Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم ہو
فِیْ
: میں
رَيْبٍ
: شک
مِمَّا
: سے جو
نَزَّلْنَا
: ہم نے اتارا
عَلَىٰ عَبْدِنَا
: اپنے بندہ پر
فَأْتُوْا
: تولے آؤ
بِسُوْرَةٍ
: ایک سورة
مِنْ ۔ مِثْلِهِ
: سے ۔ اس جیسی
وَادْعُوْا
: اور بلالو
شُهَدَآءَكُمْ
: اپنے مدد گار
مِنْ دُوْنِ اللہِ
: اللہ کے سوا
اِنْ كُنْتُمْ
: اگر تم ہو
صَادِقِیْنَ
: سچے
اور اگر تم کو اس چیز میں جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے شک ہو تو تم بھی اس کی مانند کوئی سورة بنا لاؤ اور خدا کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں (مدد کے لیے) بلا لو۔ اگر تم سچے ہو
دیکھی جاتی ہے کہ کسی مرشد برحق یا غیر برحق کے خیالات پر اہل غرض اور بےاحتیاط مفسر کبھی کبھی اپنے خیالات کی قلعی چڑھا لیا کرتے ہیں الخ اگر سید صاحب زوائدِ اسلام کو خارج کرکے اسلام جو قرآن و حدیث میں ہے دکھلاتے اور پھر ثابت کرتے کہ علوم کی روشنی اور مخالفوں کے اعتراض سے محفوظ ہے تو ان کی یہ کوشش قابل تحسین و شکر تھی لیکن سید صاحب نے ملحدوں اور لامذہبوں اور حکمائِ مخالفین انبیاء کے اصول اور کلکتہ کے بنگالیوں کے خیالات جن کے دلوں میں سے بت پرستی کو انگریزی تعلیم نے نکالا اور ملحد انگریزوں کے اصولوں کو جمع کرکے قرآن و حدیث میں جمع کرنے کا پورا بندوبست کرلیا اور یہ بھی اس طرح پر کہ قرآن و حدیث کے صاف وصریح مطلب کو تحریف معنوی اور اجنبی تاویلوں سے دھکے دے کر وہاں سے نکالتے ہیں اور اپنے مرغوب خیالوں کو وہاں بٹھلاتے ہیں جو ہرگز نہ بیٹھ سکتے اور یہ کام اس مراد سے ہے کہ اسلام قدیم کے اصول مخالفین سے شکست کھاچکے ہیں لیکن جب وہ اس طرح الٹ پلٹ اس میں کریں گے تو پھر اس اسلام جدید پر یہ اعتراضات نہ ہوں گے کیونکہ سید صاحب کے گمان میں ملحدوں کے خیالات انبیائی خیالات سے مضبوط اور استوار ہیں۔ اس صورت میں سید صاحب کو ایک بڑی مشکل پیش آئی کہ تمام کتب مسلمہ اہل اسلام کو چھوڑنا پڑا اور بہت سی تاریخی باتوں کو بھی تبدیل کرکے اپنے دل سے نئی تاریخ تصنیف کرنی پڑی تاہم ایک سخت مشکل باقی رہ گئی کہ ان خیالات کی سندجن کو وہ دکھلاتے ہیں حضور انور ﷺ تک نہ پہنچی گویا کہ قرآن کو حضرت محمد ﷺ نے دیا اور معنی اس میں تیرہ سو برس بعد سید صاحب نے ڈالے اور سند ان معنوں کی نہ حضور انور ﷺ تک مگر اہل الحاد تک پہنچی۔ اس کے علاوہ اسلام جدید میں اسلام قدیم کے برخلاف نیا الہام اور نئی وحی اور نیا خدا اور نیا نبی تجویز کرنا پڑا اور اسی طرح دوزخ اور بہشت اور اصولی باتوں میں بہت ہی بڑی تبدیلی کرنی پڑی۔ باوجود اس کے یہ اسلام جدید زیادہ تر محل اعتراض ہے اپنی تصانیف میں جہاں تک سید صاحب نے علوم کی روشنی سے اسلام قدیم کی شکست دکھلائی ہے میرے گمان میں تو یہ اس کی کچھ بھی شکست نہیں کیونکہ حکمائِ مخالفین انبیاء کے چند خیالات ہیں۔ جن سے کوئی مذہب مدعی الہام و نبوت شکست نہیں کھا سکتا بلکہ وہ حکما ہی طالبانِ حق کی نظروں میں حقیر ہیں اور رہیں گے۔ مثلاً خدا کا محالات عادیہ پر قادر ہونا حکیم نہیں مانتے۔ اسلام اس کا قائل ہے اس مکروہ خیال سے اسلام کو شکست نہیں ہوئی بلکہ اس خیال مکروہ کو الخ انتہٰی مخلصاً ۔ پھر یہ پادری صاحب اپنے اس رسالہ کے 4 صفحہ میں یہ کہتے ہیں قولہ ” پہلے سید صاحب نے تبیین الکلام ایک کتاب لکھی تھی اور اس میں خدا کے کلام برحق کی تفسیر اکثر مقامات میں کچھ اپنے طور سے کرکے عیسائیوں اور محمدیوں کو قریب قریب ایک حکمت سے لایا چاہتے ہیں لیکن جو تفسیر خلاف حق ہو وہ کب مقبول ہوسکتی ہے اس لیے انہوں نے اپنے پہلے خیالات کو چھوڑ دیا اور اب وہ اسلام کی مرمت کے درپے ہیں مگر یہ بھی انہونی بات ہے کیونکہ نام تو مرمت کا لیا ہے مگر بنیاد اور ہی ڈالی ہے جس کو ہرگز اسلام نہیں کہہ سکتے۔ یہی سبب ہے کہ علمائے محمدیہ ان کے برخلاف ہیں۔ ہاں بعض محمدی کہ جو اہل یورپ کے خیالات سے بہرہ یاب ہیں وہ سید صاحب کے ساتھ موافق ہیں نہ اس لیے کہ سید صاحب ٹھیک اسلام کے موافق بول رہے ہیں بلکہ اس لیے کہ انگریزی خیالات سے ان کے خیالات کچھ اور ہی طرح کے ہوں گے اور محمدی اسلام انہیں اچھا نہیں معلوم ہوتا اور کسی مذہب میں اس کو چھوڑ کر کسی وجہ سے شامل ہونا بھی نہیں چاہتے۔ ان کو تو صرف قومی آرام و آسائشِ دنیا اور آبائی نام کے لیے اسلام کا نام ہی کافی ہے۔ جس عقلی راہ پر ان کو چاہو لے چلو وہ تیار ہیں کیونکہ وہ اپنی اس طبیعت کے مطیع ہیں جو انگریزی خیالوں سے ان میں پیدا ہوگئی ہے۔ وہ ان خیالات کے کچھ درپے نہیں کہ جو ان کے آباء کو محمد صاحب نے دیے تھے۔ انتہٰی ملخصاً ۔ 12 منہ ترکیب : ان کنتم فی ریب الخ شرط فاتوا بسورۃ من مثلہ جزا یعنی جواب ممانزلنا موضع جر میں صفت ہے ریب کی ای کائن ممانزلنا اور عائد محذوف ہے ای نزلناہ اور مابمعنی الذی ہے من مثلہ صفت ہے سورة کی ای بسورۃ کانہ من مثلہ اور ضمیر مثلہ کی یا انزلنا کی طرف رجوع کرتی ہے اور من تبعیضیہ ہے یا بیانہ ای بسورۃ مماثلۃ القرآن فی البلاغۃ یا ضمیر مثلہ کی عبد ناکی طرف رجوع کرتی ہے پس اس وقت میں من ابتدائیہ ہے اب یہ معنی ہوئے کہ کوئی صورت مثل محمد ﷺ کی سی بنوا کر لاؤ کہ جو امی ہو اور جس نے کبھی شعر و سخن کی مشاقی بھی نہ کی ہو وادعوا شہدائکم جملہ انشائیہ معطوف ہے فاتوا پر من دون اللّٰہ موضع حال میں ہے شہداء سے یعنی شہداء کم منفردین عن اللہ ان کنتم صادقین شرط اس کا جواب محذوف ہے اس پر کلام سابق دال ہے اعنی فاتوا وادعو، فان لم تفعلوا شرط اور فاتقوا النارالخ اس کا جواب اور لن تفعلوا جملہ معترضہ۔ اعدت للکافرین جملہ خبریہ موضع حال میں ہے النار سے اور عامل اس میں فاتقوا ہے۔ تفسیر : یعنی اگر تم کو ہمارے اس کلام میں کہ جس کو ہم نے اپنے بندے محمد ﷺ پر نازل کیا ہے (قرآن) کچھ شک ہو کہ آیا یہ خدا کی طرف سے ہے یا نہیں اور یہ نبی برحق ہے یا نہیں تو قطع نظر اور معجزات و آیات بینات کہ جن میں تمہارا عجز ظاہر ہے تم خاص اس کلام ہی کا مقابلہ کرکے دیکھو کہ جس کی تعمیل (معجزات سے) مقصود بالذات ہے کیونکہ ہر قسم کے کلام مرکب کرنے میں تم آنحضرت ﷺ سے کسی بات میں کم نہیں۔ تم بھی اہل زبان ہو اور تم بھی خاص اسی شہر اور اسی ملک اور اسی قوم کے لوگ ہو کہ جس کے نبی ﷺ ہیں بلکہ تم ان سے اس امر میں کہیں بڑھ کر ہو کیونکہ اول تو شعر و سخن کے مشاق ہو اور نبی ﷺ کو تم ابتدائے عمر سے عبادت و ریاضت اور گوشہ تنہائی میں ساکت و صامت دیکھتے ہو دوم ہر مجلس و میلہ اور ہر ایک قسم کے مجمع میں کہ جہاں اہل سخن جمع ہوا کرتے ہیں اپنے اشعار کو جلا دیتے اور اس کی مشاقی بہم پہنچاتے ہو اور حضرت ﷺ تو اس قسم کے مجامع میں مدت العمر میں ایک بار بھی تشریف نہیں لے گئے تھے۔ سوم تم کو مبالغہ اور زیادہ گوئی میں اور ہر قسم کی لفاظی میں کچھ بھی احتیاط نہیں اور یہ امور فصاحت و بلاغت کے سامان اور خوش بیانی کے مصالح ہیں۔ پس باوجود اس کے تم سے ایک سورة کے برابر بھی کلام مرکب نہیں کیا جاتا اور تم کو نہایت زور اور دعوے سے کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک نہیں بلکہ سب مل کر بنا لاؤ اور اپنے ان معبودوں سے بھی مدد لو کہ جن کو تم ہر قسم کی قدرت اور اختیار کا مبدء اور ہر طرح کا حاجت روا جان کو پوجتے ہو جب بھی تم سے ایک سورة کے برابر بھی کلام نہ بن سکا اور نہ کبھی بن سکے گا تو یقین کرلو کہ یہ اس کا کلام ہے کہ جو تمام لوگوں اور غیر اللہ سب معبودوں سے بڑھ کر ہے اور وہ خدائے تعالیٰ ہے کہ جو ہر بات میں سب سے نرالا ہے جب یہ ہے تو خدائے قادر کا مقابلہ اور اس کے کلام کو جھٹلانا جہنم میں (کہ جس کی آگ یہاں کی آگ سے سخت اور تیز ہے جس میں پتھر اور آدمی جلتے ہیں) ٹھکانا بنانا ہے۔ اب تم کو لازم ہے کہ اس آگ سے بچنے کا سامان کرو۔ یعنی اس کلام پر صدق دل سے ایمان لائو اور اس حیات بخش کلام کو اپنا دستور العمل بنائو۔ متعلقات : معجزہ : اس امر خارق عادت کو کہتے ہیں جو مدعی نبوت سے سرزد ہو خواہ وہ کلام ہو یا کوئی اور کام ہو اور چونکہ مخالف کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ویسے امر جمانے کی قدرت نہیں ہوتی بلکہ وہ عاجز ہوتا ہے اس لیے اس کو معجزہ کہتے ہیں اور اسی لیے یہ معجزہ اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ سے یہ سرزد ہوا ہے وہ مؤید من اللہ ہے یعنی اس عالم اسباب میں جس قدر امور واقع ہوتے ہیں وہ اسباب پر مبنی ہوتے ہیں اور ان اسباب کا سلسلہ جناب باری پر ختم ہوتا ہے۔ اس لیے ان امور کو ظاہر اسباب پر نظر کرکے اسباب کی طرف منسوب کردیتے ہیں اور جن کی چشم حق بیں نور الہام سے روشن ہے وہ ان اسباب سے قطع نظر کرکے اس مسبب الاسباب کی طرف اس فعل کو منسوب کردیتے ہیں۔ لیکن جب خدائے تعالیٰ کو اپنے ہادی کی عام لوگوں کے روبرو تصدیق منظور ہوتی ہے تو وہ خلاف عادات ان اسباب کو درمیان سے اٹھا کر بغیر ان کے کوئی کام اس نبی کی معرفت سرزد کرا دیتا ہے تاکہ اسباب کی طرف نظر نہ پڑے اور یہ فعل اسی کا معلوم ہو۔ مگر یہ کام خدا کا ہے جب چاہے کرتا ہے نبی گو چاہے اور وہ کسی مصلحت سے نہ چاہے تو نہیں کرتا۔ یورپ کے بہت سے حکماء کہ جن کو صرف ظاہربیں آنکھیں عطا ہوئی ہیں اس امر خارق عادت کا انکار کرتے ہیں اور ان کی تقلید سے فرقہ برہمو سماج بھی منکر ہے اور ان کی تقلید سے سید احمد خان صاحب و غیر ہم بھی اصول اسلام کے برخلاف اس کا انکار کرتے ہیں اور بلادلیل ناممکن اور محال بتلاتے ہیں اور لطف یہ کہ اب تک امکان اور وجوب اور محال کے معانی سے بھی بیخبر ہیں۔ یہ انکار اس لیے ہے کہ انہوں نے کبھی معجزہ یا خارق عادت بات دیکھی نہیں اور یہ طبائعِ عامہ کا جبلی خاصہ ہے کہ وہ جس چیز کو مدت العمر دیکھتے نہیں اس کے وجود بلکہ امکان میں بھی شک کرتے ہیں۔ چناچہ عرب کے ریگستان میں کہ جس نے مدت العمر کوئی ندی یا دریا نہ دیکھا تھا دریا کا مفہوم سن کر بڑا تعجب کیا اور پھر سمندر کا حال سن کر تو دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ دیا واللہ لایمکن ثم باللہ لایمکن۔ اہل اسلام 1 ؎ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن مجید معجزہ ہے اور اس کی مانند بنانا طاقت بشریہ سے خارج ہے۔ خواہ مضامین کی خوبی سے ہو یا اس کے ساتھ عبارت بھی حد اعجاز کو پہنچ گئی ہو یا کوئی اور سر ہو مگر جمہور اہل اسلام یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن اپنی فصاحت و بلاغت میں بھی بےمثل ہے اور اس کا مثل بنانا بشر سے محال ہے اور یہ بات خدا نے اس لیے قرآن میں رکھی کہ عرب کو اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس میں ان کو عاجز کرکے اس کا منجانب اللہ ہونا بتلا دیا۔ 2 ؎ 1 ؎ بعض نادان نافہم اپنی جہالت سے مسلمانوں کے مذہب پر اعتراض کرنے کا شوق رکھتے ہیں مگر ان کی بد نصیبی کہ مسلمانوں نے جو کچھ اسلام کے معارف کی بابت لکھا ہے ان کتابوں کو دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ اعتراض کرتے ہیں قرآن محمد صاحب کے زمانہ میں تو لکھا نہیں گیا۔ برسوں بعد خلیفہ عثمان نے جمع کیا لہٰذا کیا ثبوت ہے کہ اس میں تغیر و تبدل نہ ہوا ہو۔ جواب : صحیح تاریخ و روایات سے ثابت کردیا گیا ہے کہ تمام قرآن آنحضرت ﷺ کے عہد میں لکھا گیا تھا مگر اجزاء متفرق تھے۔ حفاظ موجود تھے آج کل کے حافظوں سے زیادہ۔ ممکن نہیں کہ ایک زبر و زیر کا بھی فرق ہوجائے۔ سیدنا عثمان ؓ نے سیدنا ابوبکر کے عہد کے قرآن سے چند نسخے لکھوا کر جا بجا تمام ملک شام مصر وغیرہ ممالک میں بھیجے تھے۔ زید بن ثابت وغیرہ بڑے بڑے حافظوں کی نگرانی تھی۔ اس پر یہ احتمال کرنا کہ کہیں کم زیادہ نہ ہوگیا ہو گویا اپنی کتابوں پر قیاس ہے جن کا نہ ابتدا میں کوئی حافظ تھا نہ آج کل ہے۔ اپنی کتابوں کو جو درختوں کے پتوں پر لکھے ہوئے تھے۔ ممکن ہے کہ کسی حادثہ عظیم سے پتے گم ہوگئے ہوں اور اصل کتاب میں کمی بیشی ہوگئی ہو مگر قرآن مجید حافظوں کے سینہ میں تھا آنحضرت ﷺ کے روبرو بہت حافظ تھے۔ اگر ایک حرف بھی نہ لکھواتے تو بھی وہ ویسا ہی محفوظ رہتا جیسا کہ حق ہے۔ یہ وصف خاص کتاب اور قرآن کو ہی حاصل ہے دنیا میں یہ بات کبھی کسی کتاب کو حاصل ہوئی نہ ہوگی۔ قرآن کے حافظ ہر ملک میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ سات برس کا بچہ اور سو برس کا بوڑھا از اول تا آخر بغیر کسی تکان کے مجلس میں سناتا ہے اور کوئی کتاب کہ جس کے معتقد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں کل تو کیا نصف حصہ بھی حفظ نہیں سنا سکتے ہیں۔ قرآن مجید کا اعجاز خاص ہے جس کا کوئی مخالف انکار نہیں کرسکتا۔ 12 حقانی 2 ؎ سید صاحب فرماتے ہیں قولہ صفحہ 33 مگر یہ بات کہ اس کی مثل کوئی نہیں کہہ سکتا اس کے من اللہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی، کسی کلام کی نظیر نہ ہونا اس بات کی تو بلاشبہ دلیل ہے کہ اس کی مانند دوسرا کلام موجود نہیں ہے مگر اس کی دلیل نہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے بہت سے کلام انسانوں کے دنیا میں ایسے ہیں کہ ان کی مثل فصاحت و بلاغت میں دوسرا کلام نہیں ہوا مگر وہ من اللہ تسلیم نہیں ہوتے۔ الخ اول تو انسان کا کون سا ایسا کلام ہے جس کا مثل فصاحت و بلاغت میں آج تک باوجود تحدی کے دوسرا کلام نہیں ہوسکا۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ کسی نے کوئی عمدہ کتاب تصنیف کی مگر اس وقت کے تمام فصیحوں بلیغوں کو عار دلا کر اس کے مثل بنانے کا اشتہار نہ دیا۔ اتفاقاً مدت تک کسی نے اس بارے میں قلم نہ اٹھایا۔ بلاشک اس وجہ سے یہ کتاب من اللہ تسلیم نہیں ہوتی اور جب کہ بڑے زور سے دعویٰ کیا ہو اور سب کو اس میں شریک ہونے کی اجازت دی ہو اور اپنے کلام کے ایک ٹکڑے کے برابر بنانے کی درخواست کی ہو اور لوگوں نے اس امر میں حوصلہ بھی کیا ہو اور پھر اپنے اپنے مسودات اور کلمات کو معیوب سمجھ کر پیش نہ کرسکے ہوں بلکہ خود انہی کے لوگوں نے اس پر قہقہہ اڑایا ہو یہ من اللہ ہونے کی صریح دلیل ہے۔ دوم اگر ہادی ہونے میں تحدی تھی تو یہ کلام یعنی قرآن سے متعلق تھی پھر اس کا مثل نہ بنانا وہی بات ہے کہ سر کے پیچھے سے ہاتھ پھرا کر ناک بتانی فضول امر ہے۔ 12 منہ نکات : سورة : شروع قرآن مجید کے اس حصہ کو کہتے ہیں کہ جس میں کم از کم تین آیتیں ہوں اور اس حصہ کا کوئی نام معین بھی ہو جیسا کہ فاتحہ۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں کہ اس کا واؤ اصلی ہے اس بناء پر یہ سورة البلد (شہر پناہ) سے ماخوذ ہے۔ اس مناسبت سے کہ سورة البلد جس طرح شہر کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے اسی طرح سورة بھی چند آیات یا ہر قسم کے مضامین کو گھیرے ہوئے ہے یا سورة بمعنی رتبہ سے ماخوذ ہے کیونکہ ہر ایک سورة کو اس خاص خوبی میں ایک فوقیت اور مرتبہ ہے یا ان کے باہم شرف اور طول و قصر میں مراتب جداگانہ ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ واؤ اصلی نہیں بلکہ ہمزہ تھی اس کو واؤ بنالیا ہے اور باہم مبادلہ ہوگیا ہے اس تقدیر پر اس کی اصل سورة ہے جس کی معنی کسی چیز کا بقیہ اور ٹکڑا ہے۔ یعنی یہ قرآن کا ایک ٹکڑا ہے اس لیے اس کو سورة کہنے لگے یہاں تک وجہ تسمیہ کا بیان تھا۔ قرآن مجید کا سورتوں پر منقسم ہونا اس حکمت کے لیے ہے کہ ایک مضمون دوسرے مضمون سے جدا ہوجائے اور ایک قسم کی نظم جو باہم مناسبت رکھتی ہے دوسری قسم سے علیحدہ شمار کی جاوے اور پڑھنے والے کو سہولت اور فرحت اور حفظ کرنے میں سہولت اور فراغت حاصل ہو کیونکہ جب وہ ایک سورة کو تمام کرے گا تو دل میں فرحت پیدا ہوگی جس طرح مسافر جب ایک منزل طے کرلیتا ہے تو دل میں خوش ہوتا ہے کہ اس مسافت کا اس قدر حصہ میں نے طے کرلیا اسی مقصد کے لیے مصنفین اپنی کتابوں میں فصل اور باب مقرر کرتے ہیں ورنہ ایک کلام مسلسل سے دل گھبراتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ سورتوں کے آنحضرت (علیہ السلام) کے عہد میں نام مقرر ہوچکے تھے۔ شہدا : شہید کی جمع ہے جس کے معنی حاضر اور گواہی دینے والا اور مدد کرنے والا اور حاکم کے ہیں۔ اس کا سر یہ ہے کہ لفظ شہید یعنی اس ترکیب میں حاضر ہونے کے معنی ملحوظ ہیں خواہ یہ حضور بالذات ہو یا بالتصور۔ پس مدد کرنے والے اور حاکم اور حاضر میں تو بالذات حضور پایا جاتا ہے۔ کس لیے کہ حاضر تو موقع پر حاضر ہوتا ہے مگر مدد کرنے والا بھی موقع پر حاضر ہوتا ہے اور حاکم کے حضور (روبرو) مقدمات فیصلہ ہوتے ہیں اور گواہی دینے والے میں حضور کے معنی بالتصور پائے جاتے ہیں یعنی جب وہ گواہی دیتا ہے تو اپنے خیالات میں اس بات کو حاضر کرتا ہے اور جو شخص خدا کی راہ میں مارا جاوے اس کو بھی اس لیے شہید کہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے پاس حاضر ہوگیا اور اس کا بدلہ ثواب آخرت اور اس کے مصاحب ملائکہ اس کے پاس حاضر ہوجاتے ہیں۔ اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک۔ اس مقام پر یہ چاروں معانی مراد ہوسکتے ہیں یعنی قرآن کے سورة کے مثل بنانے میں جو لوگ اس وقت بڑے فصیح وبلیغ، حاضر اور موجود ہیں ان کو بلاؤ اور ان سے مدد لو اور جو تمہارے کلام پر سورة کے مثل ہونے کی گواہی دیں ان کو بھی بلاؤ اور جو لوگ تمہارے زعم میں تمہارے مددگار اور حاجت روا ہیں اور ان کے نام کی تم دہائی دیتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو، ان سے بھی مدد لے دیکھو۔ الغرض سب زور لگا لو اور پھر حاکموں کے پاس اس منازعت کے فیصلہ کے لیے بھی چلو دیکھو وہ کیا کہتے ہیں ؟ دون اللّٰہ : دون کے معنی پاس اور قریب جگہ کے ہیں اور اسی لیے کتابوں کے تصنیف کرنے کو تدوین کہتے ہیں کہ ایک مضمون کو دوسرے مضمون کے ساتھ متصل اور پاس کیا جاتا ہے۔ پھر بطور مجاز کے رتبہ میں بھی اس لفظ کا استعمال ہونے لگا۔ کہتے ہیں کہ زید دون عمرو یعنی زید عمرو سے کم رتبہ ہے اور اسی لیے حقیر چیز کو دون یا دنی کہتے ہیں اور اسی لیے اس عالم کو کہ حقیر و ذلیل ہے دنیا کہتے ہیں (مونث کا صیغہ) یا اس لیے کہ یہ قریب اور پاس اور وہ عالم بعید ہے۔ پھر اس میں بھی وسعت دی گئی ہے اور اس کلمہ کا ایک چیز کو چھوڑ کر دوسرے کے اختیار کرنے پر اطلاق ہوا اور لفظ غیر کے قریب المعنی ہوگیا۔ اس مقام پر اس کے معنی غیر کے ہیں یعنی خدا کے غیر اور اس کے سوا جس قدر تمہارے مددگار ہیں سب سے مدد لو۔ ممانزلنا : نزول اوپر سے نیچے کسی چیز کا اترنا اس جگہ قرآن مجید مراد ہے کہ بواسطہ جبرئیل 1 ؎ (علیہ السلام) عالم بالا سے حضرت نبی ﷺ پر اترا۔ نکات : (1) نزلنا فرمایا انزلنا نہ کہا اس لیے کہ تنزیل کے معنی ٹکڑے ٹکڑے کرکے نازل کرنا اور انزال کے معنی ایک بار نازل کرنا ہے گو قرآن مجید لوح محفوظ سے بیت المعمور تک ایک بار نازل ہوا مگر وہاں سے دنیا میں آنحضرت ﷺ کے پاس حسب حاجت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر نازل ہوتا تھا اور اس بات سے بیوقوفوں کو شک پیدا ہوتا تھا کہ یہ تو شاعروں اور دیگر مصنفین کی طرح تھوڑا تھوڑا تصنیف کرکے سناتا ہے اگر منجانب اللہ ہوتا تو تمام قرآن کو ایک بار ہی دکھلاتا بلکہ کاغذوں میں لکھا ہوا اور جلد بندھا ہوا لا کر سامنے دھر دیتا کہ دیکھو مجھ پر یہ کتاب خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہے، قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اُنْزْلَ عَلیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَّاحِدَۃً ۔ چونکہ وہ جاہل اس پارہ پارہ نازل ہونے کے سر سے واقف نہ تھے اور نہ یہ جانتے تھے کہ کسی نبی پر آج تک بنی بنائی کتاب نازل نہیں ہوئی ہے اس لیے خدا تعالیٰ نے اس امر سے درگزر فرما کر اسی تقدیر پر قائل کیا کہ اچھا یوں ہی سہی تم بھی پوری کتاب نہیں بلکہ اس کے ایک ہی ٹکڑے کے برابر تو بنا لاؤ اس لیے لفظ نزلنا فرمایا انزلنا نہ کہا۔ (2) اس تحدی (معارضہ) کو خدا تعالیٰ نے ایک نکتہ کے لیے کئی سورتوں میں مختلف طور سے بیان کیا، اس سورة میں اور سورة یونس میں تو اس طرح فرمایا اور سورة ہود میں یوں فرمایا فاتوا بعشر سورمثلہ مفتریات وادعوا من استطعتم من دون اللّٰہ ان کنتم صادقین۔ ” کہ اس کے دسویں حصہ ہی کے مانند بنا لاؤ اور خدا کے سوا جس سے چاہو مدد لو “ اور سورة اسریٰ میں یوں فرمایا قل لئن اجتمعت الانس والجن علٰی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لایاتون بمثلہ ولوکان بعضہم لبعض ظہیرا۔ ” اگر تمام جن و انس اس قرآن کی مثل 1 ؎ تفسیر القرآن کے مؤلف نے اس مقام پر صفحہ 26 سے لے کر 31 تک اپنے خیالات فاسدہ کو بہت کچھ طول دیا ہے اور چند ابحاث لکھی ہیں : (1) ممانزلنا پر جس کا خلاصہ امام رازی پر نزول وحی کے بارے میں اعتراض اور تمام علمائے اسلام پر طعن کے بعد یہ ہے کہ خدا اور پیغمبر میں جبرئیل وغیرہ کوئی واسطہ نہیں صرف اسی کے خیالات جس طرح کہ مجنونوں کو مجسم نظر آیا کرتے ہیں اور کوئی باتیں کرتا معلوم ہوتا ہے آوازیں سنائی دیتی ہیں، اسی طرح اس نبی کو نظر آتے باتیں کرتے ہیں اسی کے دل سے خیالات اٹھ کر دل پر فوارہ کی طرح اچھلتے ہیں اور یہی نزول وحی ہے۔ (2) بحث نبوت کی بابت ہے کہ نبوت خدا کی طرف سے ایک ایسا عہدہ سمجھنا کہ وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے (جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَیْثُ یَجْعَلُ رْسَالَتِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ) اہل اسلام کا غلط عقیدہ ہے، بلکہ نبوت ایک فطری ملکہ ہے کہ جس طرح انسان کے اندر اور صدہا فطری ملکات ہیں یہ بھی ایک ملکہ ہے کہ جو جسم کے قوی و ضعیف ہونے سے قوی و ضعیف ہوتا ہے پس جس میں اخلاق انسانی کی تعلیم و تربیت کا ملکہ بمقتضائے اس کی فطرت کے خدا سے عنایت ہوتا ہے وہ پیغمبر کہلاتا ہے (پھر یہ پیغمبر کسی شخص اور کسی زمانہ میں منحصر نہیں بلکہ ہر ملک اور ہر زمانے میں ایسے لوگ کہ جو رفارمر کہلاتے ہیں نبی ہیں، چناچہ ہندوستان میں دیانند سرسوتی اور بنگالہ میں بابو کسیب چندرسین اور انگلستان میں فلاں فلاں صاحب اب بھی نبی ہیں) (تہذیب الاخلاق مطبوعہ 1293 ھ) (3) لفظ اعدت سے دوزخ اور جنت کا بالفعل موجود ہونا خیال کرنا جیسا کہ جمہور اہل سنت والجماعت عقیدہ رکھتے ہیں غلط ہے کیونکہ قطعی الوقوع چیز کو قرآن بلفظ ماضی تعبیر کرتا ہے۔ (4) بحث دوزخ و جنت کی بابت ہے کہ جنت کی حقیقت کا بیان کرنا خدا کو بھی محال ہے۔ جنت و دوزخ صرف راحت و تکلیف کا نام ہے۔ موسیٰ نے اس کی تفسیر کثرت اولاد اور پیدائشِ مال کے ساتھ کی ہے اور دوزخ ان چیزوں کے نقصان اور ہیضہ وغیرہ مصائب کو بتلایا ہے۔ محمد ﷺ نے قرآن میں لوگوں کو رغبت اور خوف دلانے کی مصلحت سے اس کی تفسیر حور و قصور ‘ باغ اور نہریں اور شعلہ آتش اور زقوم و حمیم کے ساتھ کردی اور دراصل یہ چیزیں جنت و دوزخ میں نہیں اگر یہی جنت ہے تو اس سے ہماری خرابات بہتر ہے۔ الخ قول یہ ان کے اقوال کا خلاصہ مطلب ہے اب ناظرین دیکھ لیں کہ یہ باتیں بلادلیل جو خان صاحب نے بیان کی ہیں، محض فرقہ برہمو سماج کی تقلید ہے یا نہیں ؟ اور ان خیالات کو نہ تنہا اسلام بلکہ آسمانی مذاہب سے کس قدر مبائنت ہے اور اس وقت جو الحاد یورپ کے دریائے ناپیدا کنار کی موجیں ہندوستان کو دوبالا کر رہی ہیں (جس سے ہزاروں کوڑ مغز کہ جن کو نہ علوم اسلامیہ سے بہرہ نہ فنون عقلیہ سے حصہ نہ دینی برکتوں سے نصیبہ بلکہ پکے دنیا دار جاہ و مال کے بندے نفسانیت سے بھرے ہوئے کسی قدر ثروت دنیا حاصل کرکے بانی مذہب جدید ہوگئے اور سینکڑوں بندگان خدا کو گمراہ کردیا اور حیات ابدی سے محروم بنا دیا) ان سے کس قدر مناسبت ہے ان خیالات کا بطلان مقدمہ کتاب میں ہوچکا ہے۔ فمن شاء فلیرجع الیھا۔ بنانے پر متفق ہوجائیں اور ایک دوسرے کی مدد بھی کریں تب بھی اس کے مانند نہ بنا سکیں گے “ اور سورة قصص میں یوں فرمایا : قل فاتوا بکتاب من عنداللہ ھو اھدی منہما اتبعہ ان کنتم صادقین ” کہ ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو خدا کے ہاں سے کوئی اور کتاب لا کر دکھاؤ کہ جو قرآن و توریت سے زیادہ ہادی ہو۔ میں بھی اس کو مانوں گا “۔ پس ان سب آیات کو ملا کر یہ نکتہ پیدا ہوا کہ خواہ تم ایک سورة کی برابر خواہ دس کی خواہ تمام قرآن کی برابر بنا کر دکھاؤ یہ سخت معارضہ ہے گویا یوں فرمایا کہ اس کی برابر بناؤ یا اس کے نصف کے برابر یا اس کے ربع کے برابر، بناؤ تو سہی۔ (3) وقود ھا الناس و الحجارۃ فرمایا کہ آتش جہنم میں آدمی اور پتھر جلتے ہیں۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو لوگ غیر اللہ کو پوجتے ہیں اور ان کو حاجت روا سمجھتے اور ان کے نام کی دہائی دیتے اور نذر و نیاز دیتے ہیں وہ عابد اور معبود دونوں خدائے جبار کے قہر میں مبتلا ہیں خدا کا قہر آگ کی صورت میں متمثل ہو کر ان کو جلا دے گا اور جہنم کا ایندھن بنا دے گا اور عرب کے لوگ اکثر پتھر کے بت بنا کر پوجتے تھے اس لیے حجارۃ کہا۔ الغرض اس لطف کے ساتھ ان کی بت پرستی کی سزا اور بتوں کی وقعت اور اقتدار کا اندازہ ظاہر کردیا۔ اس تھوڑے سے کلام میں خدا تعالیٰ نے ان چند مقاصد ضروریہ کو کس خوبی کے ساتھ ادا کردیا کہ جس کا کچھ بیان نہیں۔ (1) جس امر میں مخالفوں کو بڑا دعویٰ تھا اسی میں ان کو عاجز بنا کر قرآن کا منجانب اللہ ہونا ثابت کردیا۔ (2) اس کے ضمن میں اس معجزہ قرآنیہ سے نبی ﷺ کی نبوت کو مخالفوں کے روبرو متیقن اور ثابت کردیا، حتیٰ کہ پھر جو کوئی انکار کرتا تو عناد سے کرتا تھا۔ لِاَنَّھُمْ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئِہِمْ ۔ (3) وادعوا شہدائکم سے خدا کے سوا جس قدر معبود لوگوں نے بنا رکھے ہیں اور ان سے مرادیں مانگتے اور ان کو حاجت روا یا قادر مطلق یا قادر مطلق کا مختار عام یا داروغہ بااختیار جانتے ہیں (جیسا کہ ہنود کالی، بھوانی، بھیروں، ہنومان، کرشن، بشن، مہادیو، راجہ رام چندر، کواکب و عناصر و ارواح وغیرہا اشیاء کو اب تک ایسا جانتے اور ان کے نام کے پتھر، تانبے، پیتل کے بت بنا کر پوجتے ہیں، جس کو یقین نہ آئے تو بنارس 1 ؎ جا کر دیکھ لے) ان کا عاجز ہونا ثابت کردیا گویا یہ توحید کے لیے ایک برہان قاطع اور ابطال شرک کے لیے دلیل ساطع 2 ؎ ہے۔ (4) ولن تفعلوا سے قیامت تک پیشین گوئی کرکے آنحضرت (علیہ السلام) کو کامل اطمینان دلا دیا۔ جس سے آنحضرت (علیہ السلام) نے اس دعوے کو نہایت اطمینان سے لوگوں کو سنا کر اپنی نبوت کو ثابت کردیا۔ (5) فاتقوا النار سے عالم آخرت اور وہاں کے احوال عذاب وثواب اور بت پرستی اور کفر کی سزا جہنم ابدی کو بیان اور نتیجہ اعمال کو عیاں کردیا۔ (6) التی وقودھا الناس والحجارۃ سے یہ ظاہر کردیا کہ وہ آگ یہاں کی آگ سے بہت تیز ہے یہاں کی آگ لکڑیوں سے جلتی ہے وہ آگ ارواح کفار اور سخت پتھروں سے سلگتی ہے اور یہ کہ وہ معبود کہ جن کو لوگ پوجتے ہیں محض بےحقیقت ہیں اور کا تو کیا بھلا کریں گے اپنے ہی تئیں مؤاخذہ سے بری نہ کرسکیں گے۔ جب مکہ میں حضرت (علیہ السلام) نے انوار توحید کو پھیلایا اور آفتاب نبوت بلند ہوا تو بتوں میں 1 ؎ بنارس جانے کی کیا ضرورت ہے ہر گائوں اور ہر شہر میں یہی صورت ہے۔ 2 ؎ ادعواشہداء اکم فرمانے میں ایک اور نکتہ بھی ہے کہ ایام جاہلیت میں بعض کاہنوں سے جن مقفٰی مسجع کلام کیا کرتے تھے اور اس کلام کو وہ جاہل بہت ہی بڑا فصیح وبلیغ سمجھ کر مجامع میں پڑھتے تھے اس آیت میں اس پر بھی تعریض فرما دی کہ یہ کسی جن کا کلام نہیں اور نہ حضرت (علیہ السلام) کاہن ہیں اگر تمہارا یہ خیال ہے تو تم خود بھی زور لگا کر دیکھو اور اپنے بھوت دیوتائوں سے بھی مدد لے دیکھو کہ تم اور وہ سب جمع ہو کر اس کے ایک ٹکڑے کے برابر بھی بنا سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔ 12 منہ سے آوازیں آیا کرتی تھیں کہ اب ہماری پرستش کا زمانہ ختم ہوگیا، چناچہ اسلام لانے سے تھوڑے دنوں پہلے حضرت عمر ؓ جب ایک بت کے آگے قربانی لے کر گئے تو اس کے اندر سے نوحہ کی آواز آئی اور چند اشعار نبی ﷺ کی شوکت کی بابت سنائی دیے اور اسی آواز غیبی نے پھر کلمات الوداع پڑھ کر حسرت و افسوس ظاہر کیا۔ اس قصہ کو بیہقی نے دلائل النبوت میں روایت کیا ہے۔ (7) اعدت للکافرین سے یہ بات ثابت کردی کہ جنت و دوزخ بلکہ جو کچھ عالم ظہور میں آنے والا ہے وہ سب کچھ عالم مثال میں قائم ہوچکا ہے۔ یہ مسلم کہ قرآن مجید میں آیندہ ہونے والی چیزوں کو کہ جو قطعاً واقع ہوں گی، ماضی کے صیغہ سے تعبیر کیا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جس چیز کو اس لفظ سے بیان کیا ہو وہ ہنوز واقع نہیں ہوئی، آیندہ ہوگی پس ان دونوں چیزوں میں مساوات سمجھ کر یہ کہہ دینا کہ دوزخ و جنت ہنوز پیدا نہیں ہوئی بڑی غلطی ہے، اس لیے جمہور اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دوزخ و جنت اب بھی موجود ہے نہ یہ کہ قیامت کو موجود ہوں گی۔ جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں کس لیے کہ اگر یہ ہو تو جس قدر عہد آدم (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک لوگ نیک اور متقی مرے ہیں وہ جنت اور وہاں کے نعماء سے محروم رہیں اور برے لوگ جہنم سے بچے رہیں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنے عرصہ دراز تک کیوں اعمال کی جزا و سزا نہیں ملتی ہے۔ علاوہ اس کے قرآن و حدیث اس پر گواہ صادق ہیں، خود حضرت آدم (علیہ السلام) جنت میں رہے تھے۔ نبی ﷺ نے شب معراج میں جنت و دوزخ کی سیر کی اور ایک بار نماز پڑھتے میں دوزخ و جنت کو دیکھا اور یوں بعض شخصوں کو دوزخ و جنت دیکھ کر خبر دی اور ان باتوں کو ایک صحابی نے نہیں بلکہ بہت سے صحابہ نے روایت کیا ہے اور کتب احادیث صحاح ستہ وغیرہا میں بہت سے طرق سے یہ روایات مروی ہیں۔ تحقیق : اس مسئلہ دار آخرت کی یہ ہے کہ قدیم سے علمائے بنی آدم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان صرف اس پیکر جسمانی کا نام نہیں، نہ حس و ادراک اس کا کام ہے، مثلاً کان نہیں سنتے بلکہ اس دریچہ سے کوئی اور سنتا ہے۔ آنکھ نہیں دیکھتی اس کھڑکی سے کوئی اور دیکھتا ہے اگر شنوائی یا بینائی کی قوتیں ہاتھ یا پائوں یا پشت میں رکھی جاتیں تو وہ اصلی انسان جس کو روح یا نفس ناطقہ یا آتما کہتے ہیں وہیں سنتا دیکھتا ہے۔ اسی پر اور قوتوں تکلم وغیرہ کو قیاس کرلیجئے اور اصلی انسان کا یہ پیکر جسمانی اس عالم عنصری میں ایک آلہ ہے جب وہ اس پیکر جسمانی کو چھوڑ دیتا ہے جس کو موت عرف عام میں کہتے ہیں تب وہ سننے میں اس کان کا، دیکھنے میں اس آنکھ کا، بات کرنے میں اس زبان کا محتاج نہیں۔ رنج و راحت بھی جو کچھ ہے اس اصلی انسان کو ہے۔ جسمانی امراض سے جو الم ایک تعلق خاص کی وجہ سے پہنچتا ہے اسی کو ادراکی قوت کے سبب سے پہنچتا ہے اگر کسی دوا سے جیسا کہ کلورا فارم سے اس ادراک کو معطل کردیا جائے تو کوئی الم و درد نہیں ہوتا خواہ جسم کو پارہ پارہ کر دیجئے، یا اس تعلق کو قطع کر دیجئے۔ ہاتھ پائوں کو کاٹ ڈالئے گو قطع تعلق کے وقت درد ہوگا مگر اس کے بعد آنکھوں کے سامنے اس ہاتھ پائوں بریدہ کو کا ٹئے جلایئے اصل انسان کو کچھ بھی درد و الم نہیں ہوتا۔ دیکھئے خواب میں انسان چلتا ہے مگر نہ ان پائوں سے ‘ دیکھتا ہے مگر نہ ان آنکھوں سے ‘ سنتا ہے مگر نہ ان کانوں سے ‘ کھاتا پیتا ہے لذت و الم اٹھاتا ہے نہ اس جسم سے وہاں اس کے لیے اور ہی ہاتھ پائوں اور اور ہی ناک کان آنکھ ہے اور اور ہی زبان ہے۔ اس تمثیل پر فلاسفی کا ایک شبہ ہے کہ یہ جو خواب میں ہوتا ہے صرف عالم بیداری کے تخیلات ہیں باقی کچھ نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ضرور خواب میں عالم بیداری کے خیالات بھی ہوتے ہیں اس سے انکار نہیں مگر اس پر حصر کردینا ایک بڑی نادانی ہے۔ کس لیے کہ بارہا خواب میں آیندہ آنے والے واقعات ہو بہو دکھائی دیتے ہیں جو اب تک پیش نہیں آئے تھے۔ ان پر تخیلات بیداری کا اطلاق بیجا ہے۔ تخیلات گزشتہ واقعات ہوسکتے ہیں کہ جن کی تصویر خزانہ خیال میں گزر جانے کے بعد باقی رہتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم ایک شہر میں گئے ہیں کہ جس کو کبھی دیکھا نہ سنا اور وہاں کے بازار اور مکان دیکھے ‘ وہاں کے آدمیوں سے ملے اور ان سے فلاں فلاں معاملات پیش آئے۔ پھر بیداری میں تھوڑے دنوں بعد یا ایک عرصے کے بعد بعینہٖ وہی شہر اور وہی بازار اور وہی آدمی اور وہی معاملات اس عالم میں دیکھے گئے۔ اب اس قسم کے رؤیا میں جو کچھ دیکھا جو کچھ سنا جو کچھ رنج و راحت اٹھایا جو کچھ کھایا پیا عورتوں سے صحبت ہوئی، جس کو بیداری میں ہوبہو پایا کیا اس جسم اور اس پیکر جسمانی سے تھی، ہرگز نہیں۔ یہ تو محل استراحت میں پڑا تھا، گو بیداری میں جب وہ چیزیں پیش آئیں، یہ جسمانی پتلا بھی ساتھ ساتھ ہو لیا اور پھر رنج و راحت کا یہی آلہ بن گیا۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس اصلی انسان اور پیکر انسانی میں باہم کیا تعلق ہے اور کیوں منقطع ہوجاتا ہے اور اس انقطاع کو موت کہا جاتا ہے اور دراصل وہ اصلی انسان کیا ہے اور بعد انقطاع تعلق اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ ان تینوں سوالوں کا جواب ایک سِرِّ روحانی ہے جہاں اس فلسفہ اور حکمت کا گزر بھی نہیں کیونکہ یہ فلسفہ جہاں تک اس کی وسعت تسلیم کی جائے عالم محسوس سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا یعنی اس کی تحقیقات کا دائرہ انہی چیزوں تک محدود تھا جو محسوس ہیں مثلاً جو اس آنکھ سے دکھائی دے سکتی ہیں۔ عناصر، زمین ستارے، حجر و شجر ‘ بردبرمع دنیات وغیرہ۔ فلسفہ نے ان چیزوں میں موشگافی کی ہے انہی کے متعلق حیرت انگیز کام کئے ہیں جیسا کہ قوت برقی کا استعمال، ابخراتِ مائی سے انجنوں کے ذریعہ سے حیرت انگیز کام لینا۔ اسٹیمر، ریل گاڑی وغیرہ یا معدنیات کے آثار مخفیہ کا انکشاف یا نباتات کے آثار غریبہ کا انکشاف یا دوربینوں خوردبینوں سے کرئہ ہوا کی عجائب مخلوقات کا انکشاف وغیرہ وغیرہ۔ جس نے عامہ عقول کو حیرت میں ڈال دیا اور ان فنون کے ماہر و موجد نے خود پسندی سے علم کا انحصار ان ہی پر کردیا۔ جس طرح ایک لائق معمار کو باورچی کے کام سے بیخبری ہے یا ایک لائق پلیڈر ‘ قانون داں کو لوہار کے کام سے ناآشنائی ہے۔ اسی طرح اس فلسفہ کو مسائلِ روحانیہ سے بیخبر ی ہے۔ مگر یہ ناچیز بندہ اس علم روحانی سے جو اس کو اس فن کے استادوں سے حاصل ہوا ہے مختصراً جواب دیتا ہے۔ تفصیل کا یہ مقام نہیں۔ (1) پیکر جسمانی دراصل انسان کے تعلق کا ایک بہت بڑا باریک مسئلہ ہے جس کی تصریح کے لیے نہ مجھے کوئی مثال ملتی ہے نہ اس کی تعبیر کے لیے میرے پاس الفاظ ہیں۔ اس مشکل پر جو کچھ بیان کیا جاوے وہ کافی سمجھا جاوے۔ پیکر انسانی میں اغذیہ کے باقاعدہ تصرف میں لانے سے جو خون پیدا ہوتا ہے اور اس سے لطیف ابخرات پیدا ہو کر عروق وغیرہ کے ذریعہ سے تمام جسم میں علیٰ قدر ضرورت پہنچتے ہیں اس کو عربی زبان میں نسمہ کہا جاتا ہے اور اسی کو روح طبی بھی کہتے ہیں یہ نسمہ اس اصلی انسان یعنی نفس ناطقہ کا مرکب ہے ان دونوں میں وہی تعلق ہے جو پھول اور اس کی خوشبو میں، یا جو دہکتے کوئلوں اور آگ میں۔ نفس ناطقہ اس نسمہ میں تدبیر اور تصرف کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے تمام بدن کا انصرام ہوتا ہے جس طرح نفس ناطقہ کا مرکب نسمہ ہے اسی طرح نسمہ کا مرکب خون ہے۔ اب ان اسباب تعلق میں سے جو کوئی سبب اپنی حالت پر باقی نہ رہے گا وہ تعلق منقطع ہوجائے گا۔ جس طرح تیل نہ ہونے سے بتی کی لو جاتی رہے گی اور لو کے جانے سے وہ روشنی چلی جائے گی جس نے تمام مکان کو روشن کر رکھا تھا۔ اب تیل اور اس روشنی میں دیکھئے کیا نسبت ہے۔ الغرض اس تعلق کا انقطاع یا اس جسم کو کلاً یا جزء ًاسے فنا کردینے سے مرجاتا ہے اسی طرح دم گھونٹ دینے یا گردن مار دینے سے ‘ سمی دوا کھلا دینے سے ‘ امراض شدیدہ سے ‘ یعنی ان چیزوں سے جو اس انتظام کو درہم و برہم کرنے والی ہوں۔ یہ تو عارضی انقطاع تعلق تھا اور طبعی بھی ہوتا ہے کہ اس کے جسم کے قویٰ یعنی چراغ اور اس کا تیل انحلال پذیر ہوجانے سے اس کو موت طبعی کہتے ہیں پھر اس خول سے وہ اصلی انسان اس طرح باہر ہوجاتا ہے جس طرح چھلکے سے پھل اس چھلکے اور اس کے اندر کے پھل میں جس طرح ایک قسم کی صورت میں مناسبت ہوتی ہے اسی طرح اس پیکر اور اصلی انسان میں مگر کہاں یہ صورت کہاں وہ شکل اور یہ استحالہ اور انقلاب اس پیکر پر کوئی نئی بات نہیں۔ غذائوں، اناج، گوشت وغیرہ نے معدہ میں جا کر کئی الٹی پلٹیوں کے بعد منی کی صورت اختیار کی تھی پھر اس منی نے عورت کے رحم میں جا کر کیا کیا بہروپ بدلے، خون ہوئی پھر گوشت کا لوتھڑا ہوگئی، پھر اس میں ہاتھ پائوں اعضائے جسمانی نمودار ہوگئے۔ پھر ایک زمانہ تک وہاں قدرے پختہ ہو کر انسانی پیکر بن کر رحم سے باہر آئی پھر یہ پیکر بھی دن بدن کیا روپ بدلتا رہا آخر کار انحطاط شروع ہوا اور ہوتے ہوتے اس میں سے انسان نکل جانے کے بعد گل سڑ گیا، مٹی میں مٹی مل گئی اور پھر وہی مٹی بن گئی جو ترکاری وغیرہ بن کر معدہ میں جا کر کیا کیا بنی تھی۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ کہاں چلے گئے اس پیکر یا اس خول میں سے جو انسان برآمد ہوتا ہے اس کے حالات بیان فرمایئے۔ یہ بات کہ اس پیکر سے انسان برآمد ہوتا ہے اس پر کوئی برہان ہندسی یا دلیل ریاضی و طبعی قائم نہیں ہوسکتی اور ہوسکتی ہو مگر مجھے معلوم نہیں۔ یہ ایک سِرِّ روحانی ہے جس کو فن روحانیت میں کچھ بھی دخل ہے وہ اس کو دیکھ سکتا ہے بلکہ روز دیکھتا ہے۔ مگر اطمینان منکر کے لیے اتنی بات کہے بغیر نہیں رک سکتا کہ جس قدر دنیا میں متمدن قومیں اور بزرگ گزرے ہیں ہزاروں سینکڑوں برسوں سے اس کے قائل ہیں۔ ہندو، پارسی، یہودی، بودھ، مسلمان، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت محمد ﷺ اور وہ اپنی قوموں سے یہی بات فرما بھی گئے ہیں۔ حکمائِ یونان بھی اس کے قائل ہیں۔ حال کے حکمائے یورپ میں بھی اب اس طرف توجہ ہو رہی ہے اور بڑے بڑے سائنس ڈاکٹر اس کے قائل ہوتے جاتے ہیں اور سالانہ جلسوں میں جو اسی بابت منعقد ہوا کرتے ہیں ہر ایک نے اپنے اپنے انکشاف کا حال مختلف تقریروں میں بیان کیا ہے (ملاحظہ ہو حدیقۃ الفکر مصنفہ فرید آفندی مطبوعہ مصر) ۔ دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ وہ اصل انسان جو ایک جوہر نورانی ہے اس کے لیے جسم ہاتھ پائوں وغیرہ اعضا بھی ہوتے ہیں ‘ بات چیت بھی کرتا ہے مگر اس کے لیے جسم اور اس کے ہاتھ پائوں اس جسم عنصری کے سے نہیں۔ وہ جسم بھی ایک طرح کا لطیف ہے بلحاظ اس مادہ کے اور اس تجرد کی وجہ سے اس کو وہ رنج و آلام بیماری وغیرہ بھی لاحق نہیں ہوتیں جو اس حالت میں ہوتی ہیں مگر اس حالت کے درد دکھ اور ہیں اور بڑے سخت ہیں مگر نہ اس قسم کے اسی طرح لذات و عیش بھی ہیں اور یہاں سے کہیں زیادہ ہیں مگر نہ اس قسم کے۔ اب ہم تیسرے سوال کا جواب دیتے ہیں کہ اس انقطاع تعلق جسمانی کے بعد اصل انسان یا روح کی کیا حالت ہوتی ہے ؟ اس مسئلہ میں قدرے اختلاف ہے۔ بعض حکما اور اہل ہنود جو ویدوں کے ماننے والے ہیں ان کا خیال یہ ہے کہ اس کا پھر اسی عالم حسی میں بمناسب اعمال و اعتقاد (گیان و کرم) کسی دوسرے جسم سے پھر وہی تعلق پیدا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ دور تک جاتا ہے۔ اس کو وہ (آواگون) یعنی تناسخ کہتے ہیں۔ اس خیال کی اگر یہ تاویل نہ کی جائے (کہ دوسرے جسم سے تعلق پیدا ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس کو روحانی جسم دیا جاتا ہے جس کا یہ جسم بمنزلہ پوست اور وہ بمنزلہ مغز کے ہوتا ہے) تو یہ خیال بچندوجوہ غلط ہے جن کی تشریح مطولات میں ہے۔ بعض قوموں کا یہ خیال ہے کہ جسم عنصری سے تو تعلق نہیں رہتا مگر اس کا مسکن بھی یہی عالم عنصری رہتا ہے اور وہ جنوں کی طرح رہتے ہیں، اسی لیے وہ ارواح کبھی کسی پر مسلط بھی ہوجاتے ہیں اور ان کے افعال حیرت انگیز بھی مشاہدہ ہوتے ہیں۔ یہ خیال بھی صحیح نہیں۔ ہاں یہ ہوتا ہے کہ کبھی ان کا اس عالم سفلی کی طرف بھی نزول ہوتا ہے اور وہ جس کو چاہتے ہیں دکھائی بھی دے جاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) اور اولیائے کرام اور شہدائے عظام فرشتوں کی خاصیت ان میں ہوتی ہے۔ ہمارے حضرت رسول کریم ﷺ کا بعض ارواح طیبات سے اس عالم میں ملاقات کرنا اس کی دلیل ہے۔ فرمایا رائت یونس وھو یلبی، رائت موسیٰ وھویصلی۔ اسی طرح بعض ارواح کسی مدت تک جن میں بااعتبار تزکیہ کے بالاتر جانے کی صلاحیت نہ تھی، اسی عالم میں چندے قیام کرتی ہیں مگر محسوس نہیں ہوتیں اور کبھی بعض ارواح خبیثہ کو اسی عالم میں عذاب دیا جاتا ہے جس کو بعض ادراک بھی کرتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ چند کہنہ قبروں کے پاس سے گزرے اور آپ کا خچر یا بو جس پر سوار تھے، بد کا۔ آپ نے پوچھا کہ یہاں کن لوگوں کی قبریں ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ مشرکین کی۔ آپ نے فرمایا اگر تم مردے گاڑنا بند نہ کردیتے تو میں ان پر جو عذاب ہو رہا ہے تم کو دکھا دیتا۔ جس کو انسان کے سوا سب دیکھ رہے ہیں، اسی لیے قبور صلحاء اور قبور فساق و کفار پر کبھی نیک و بد آثار لوگوں کو محسوس ہوتے ہیں۔ مگر عام قاعدہ جس کا گروہ انبیاء (علیہم السلام) قائل ہے اور جس کی خبر دینے پر وہ مامور کئے گئے تھے یہی ہے کہ نیک بندہ حسب اعمال و ایمان اس پیکر کو چھوڑ کر عالم بالا تک پرواز کرکے جاتا ہے اور فرشتے اس کو نہایت عزت و احترام سے عالم بالا تک پہنچاتے ہیں اور وہیں کہیں اپنے مناسب مقام پر ارواح میں ملتے اور ہر قسم کا عیش و آرام پاتے ہیں۔ پھر اس میں درجات متفاوت ہیں اور اس مقام کو مقام علییین کہا جاتا ہے اور بد اور بدکار اس کے برخلاف برے حالوں میں مبتلا ہو کر عالم سفلی میں معذب ہوتے ہیں جس کو سجین کہتے ہیں۔ احادیث صحیحہ میں اس کی تصریح بہت کچھ ہے۔ مگر میں نصف کے قریب بنی آدم کی تسلی کے لیے ایک ایسے شخص کا قول نقل کرتا ہوں کہ جس کو ایک عالم مانتا ہے۔ یعنی حضرت مسیح ( علیہ السلام) کا اور ان پر روحانیت کا یہاں تک غلبہ بھی تھا کہ جس کی وجہ سے لوگ ان کو خدا اور خدا کا بیٹاکہنے لگے، یعنی اس صفت سے اشتباہ میں پڑگئے الوہیت اور ملکیت کے مراتب کا امتیاز نہ رہا۔ اس قول کو لوقا نے اپنی انجیل کے سولہویں باب میں ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) فرماتے ہیں اگلے زمانے میں ایک دیندار مگر سخت مفلس اور بیکس شخص لعزر تھا جس کے زخموں کو کتے چاٹتے تھے اور اسی جگہ ایک دولت مند فاسق و فاجر عیش و نعیم میں سرشار رہتا تھا۔ لعزر کو تمنا تھی کہ کہیں اس کے دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑے ہی مجھے مل جایا کریں۔ قضارا دونوں مرگئے۔ اس دولت مند نے جہنم اور عذابوں میں سے ابراہیم (علیہ السلام) کو دور سے دیکھا کہ ان کے پاس لعزر بھی بیٹھا ہے تب اس نے پکار کر کہا کہ اے باپ ابراہیم ( علیہ السلام) مجھ پر رحم کر اور لعزر کو بھیج کہ اپنی انگلی کا سرا پانی سے بھگو کر میری زبان تر کرے کیونکہ میں اس لو میں تڑپتا ہوں۔ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا، اے فرزند تو اپنے مزے دنیا میں پا چکا اب تیرے لیے کچھ نہیں۔ دوسرے ہمارے تمہارے درمیان ایک بڑا عمیق گڑھا حائل ہے۔ جس سے نہ یہاں کا وہاں اور نہ وہاں کا یہاں آسکتا ہے۔ تب اس نے کہا اے ابراہیم ! میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو لعزر کو میرے باپ کے گھر بھیج کہ وہ جا کر خبر کرے اور شہادت دے تاکہ میرے پانچ بھائی جو وہاں ہیں ایمان لائیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ بھی اس عذاب کی جگہ میں آئیں۔ ابراہیم ( علیہ السلام) نے کہا کہ ان کے پاس موسیٰ اور دیگر انبیاء ہیں ان کو چاہیے کہ ان کی سنیں۔ اس نے کہا نہیں اے باپ اگر کوئی مردوں میں سے ان کے پاس جا کر گواہی دے تو اس کو باور کریں گے اور توبہ کریں گے۔ ابراہیم ( علیہ السلام) نے کہا جب وہ موسیٰ اور نبیوں کی نہیں سنتے تو مردوں میں سے اگر کوئی ان کے پاس جا کر خبر دے گا تو اس کی کب مانیں گے۔ انتہیٰ ۔ اس بیان سے چند باتیں معلوم ہوئیں : (1) یہ کہ مرنے کے بعد ایک دوسرے عالم میں انسان جاتا ہے جہاں اس کے اعضائے بدن بھی ہوتے ہیں اور جسم اول کے مناسب ایک دوسرا جسم بھی ہوتا ہے جس سے ایک دوسرے کو پہچانتا ہے۔ (2) یہ کہ وہاں عذاب لو ‘ پیاس ‘ گرمی وغیرہ بھی ہے اور ثواب بھی جہاں سرد پانی وغیرہ اشیاء بھی ہیں۔ پھر جہاں اعضائے بدن انسانی بھی ہوں گے اور سرد پانی اور لو وغیرہ اشیاء بھی ہوں گی تو پھر کیا کھانا وانا نہ ہوگا ؟ ضرور ہوگا کیونکہ یہ بھی سامان راحت ہے۔ پھر کیا وہاں عمدہ مکان نہ ہوں گے، جن میں نہریں بہتی ہوں گی اور پھر کیا وہاں ازواج مطہرات نہ ہوں گی، کیا مرد ہی راحت وثواب کے مستحق ہوں گے، عورتوں سے وہ جگہ بالکل خالی ہوگی ؟ کیا عورتیں جہنم ہی کے قابل ہیں ؟ ہرگز نہیں۔ وہ بھی مردوں کے قدم بقدم ثواب و عذاب میں ہوں گی۔ پھر جب ہر قسم کی راحت اور پانی اور عمدہ مکان اور عمدہ کھانے ہوں گے اور بیبیاں بھی ہوں گی اور جسم بھی ہوگا اور اس کے اعضاء اور صحت بھی ہوگی تو کیا مرد نامرد ہوجاویں گے ! ہرگز نہیں۔ ان اسرار کو قرآن نے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے تو کیا یہ محل اعتراض ہے اور کس لیے ان نعماء کی بہ تقلید فلاسفہ تاویل کی جاتی ہے۔ (3) مرنے کے بعد دنیا کی سب باتیں یاد رہیں گی اور اپنے اعزہ کی محبت باقی رہتی ہے۔ (3) بزرگوں کی صرف اولاد ہونا بغیر ایمان اور اعمال صالحہ کے کچھ بھی فائدہ مند نہیں۔ واضح ہو : کہ قرآن مجید کی بلاغت و اعجاز بھی یہ ہے کہ کسی مضمون کو ناتمام نہیں چھوڑا جاتا اور کس حسن و خوبی سے تمام کیا جاتا ہے۔ ان ہی آیات میں غور کرو کہ اول عبادت کا حکم دیا اور معبود حقیقی کا نشان اس کے آثار قدرت سے بتا دیا کہ وہ ہے جس نے تم کو اور تم سے پہلوئوں کو بنایا اور جس نے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی برسا کر تمہارے لیے رزق اور روزی کا سامان کیا، اب بتائو ان باتوں میں کون شریک ہے۔ اس میں ذات وصفات اور توحید و شرک بیان ہوگیا دلیل کے بعد خود ہی نتیجہ کے پیرائے میں بیان فرما دیا کہ پھر جان بوجھ کر کسی کو اس کا شریک نہ کرو یعنی اس عبادت کا وہی مستحق ہے مگر عبادت مقبول اور غیر مقبول کا فیصلہ نبی بغیر ہو نہیں سکتا، اس لیے نبی کی صداقت اور قرآن کا کتاب الٰہی ہونا جو عبادات اور جملہ احکامِ الٰہی کا دفتر ہے۔ اس آیت وان کنتم فی ریب میں بیان فرمایا اور ضمن میں منکرین کا انجام جہنم بھی بیان کردیا اس کلام میں خدا کی توحید اور اس کے صفات اور نبوت اور قرآن کی حقانیت جو امہات المسائل تھے یکے بعد دیگرے کس طرح مسلسل بیان ہوئے اور عالم آخرت کا بیان کس مناسبت سے شروع ہوا۔ اول دوزخ اور اس کی ہیبت ناک اجمالی کیفیت (کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں) منکرین کے خوف دلانے کے لیے اول یوں بیان فرمائی کہ جلب منفعت سے دفع مضرت مقدم اور اہم تر ہے۔ اس کے بعد عبادت اور خدا اور اس کی صفات پر ایمان لانے کی اور اس کی توحید کی جزا بھی بیان فرمانا ضروری ہوا، تاکہ اس عالم باقی کی نعماء اور حیات ابدی کی بشارت سن کر نفوس بشریہ اس طرف متوجہ ہوں اور عبادت کی مشقت کو خیال میں نہ لائیں۔ مگر لطف یہ ہے کہ دار آخرت کا بیان مژدہ اور خوش خبری کے پیرایہ سے شروع فرمایا اور مژدہ کا مدار اسی ایمان اور اعمال صالحہ پر رکھا جو اول دوسرے عنوان سے بیان ہوا تھا۔ فقال :
Top