Tafseer-e-Haqqani - Al-Israa : 37
وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا١ۚ اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا
وَلَا تَمْشِ : اور نہ چل فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَرَحًا : اکڑ کر (اتراتا ہوا) اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَخْرِقَ : ہرگز نہ چیر ڈالے گا الْاَرْضَ : زمین وَلَنْ تَبْلُغَ : اور ہرگز نہ پہنچے گا الْجِبَالَ : پہاڑ طُوْلًا : بلندی
اور زمین پر اکڑتا ہوا نہ چلنا کیونکہ نہ تو زمین کو پھاڑ ہی ڈالے گا اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچے گا
تیرہواں حکم : ولاتمش فی الارض مرحًا کہ تکبر نہ کر زمین پر اکڑ کر نہ چل کیونکہ تو عاجز ہے کچھ زمین کو پھاڑ نہ ڈالے گا۔ بلند ہو کر پہاڑوں کے برابر نہ ہو سکے گا۔ ان میں سے ان مکروہ چیزوں کو سیئہ فرماتا ہے اور جو اوامر ہیں ان کی نسبت فرماتا ہے ذلک مما اوحٰی الیک ربک من الحکمۃ یا یہ جملہ سب باتوں کی طرف اشارہ ہے۔ ان احکام میں جو کچھ اسرار رکھے گئے ہیں جن سے انسان کی روح اور اس کے اخلاق کی صفائی اور تدبیر منزل اور انتظام عالم کی خوبی وابستہ ہے اور پھر ان کے بیان اور ترتیب میں جو کچھ لطف رکھا گیا ہے اگر اس پر کوئی مطلع ہوجائے گا تو اس کو حکمت الہٰیہ کے جواہر اور الہام ربانی کے وہ نادر موتی کہے گا جو بنی اسرائیل کے احکام عشرہ سے بدرجہا بہتر ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لوحوں پر کندہ کر کے عطا ہوئے تھے۔ ان احکام کی ابتداء بھی توحید سے ہوئی تھی اور اخیر میں بھی اسی بات کی تاکید کے لیے اعادہ فرمایا ولاتجعل مع اللہ الہًا آخر اور اس کے بعد اس بات سے بھی منع کیا جو عرب کے مشرکین کرتے تھے۔ وہ یہ کہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں سمجھ کر ان کو کاروبار خدائی میں شریک جانتے تھے۔ اس بات کو کس لطف کے ساتھ رد کرتا ہے۔ افاصفاکم ربکم بالنبین واتخذمن الملائکۃ انثًا کہ کیا تم کو خدا نے بیٹے دیے اور اپنے لیے بیٹیاں پسند کیں بھلا یہ کیسی لغوبات ہے ؟ ان سب باتوں کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے۔ و لقد صرفنا الخ کہ قرآن میں ہم نے ہر ایک قسم کی بات وعظ و پند احکام دنیا و آخرت بیان کردیے تاکہ وہ سمجھیں اور غور کریں مگر ان ازلی بدبختوں کو تو اس سے اور زیادہ نفرت ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر شرک کا رد اور توحید کا اثبات کرتا ہے اور اس بات کو قرآن میں باربار اس لیے ذکر کیا گیا کہ اس عہد میں شرک و بت پرستی کا دریا موجیں مار رہا تھا پس فرماتا ہے لو کان معہ الھۃ کہ اگر اس کے ساتھ تمہارے قول کے موافق اور بھی خدا ہوتے تو عرش والے تک یعنی مالک اصلی تک لڑنے کے لیے کوئی رستہ نکالتے ‘ مقابلہ کرتے جیسا کہ متعدد بادشاہوں میں ہوتا ہے یا یہ معنی کہ خود ان کو اس تک رسائی کرنے کے لیے حاجت پڑتی پھر وہ تمہیں کیا دیتے لیتے۔ سبحانہ و تعالیٰ الخ میں اپنی پاکی بیان فرماتا ہے اور تسبیح لہ الخ میں ظاہر کرتا ہے کہ آسمان اور زمین اور ان کے اندر کی ہر چیز اس کی تسبیح یعنی پاکی اور کبریائی بیان کرتی ہے، ذی روح تو زبان سے اور جمادات زبان حال سے کہ ان کا وجود اور ان کی ہر حالت اس کی یکتائی پر دلیل ہے مگر تم غور نہیں کرتے ان کی تسبیح نہیں سمجھتے 2 ؎۔ تمہارا یہ جرم اس قابل تھا کہ دنیا میں تمہیں ہلاک کیا جاتا مگر وہ حلیم و غفور ہے۔ صحیح بخاری میں عبداللہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک سفر میں پانی نہ تھا ایک برتن لائے جس میں کسی قدر پانی تھا حضرت ﷺ نے اس میں ہاتھ ڈال دیا تو آپ کی انگلیوں سے پانی نکلتا تھا جیسا کہ چشمہ سے نکلتا ہے کہ تمام لشکر نے وضو کیا اور ہم کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے اور وہ کھایا جاتا تھا۔ جمادات میں بھی خدا تعالیٰ نے ایک طرح کا علم رکھا ہے جس کو وہی جانتا ہے۔ 12 منہ۔ 2 ؎ یعنی ان میں غوروفکر کا مادہ قدرت نے نہیں دیا اس لیے جب اے نبی قرآن پڑھتے ہیں وہ سمجھتے اور غور نہیں کرتے اس حالت کو پردہ ڈالنے سے تعبیر کیا ہے اور اسی کو ان کے دلوں پر حجاب ڈالنے اور کان میں ثقل پیدا کردینے سے۔ 12 منہ۔
Top