Al-Qurtubi - Adh-Dhaariyat : 50
فَفِرُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؕ اِنِّیْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۚ
فَفِرُّوْٓا اِلَى : پس دوڑو طرف اللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنِّىْ لَكُمْ : بیشک میں تمہارے لیے مِّنْهُ : اس کی طرف سے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا ہوں مُّبِيْنٌ : کھلم کھلا
تو تم لوگ خدا کی طرف بھاگ چلو، میں اس کی طرف سے تم کو صریح راستہ بتانے والا ہوں
ففر وا الی اللہ، انی لکم منہ نذیر مبین ،۔ امتوں نے انبیاء کی جو تکذیب کی اور ان امتوں کو ہلاک کیا گیا اس کا ذکر ہوچکا اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا : اے محمد ! انہیں کہو یعنی قوم سے کہو اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگو میں تمہیں واضح خبردار کرنے والا ہوں۔ یعنی اس کے معاصی سے اس کی اطاعت کی طرف بھاگو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگو۔ حضرت ابن عباس سے یہ مروی ہے : اس سے اس کی طرف بھاگو اور اس کی اطاعت کرو۔ محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن عثمان بن عفان نے کہا : ففر وا الی اللہ سے مراد ہے مکہ مکرمہ کی طرف نکلو۔ حسین بن فضل نے کہا : اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے بچو جو اللہ کی ذات کے سوا کسی اور کی طرف بھاگا تو وہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ ابوبکر وراق نے کہا : شیطان کی طاعت سے رحمن کی طاعت کی طرف بھاگو۔ حضرت جنید بغدادی نے کہا : شیطان باطل کی طرف دعوت دیتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگو وہ تمہیں شیطان سے بچا لے گا۔ ذوالنون مصری نے کہا : جہالت سے علم کی طرف، کفر سے شکر کی طرف بھاگو۔ عمرو بن عثمان نے کہا : اپنے نفوس سے اپنے رب کی طرف بھاگو۔ یہ بھی کہا : اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمہارا حق میں جو فیصلہ ہوچکا ہے اس کی طرف بھاگو اپنی حرکتوں پر اعتماد نہ کرو۔ سہیل بن عبداللہ نے کہا : غیر اللہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف بھاگو (1) ۔ انی لکم منہ نذیر مبین ،۔ کفر اور معصیت پر میں تمہیں اس کے عقاب سے ڈراتا ہوں۔ ولا تجعلو امع اللہ الھا اخر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ یہ لوگوں سے کہیں جب کہ آپ نذیر ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے مخلوق کو خطاب ہے۔ انی لکم منہ یعنی میں (اللہ) تمہیں محمد ﷺ اور اس کی تلواروں سے نذیر یعنی میں تمہیں اس کی پکڑ اور تلوار سے خبر دار کرنے والا ہوں اگر تم میرے ساتھ شرک کو ؛ یہ حضرت ابن عباس کا قول ہے۔ کذلک ما اتی الذین من قبلھم من رسول یہ نبی کریم ﷺ کو تسلی دی جارہی ہے یعنی جس طرح تیری قوم نے جھٹلایا اور کہا : آپ ساحرو مجنون ہیں ان سے قبل لوگوں نے بھی جھٹلایا اور اسی کی مثل قول کیا۔ کذلک میں جو کاف ہے اس کو نصیب اس تقدیر کی بنا پر ہو انذرکم انذار کا نذار من تقدمنی من الرسل الذین انذرو اقوامھم یا یہ مرفوع ہو تقدیر کلام ہو الامر مرکزلک۔ پہلی صورت میں ان لوگوں کو ڈرانا ہے جنہوں نے موجد ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی۔ دوسری صورت میں ملحدین میں سے جنہوں نے شرک کیا۔ کذلک کے بارے میں گفتگو یعقوب وغیرہ سے مروی ہے۔ اتواصوابہ یعنی پہلوں نے بعد والوں کو جھٹلانے کی وصیت کی (2) اور اس پر موافقت کی یہاں ہمزہ استفہام تو بیج اور تعجب کے اظہار کے لئے ہے۔ بل ھم قوم طاغون، یعنی ان میں سے بعض نے کہا بعض کو وصیت نہیں کی بلکہ طغیان نے سب کو جمع کردیا۔ یہ کفر میں حد تجاوز کرنا ہے۔ فتول عنھم ان سے اعراض کیجئے اور ان سے درگزر کیجئے۔ فما انت بملوم ،۔ آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیے گئے نہیں کیونکہ رسالت کی تبلیغ کا جو فریضہ آپ لازم تھا اس کو آپ نے ادا کیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ساتھ یہ منسوخ ہے و ذکر فان الذکرٰی تنفع المومنین، ایک قول یہ کیا گیا : یہ آیت سیف کے ساتھ منسوخ ہے۔ پہلا قول ضحاک کا ہے کیونکہ آپ کو حکم دیا گیا کہ نصیحت کرنے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوں۔ مجاہد نے کہا : فتول عنھم ان سے درگزر کیجئے۔ فما انت بملوم آپ کا رب آپ پر کسی کوتاہی کی وجہ سے ملامت نہیں کرے گا جو آپ سے صادر ہوئی۔ وذکر نصیحت انہیں یاس دلائیے کیونکہ نصیحت مومنوں کو نفع دیتی ہے۔ قتادہ نے کہا ؛ قرآن ان کے سامنے پڑھیے کیونکہ قرآن پڑھنا مومنوں کو نفع دیتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : انہیں عذاب اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ یاد دلائیے۔ یہاں مومنوں کا خاص طور پر ذکر کیا کیونکہ مومن ہی اسی سے نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
Top