Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ
: اب کہیں گے
السُّفَهَآءُ
: بیوقوف
مِنَ
: سے
النَّاسِ
: لوگ
مَا
: کس
وَلَّاهُمْ
: انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا
عَنْ
: سے
قِبْلَتِهِمُ
: ان کا قبلہ
الَّتِيْ
: وہ جس
کَانُوْا
: وہ تھے
عَلَيْهَا
: اس پر
قُلْ
: آپ کہہ دیں
لِلّٰہِ
: اللہ کے لئے
الْمَشْرِقُ
: مشرق
وَالْمَغْرِبُ
: اور مغرب
يَهْدِیْ
: وہ ہدایت دیتا ہے
مَنْ
: جس کو
يَّشَآءُ
: چاہتا ہے
إِلٰى
: طرف
صِرَاطٍ
: راستہ
مُّسْتَقِيمٍ
: سیدھا
بیوقوف ابھی کہنے لگیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے کہ جس پر وہ تھے کس نے پھیر دیا (سو اے نبی ! ان سے) کہہ دو کہ مشرق اور مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔
ترکیب : سیقول فعل السفہاء فاعل من الناس اس کا بیان ماولہم مبتداء و خبر مل کر موضع نصب میں ہے۔ بسبب قول کے عن جار قبلۃ مجرور مضاف ھم مضاف الیہ۔ سب موصوف التی کانوا علیہا ای علی تو جھہا او علی اعتقادھا۔ جملہ صفت عن متعلق ولی کے ہے۔ تفسیر : اس سے پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے یہود اور ان کے مقلد منافقین کی ان نکتہ چینیوں کو ( کہ وہ جو اسلام اور نبی (علیہ السلام) کی شان میں کرتے تھے) ذکر فرما کر جواب دیا تھا۔ منجملہ ان نکتہ چینیوں کے ایک بڑا بھاری اعتراض اسلام پر اور آنحضرت پر تحویل قبلہ کے بارے میں کرتے تھے۔ سو خدا تعالیٰ اس کا جواب اس آیت میں دیتا ہے۔ جب نبی ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تو یہاں بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے اور اسی کو قبلہ بناتے تھے۔ مؤرخین کی روایات میں تفاوت ہے کہ کوئی کہتا ہے نو یا دس مہینے تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ کوئی سولہ یا سترہ مہینے تک کہتا ہے۔ واقدی وغیرہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ربیع الاول کی اول تاریخوں میں مدینہ میں تشریف لائے۔ پھر دوسرے سال کے رجب میں پندرہویں تاریخ پیر کے روز کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ اس تقدیر پر یہ مدت تخمیناً سترہ (17) مہینے کی ہوتی ہے اور یہی ٹھیک ہے مگر اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ جس وقت مکہ میں تھے ٗ جب بھی بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اور کعبے کو سامنے رکھتے تھے۔ جیسا کہ بیہقی نے سنن میں اور ابو دائود نے ناسخ و منسوخ میں اور ابن شیبہ نے عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ کان رسول اللہ ﷺ یصلی وھو بمکۃ نحوبیت المقدس والکعبۃ بین یدیہ وبعد ماتحول الی المدینۃ ستۃ عشر شہرا ثم صرف الی الکعبۃ اور اسی لیے بعض مورخین کو شبہ ہوگیا کہ تحویل قبلہ دو بار واقع ہوئی ٗ حالانکہ یہ غلط ہے۔ قصہ مختصر آنحضرت ﷺ نے ایک سرِّالٰہی کی وجہ سے چند مدت بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور پھر حکمت الٰہی کا مقتضٰی ہوا کہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے۔ مخالفوں کے طعن کو بیان کرکے اس کا جواب دیتا ہے کہ عنقریب بیوقوف لوگ کہ جو نہ سرِ الٰہی سے واقف ہیں نہ خاصان خدا پر ان کا اعتقاد ہے کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کے حکم پر یہ اعتراض کریں گے کہ ان مسلمانوں کو کس چیز نے ان کے قبلہ بیت المقدس سے پھیر دیا جس کی طرف وہ مدت تک منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ یہ طعن یہود مدینہ اور منافقین اور مشرکین عرب کی طرف سے ہوا تھا۔ یہود نے تو اس بنا پر کیا کہ خدا اپنے احکام کو کیوں منسوخ کرتا ہے۔ کیا اس کو پیشتر مصلحت معلوم نہ تھی۔ بعد میں سوجھی۔ خدا ایسا نہیں کرسکتا اور نیز ان کو یہ امر ناگوار گزرا کہ باوجود اتباع سلسلہ انبیاء کے یہ نبی عربی اس کعبہ انبیاء کو چھوڑ کر جاہلوں کے کعبہ کی طرف منہ کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ وہ نبی نہیں کہ جس کی تورات میں موسیٰ نے خبر دی ہے (آج کل کے پادری اور ان کے مقلد بھی یہود مدینہ کے پیرو بن کر اسلام پر اس لغو اعتراض کو وارد کیا کرتے ہیں) اور منافقین کے نزدیک کوئی جہت مرجح نہ تھی۔ وہ اس کو سرے سے لغو سمجھتے تھے اور مشرکین کہتے تھے کہ دیکھو آخرکار ہمارے کعبہ کی طرف منہ کیا۔ خدا تعالیٰ اس شبہ کا جواب دیتا ہے کہ اے نبی ! ان سے کہہ دو کہ مشرق اور مغرب یعنی ہر جانب اور ہر سمت خدا کے نزدیک یکساں ہے۔ ہر جگہ اس کا ظہور ہے مگر وہ کسی سر کی وجہ سے ایک جہت کو عبادت کرنے والوں کے لیے مخصوص کردیتا ہے اور اس سر کو ہر شخص نہیں سمجھتا ٗ ہاں وہ جس کو چاہتا ہے اس کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ متعلقات وجہ تعین قبلہ : قبلہ بروزن فعلہ سامنے کی جہت کو کہتے ہیں یا اس حالت کو جو کسی چیز کے سامنے ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ مقابلہ سے مشتق ہے۔ اومن الاستقبال اور قبلہ کو اسی لیے قبلہ کہتے ہیں کہ وہ نمازی کے سامنے ہوتا ہے (تفسیرکبیر وغیرہ) سو یہ قبلہ کبھی بیت المقدس اور پھر خانہ کعبہ قرار پایا۔ اس مقام پر دو باتیں قابل غور ہیں۔ وجہ اوّل : اول یہ کہ نماز کے لیے قبلہ معین کرنے میں کیا سرِّ الٰہی ہے ؟ اس کی تحقیق یہ ہے کہ اس میں چند حکمتیں ہیں۔ (1) مقدمہ : خدا تعالیٰ نے انسان کو دو قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ ایک قوت عقلیہ کہ جو مجردات کا ادراک کرتی ہے۔ دوسری قوت خیالیہ کہ جو محسوسات میں تصرف کرتی ہے۔ بسا اوقات یہ قوت قوت عقلیہ کو معانی مجردہ کے ادراک میں مدد دیا کرتی ہے اور اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ مہندس جب مقادیر کا کوئی حکم کلی دریافت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے کوئی صورت معینہ اور شکل معین فرض کرلیتے ہیں تاکہ حس اور خیال اس کی اس ادراک میں اعانت کرے۔ پس جب بندہ کو خدا تعالیٰ کے حضور میں بوقت عبادت حاضر ہونا پڑا تو اس ذات مقدسہ کے لیے جو جسم اور اس کے تمام عوارض سے پاک اور احاطہ حس و خیال سے باہر ہے۔ کوئی آلہ حسی 1 ؎ ضرور تھا کہ جو اس تجلیات کا مظہر اور اس کے جمال باکمال کا آئینہ ہو اور یہ بھی ضرور تھا کہ اس آئینہ میں کوئی صنمیت 2 ؎ وغیرہ کا رنگ نہ ہو (یعنی وہ جگہ کسی کی تصویر نہ ہو ورنہ پھر توجہ عبودیت اس صاحب تصویر کی طرف رجوع کرے گی) تاکہ عمدہ طرح سے نظر آوے اور یہ جگہ خانہ کعبہ ہے کہ جو عالم ملکوت میں بیت المعمور کا نمونہ اور عالم ناسوت میں اب الانبیاء و رئیس الموحدین حضرت آدم و ابراہیم (علیہما السلام) کا معبد اور خداوند تعالیٰ کے جلوہ کی کرسی ہے (جیسا کہ تورات سفر استثناء میں ہے کہ خدا فاران یعنی مکہ کے پہاڑ سے جلوہ گر ہوا) اور آفتاب دین محمدی کا مطلع اور اہل اسلام کی دولت و حشمت کا منبع ہے اور اس کے بعد دوم درجہ میں بیت المقدس ہے جہاں سے نبوت بنی اسرائیل کا دریا بہا ہے۔ وجہ دوم : (2) یہ امر تو ظاہر ہے کہ حالت اجتماعیہ حالت وحدانیہ سے قوی ہوتی ہے۔ دیکھئے ایک یا دو بال میں وہ قوت نہیں کہ جو دس بیس پچاس ملا کر رسی بٹنے سے ہوتی ہے۔ پس جب نباتات و جمادات کا یہ حال ہے تو پھر انسان بالخصوص اہل ایمان کی حالت اجتماعیہ کا تعاکس انوار و ظہور تجلیات میں بوقت عبادت کیا کہنا ہے ؟ اس اتفاق کی بدولت اسلام شرقاً غرباً تھوڑے سے دنوں میں ابر رحمت کی طرح دنیا میں پھیل گیا۔ اسی کی برکت سے خدا کے نافرمان بادشاہوں کی سرسبز سلطنتیں دینداروں کے ہاتھ میں آئیں۔ اسی لیے نماز جماعت مقرر ہوئی کہ اہل محلہ میں اتفاق پیدا کرے اور جمعہ اور حج اس لیے مقرر ہوا کہ اہل شہر اور روئے زمین کے اہل اسلام کا باہمی میل جول ہو۔ پس جب نماز میں حالت اتفاقیہ شریعت کے نزدیک ایک امر ضروری تھا تو اس کے لیے ایک جہت کا مقرر ہونا بھی ضرور تھا کیونکہ اختلاف ظاہری اختلاف باطنی کی دلیل ہے اور وہ جہت خانہ کعبہ ہونی چاہیے کیونکہ اسلام اور توحید کا یہی منبع ہے اور اکیلے کی نماز جماعت کے تابع ہے جو اس کو ضرور 1 ؎ یعنی اس کی مشق کے لیے خاکہ۔ 2 ؎ بت پرستوں اور عناصر پرستوں کی سمجھ میں جبکہ یہ نکتہ نہ آیا اور سونے اور پیتل میں تمیز نہ رہی تو ان چیزوں کو جہت عبادت کی آڑ بنا کے پوجا۔ (12 منہ) ہے۔ اس کو بھی ضرور ہے اور یہی اسرار ہیں اختصاراً اسی پر بس کرتا ہوں۔ دوسری بات قابل غور یہ ہے کہ دو قبلہ کیوں ہوئے۔ چند روز بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کے بعد پھر خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا کیوں حکم ہوا ؟ اس میں بھی چند اسرار ہیں (1) یہ کہ جناب رسول اللہ ﷺ کا دین تمام انبیاء (علیہم السلام) کے اصول دین پر مبنی ہے اور اسی لیے آنحضرت ﷺ کا ماننا موسیٰ و عیسیٰ و دیگر انبیاء کا ماننا اور قرآن مجید پر ایمان لانا تمام کتب الٰہیہ پر ایمان لانا ہے۔ گویا اخیر زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اختلافِ جزئیات کو (کہ جو مصالح قوم اور زمانہ کی وجہ سے انبیاء کی شریعتوں میں تھا) حذف کرکے ایک اصلی مذہب بنا دیا یا یوں کہو کہ تمام پھولوں کا عطر کھینچ کر ایک جا جمع کردیا اور انبیاء (علیہم السلام) کے دو معبد روئے زمین پر ایسے معظم و مکرم تھے کہ جن کی عزت و عظمت تمام خدا پرست قوموں کے دلوں میں مرسوخ تھی۔ ایک کعبہ دوسرا بیت المقدس۔ پس ضرور ہوا کہ ان دونوں گھروں کو قبلہ نما بنایا جاوے تاکہ مرتبہ جامعیت پایا جاوے مگر چونکہ نور نبوت اولاً کعبہ ہی سے چمکا ہے تو بیشتر صرف اس کی رعایت یا اس کے ساتھ دوسرے گھر کی بھی رعایت کرنا مناسب ہوا۔ جیسا کہ بیہقی وغیرہ کی روایت سے ثابت ہے۔ پھر جب اس آفتاب نبوت نے مدینہ میں جا کر عروج پایا اور آنِ واحد میں دونوں قبلوں کی طرف متوجہ ہونا مشکل پڑگیا تو اس رتبہ ترقی کے موافق بیت المقدس کی طرف نماز میں منہ کرنا پڑا مگر جب تھوڑے سے ہی دنوں کے بعد دائرہ کمالات نبوت نہایت وسیع ہوا تو جس نقطہ سے شروع ہوا تھا ٗ وہیں آرہا یعنی پھر خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔ (2) یہ کہ مکہ سے مدینہ کی طرف آنحضرت ﷺ کا ہجرت کرکے آنا اس طرف اشارہ تھا کہ آپ انبیائِ بنی اسرائیل کی طرف ملتفت ہیں کیونکہ مدینہ مکہ سے شام کی جانب ہے جو انبیائِ بنی اسرائیل کا مرکز ہے تاکہ انبیائِ بنی اسرائیل کے پیروئوں اہل کتاب یہود و نصاریٰ کو یہ بات معلوم ہوجائے کہ یہ نبی عربی سلسلہ انبیائِ بنی اسرائیل موسیٰ و عیسیٰ دائود (علیہم السلام) کے برخلاف نہیں بلکہ انہیں کا مذہب و ملت کا مہتمم و مصلح ہے جیسا کہ توریت وغیرہ کتب انبیاء میں خبر دی گئی تھی اور جس لیے اہل کتاب ایک ایسے مصلح و مجدد کے آنے کے منتظر بیٹھے تھے۔ اس لیے مدینہ میں تشریف لا کر ضرور ہوا کہ اتحاد انبیائِ بنی اسرائیل کا اظہار کیا جائے تاکہ اہل کتاب کو نفرت نہ ہو ( اسی بات کو بعض مفسرین نے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کی وجہ تالیف للیہود بتائی ہے اور اظہار اتحاد دلی کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے سے زیادہ اور کوئی بات ہو نہیں سکتی تھی۔ ) اس لیے اس طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا مگر بیت المقدس اور اس کے بانی اور اس کے انبیاء (علیہم السلام) دراصل ملت ابراہیمی کے تابع ہیں اور آنحضرت ﷺ ملت ابراہیمیہ کے اصلی مہتمم و مصلح کرکے بھیجے گئے ہیں۔ اس لیے مسجد ابراہیمی یعنی خانہ کعبہ کی طرف ہمیشہ کے لیے منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دینا اس بات کا اظہار ہے کہ آپ کو اصلی و دائمی خصوصیت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہے کیونکہ ان کے بڑے فرزند اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کو اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) سے خصوصیت اور خاصہ اور حق اکبریت فوقیت کے ساتھ حاصل ہے اور نیز اسلام کا ظہور بھی مکہ سے ہوا جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے معبد کعبہ کا شہر ہے اور اسلام کی اشاعت اور جہان بھر میں پھیلنے کا ذریعہ بھی عرب کی قومیں نوشتہ ازلی میں قرار پا چکی ہیں اور ان سب کا عبادت گاہ کعبہ تھا اور اسی کی عظمت ان کے دلوں پر جاگزیں تھی اور اسی کی طرف منسوب ہونے کو وہ ابراہیمیت کی علامت خاص جانتے تھے۔ اس لیے ہمیشہ کے لیے کعبہ ہی جہت نماز قرار پایا۔ (3) اور اس میں یہ بھی سر ہے کہ آنحضرت ﷺ کو وصف جامعیت حاصل ہوجائے۔ ام القلبتین کا مرتبہ ملے۔ (4) نیز اس میں مخلصین و غیر مخلصین کا امتحان بھی ہے۔ رسم پرست ہمیشہ اپنے رسوم و مالوفات ہی پر چلتے ہیں۔ مخلصین فوراً حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ جدھر ہادی نے موڑ دیا ٗ مڑ جاتے ہیں اور اسی کا نام اتباع حقیقی ہے اور یہی محمدی ہونے کی سچی علامت اور محبت صادق کا خاص نشان ہے ورنہ دراصل مشرق و مغرب یعنی ہر سمت خدا کی ہے ٗ اس کا ہر سمت جلوہ ہے کافراں سجدہ کہ درپیش بتاں میکردند ہمہ روسوئے تو بود و ہمہ سو روئے تو بود نہ کعبہ ہی میں خدا رہتا ہے نہ بیت المقدس میں ہی بستا ہے۔ وہ ہر مکان و ہر زماں سے پاک ہے۔ واضح ہو کہ بعض خبطیوں نے اس مقام پر وہ بےسروپا اعتراض کئے ہیں کہ جن کو قرآن سے کچھ بھی علاقہ نہیں۔ منجملہ ان کے یہ کہ اہل کتاب کے لیے کوئی جہت قبلہ ہی نہیں ٗ پھر ان کے لیے مشرق و مغرب کو کیوں جہت کہا۔ از انجملہ یہ کہ کعبہ دیواروں کا نام ہے اور جب دیواریں نہ رہیں گی تو کیا ہوگا وغیرہ ذلک من الخرافات اس لیے اس کے بعد خدا نے یہدی من یشاء الی صراط مستقیم فرمایا کہ یہ اسرار جس کو ہم چاہتے ہیں ٗ تلقین کرتے ہیں ورنہ بعض تو وادی ضلالت و جہالت میں سر ٹکراتے ہی مرجاتے ہیں۔ اس آیت سے جس طرح یہ بات ثابت ہوئی کہ احکامِ الٰہی کا چھپانا حرام ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ کفار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ یہاں تک حکم تحویل قبلہ کی تمہید تھی۔ اگلی آیات میں حکم دیا جا رہا ہے۔
Top