Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 244
وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَقَاتِلُوْا : اور تم لڑو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّ : کہ اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اللہ کی راہ میں لڑتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ سنتا جانتا ہے۔
ترکیب : وقاتلوا معطوف ہے محذوف فاطیعو پر۔ من استفہامیہ موضع رفع میں ہے بسبب مبتداء ہونے کے اور ذا اس کی خبر ہے اور الذی اس کی لغت یا بدل ہے یقرض جملہ الذی کا صلہ قرضا مفعول مطلق حسنا یہ اسم مصدر ہے اور وہ اقراض ہے فیضاعفہ معطوف ہے یقرض پر یا جملہ مستانفہ ہے اضعافا جمع ضعف اور صغف بفجہ عین مصدر نہیں کیونکہ مصدر اضعاف ہے یا مضاعفتہ اس تقدیر پہ یہ یضاعفہ کی ہا سے حال ہوسکتا ہے اور معنیً مفعول ثانی بھی ہوسکتا ہے۔ تفسیر : ان تمام مسائل کے بعد پھر خدا کی راہ میں جان دینے اور مال دینے کی تاکید شروع ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں کوئی قوم قوم نہیں رہ سکتی تاوقتیکہ اس قوم میں اپنے ناموس اور مذہب محفوظ رکھنے کی قدرت نہ ہو۔ خاص وہ مذہب کہ جو تمام دنیا پر پھیلنے والا ہو جس کی توحید اور روشن احکام دنیا بھر کے شریروں کے خلاف نہ ہوں جس سے نہ صرف احتمال بلکہ یقین ہو کہ اس مذہب کے لیے اس کے گھر اور ملک میں بھی سخت سخت رکاوٹیں پیش آنی شروع ہوں گی بلکہ ہوگئیں۔ پھر آگے چل کر تو کیا کچھ نہ ہوگا اس لیے حکم دیا گیا کہ اللہ کی راہ میں لڑو جو رکاوٹ پیش آئے اس کو تلوار کی دھاروں سے مٹا دو مگر نیت نیک اور دلی خلاص بھی ملحوظ رکھو۔ صرف خون ریزی اور بنی نوع کا قتل کرانا ہی مقصود نہیں بلکہ یہ جہاد ایسا ہے جیسا مریض کے لیے فصد و فاسد مادہ کا اخراج وقطع برید ایسے معاملات میں دلی اخلاص و نیک نیتی ضرور ہے۔ اس لیے فرمایا کہ اللہ سنتا جانتا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ دشمنوں سے لڑائی اور ان پر چڑھائی بےساز و سامان کے عادتاً مشکل ہے۔ اس کے لیے روپیہ پیسہ بھی ضرور ہے۔ اس لیے اپنے بندوں کو خدا کی راہ میں مال صرف کرنے کی بھی کس عمدہ طور سے ترغیب دی ” کہ کوئی ہے جو اللہ کو قرض دے تاکہ اس کے بالعوض دنیا و آخرت میں خدا اس کو دگنا تگنا بلکہ بیشمار عنایت فرما دے “ اللہ تعالیٰ قرض مانگنے سے پاک ہے ٗ اس کو کوئی حاجت اور ضرورت نہیں وہ غنی اور حمید ہے اور اس کے قبضہ میں آسمان و زمین کے خزانے ہیں وہی بندوں کو فراغ دستی اور تنگدستی دیا کرتا ہے مگر اللہ کی راہ میں صرف کرنے کو بطور استعارہ کے قرض دینے سے تعبیر کیا۔ اس بات کے جتانے کے لیے کہ جس طرح غنی اور خوش معاملہ کو قرض دینا موجب اطمینان اور نتائج و منافع کا باعث ہے اسی طرح اللہ کی راہ میں دیا رائیگاں نہیں جاتا۔ وہ مع نفع چند در چند ملتا ہے ہم اس کے ضامن ہیں۔ گویا وہ ہم کو دیتا ہے اور اس کے بعد یہ بھی سنا دیا کہ تنگدستی و فراخ دستی سب ہمارے قبضہ میں ہے جو ہماری راہ میں صرف نہیں کرتے وہ اس بات پر گھمنڈ نہ کریں کہ ہماری دولت باقی رہے گی۔ خدا ہزاروں مصیبتیں بھیج کر تنگدستی کرسکتا ہے۔ منجملہ ان کے ایک یہ بلا نازل ہوگی کہ مخالفین غالب آکر تمام ملک و دولت چھین لیں گے اور جو صرف کرتا ہے وہ تنگدستی سے نہ ڈرے۔ دنیا میں غنائم اور فتوحات ملک ان کے حصہ میں آویں گے۔ آخرت میں کہ جو سامنے کھڑی ہے جس کو الیہ ترجعون سے تعبیر کیا بیشمار نعمتیں ملیں گی جیسا کہ صحابہ کو ملیں۔
Top