لوگوں کے لیے سفر کے مقابلے میں گھروں پر قایم بہت ہی محبوب تھا۔ ان حالات میں اسلامی معاشرے میں ان کمزوریوں کا ظہور ہوا جن کے بارے میں ہم نے اس سورت کے مقدمے میں تفصیلا بتایا ہے۔ ان حالات میں منافقین کے لیے بھی اپنی ذلیلانہ حرکات کے لیے موقع پیدا ہوگئے ، انہوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ گرمی میں لشکر کشی نہ کی جائے۔ انہوں نے طویل سفر کی صعوبتوں کو بیان کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے لوگوں کو رومیوں کی قوت سے بھی خوب ڈرایا۔ اور اس پروپیگنڈے کا اثر بھی اسلام معاشرے پر پڑا۔ چناچہ آیات کے اس حصے میں ان تمام باتوں کے خلاف متنبہ کیا گیا۔ درس نمبر 90 تشریح آیات 38 ۔۔۔ تا۔۔ 41 پیچھے رہ جانے والوں کے لیے یہ آغاز عتاب ہے ، ان کو یہاں سخت دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر انہوں نے جہاد کے معاملے میں سستی کی تو اس کے نتائج سخت ہوں گے۔ اس موقع پر انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ تم حضرت محمد کو اکیلا اور محتاج نہ سمجھو۔ ان کے ساتھ اللہ کی نصرت اور مدد ہر وقت موجود رہتی ہے۔ غار میں اس کے ساتھ تم میں سے کوئی نہ تھا اور تمہارے بغیر بھی اللہ نے اپنی قدرت سے ان کو بچایا۔ حضور کو تو تمہارے تخلف سے کوئی نقصان ہوگا یا نہ ہوگا ، تمہیں بہرحال گناہ ہوگا اور تم سے ایک بڑی کوتاہی کا صدور ہوجائے گا۔ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِيْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ : " اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تمہیں کیا ہوگیا کہ جب تم سے اللہ کی راہ میں نکلنے کے لیے کہا گیا تو تم زمین سے چمٹ کر رہ گئے ؟ " یہ سب زمین کے بوجھ ہیں ، زمین کے لالچ ، زمین کے تصورات ، زندگی کے چلے جانے کا خوف ، مال کے نقصان کا خوف ، دنیاوی لذتوں اور مال و متاع کے ضائع ہوجانے کا خوف ، عیاشی آرام اور امن و سکون کے تباہ ہوجانے کا خوف۔ فنا ہونے والی لذتوں ، زندگی کے مکتصر اور عارضی مقاسد اور خود اس کرہ ارض کی مختصر زندگی کے ساتھ چمٹ جانے کی رکاوٹ۔ غرض تمام رکاوٹیں ، خون اور گوشت اور مٹی سے متعلق ہیں۔ اور ان تمام رکاوٹوں کو ایک نہایت ہی زمزمہ زنگیز لفظ اثاقلتم کے ذریعے بتایا گیا۔ اس میں ایک قرات ثقاقلتم بھی آئی ہے لیکن حفص کی عام قراءت نہایت ہی موثر ہے۔ یہ لفظ جس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے کہ ایک جثہ ہے جو زمین پر گرنے کے لیے ڈھیلا پڑ رہا ہے۔ لوگ اسے مشکل سے اوپر کی طرف اٹھانے کی سعی کرتے ہیں لیکن وہ اس قدر بوجھل ہوچکا ہے کہ وہ زمین پر گرجاتا ہے۔ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ : ان الفاظ میں سے اظہار ہوتا ہے کہ زمین اسے اپنی جانب کھینچ رہی ہے لیکن روحانی قوت اور تحریک اور شوق کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اوپر اٹھے جہاد کے لیے اٹھنے کا عمل در اصل اپنے آپ کو اس زمین کی کشش ثقل سے آزاد کرنا ہے۔ زمین کے اندر پائی جانے والی گوشت و پوست کی آلودگیوں سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کا عمل ہے۔ انسان کو روحانی دنیا اور بلند مقاصد کی دنیا کی طرف مشتاق کرنے کا عمل ہے۔ انسانی روح کو دنیاوی قید و بند سے آزاد کردینے کا عمل ہے۔ اس عارضی اور مختصر زندگی کو ترک کرکے دائمی اور طویل زندگی میں داخل ہونے کا عمل ہے۔ اَرَضِيْتُمْ بِالْحَيٰوةِ الدُّنْيَا مِنَ الْاٰخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا فِي الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِيْلٌ: " کیا تم نے آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کو پسند کرلیا ؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا " کسی عقیدے اور نظریے کے پیروکار اگر جہاد فی سبیل اللہ سے روکتے ہیں یا اپنے نظریات کی خاطر جنگ نہیں کرتے تو اس کا صرف ایک ہی سبب ہوسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے نظریہ اور عقیدہ کے اندر فتور اور کمزوری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں من مات و لم یغزوا ولم یحدث نفسہ بغزو مات علی شعبۃ من شعب نفاق۔ جو شخص مر گیا اور اس نے نہ تو جہاد میں حصہ لیا اور نہ اس کو کبھی اس کا خیال گزرا تو ایسا شخص نفاق کے شعبوں میں سے ایک شعبے پر مرا لہذا نفاق جب کسی عقیدے میں داخل ہوتا ہے تو اسے بلندی اور کمال سے روکتا ہے۔ یہ نفاق ہی ہے جو انسان کو موت سے ڈرا کر ، فقر و فاقے سے ڈرا کر جہاد سے روکتا ہے حالانکہ موت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور رزق ہر شخص کا اللہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آخرت کے مقابلے میں اس پوری زندگی کا مال و متاع شیئ قلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے یہ بیان آتا ہے۔
Top