Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 83
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ١۫ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ؕ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَ : پختہ عہد بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : بنی اسرائیل لَا تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت نہ کرنا اِلَّا اللّٰہَ : اللہ کے سوا وَبِالْوَالِدَیْنِ : اور ماں باپ سے اِحْسَاناً : حسن سلوک کرنا وَذِیْ الْقُرْبَى : اور قرابت دار وَالْيَتَامَى : اور یتیم وَالْمَسَاكِیْنِ : اور مسکین وَقُوْلُوْاْ : اور تم کہنا لِلنَّاسِ : لوگوں سے حُسْناً : اچھی بات وَاَقِیْمُوْاْ الصَّلَاةَ : اور نماز قائم کرنا وَآتُوْاْ الزَّکَاةَ : اور زکوۃ دینا ثُمَّ : پھر تَوَلَّيْتُمْ : تم پھرگئے اِلَّا : سوائے قَلِیْلاً : چند ایک مِّنكُمْ : تم میں سے وَاَنتُم : اور تم مُّعْرِضُوْنَ : پھرجانے والے
اور جبکہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے اور قرابت داروں اور یتیموں اور بیکسوں سے سلوک کرنا اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا پھر بجز چند آدمیوں کے تم میں سے منہ موڑ کر سب پھرگئے۔
ترکیب : اذ ظرف متعلق ہے اذکر کے اخذنا فعل بافاعل میثاق بمعنی عہد مفعول لا تعبدون الیٰ آخرہ جواب قسم ہے جو اخذنا سے مستفاد ہے۔ اے احلفنا ھم وقلنا لھم باللہ لاتعبدون دوم یہ کہ ان مراد ہو والتقدیر اخذ نا میثاق بنی اسرائیل علی ان لاتعبدوا الا اللّٰہ پس حرف جر حذف ہوا پھر ان حذف ہوگیا پھر مضارع مرفوع ہوگیا۔ جیسا کہ اس مصرعہ میں لا ایہذا الزاجری احضرالوغی۔ اور بعض قرأت میں ان لاتعبدو ابھی آیا ہے۔ پس اس تقدیر پر میثاق سے بدل ہوجاوے گا یابحذف جار اس کا معمول ہوجاوے گا۔ نافع اور ابن عامر اور ابو عمرو اور عاصم اور یعقوب نے لاتعبدون کے ساتھ پڑھا ہے اور باقی لوگوں نے ی کے ساتھ 1 ؎ اور بالوالدین احسانا متعلق ہے مضمر کے ساتھ۔ ای احسنو احساناً و ذی القربی اس کا عطف الذین پر ہے وقولوا ای قلنا لھم قولوا قولا حسنا بضم الحا و سکون السین و بفتحہا جیسا کہ حَزَن اور حزن دونوں درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ثانی صورت میں صفت ہے مصدر محذوف کی اور اول میں مضاف محذوف ہے۔ ای ذا حسن وانتم معرضون جملہ حال مؤکدہ ہے۔ فاعل تولیتم سے۔ تفسیر : یہود کو جو خدا تعالیٰ نے بتاکید شدید احکام دیے تھے جن پر عمل کرنے سے ان کو دنیا کی فضیلت دی گئی تھی اور ان پر کیا منحصر ہے جو کوئی ان احکام پر عمل کرے گا فضیلت اور سیادت کا مرتبہ پائے گا۔ ان احکام کی دو قسم ہیں اول وہ جو خود عامل کے لیے مکارم اخلاق اور ذاتی خوبی ہوجاتے ہیں۔ دوم وہ جو تمدن کی اصلاح اور قومیت کے قیام کا باعث۔ قسم اول کی بھی دو قسمیں ہیں۔ خدا کی تعظیم اس کی مخلوق پر رحم کرنا۔ فقال لاتعبدون الخ اول تو تعظیمِ الٰہی کا ذکر فرمایا یہ اس لیے کہ تمام حسنات کی بنیاد توحید ہے اور یہ توحید دراصل منعم حقیقی کا شکر بھی ہے اس لیے اس کے ساتھ شکر منعم مجازی بھی تاکیداً ذکر فرمایا۔ 1 ؎ بعض علماء لا تعبدون کو خبر بمعنی انشاء کہتے ہیں اور خبر کے پیرایہ میں حکم مؤکد ہوتا ہے۔ 12 منہ وبالوالدین احسانا کہ ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنا گویا توحید کے بعد ماں باپ کی تعظیم و حرمت دوسرے درجہ کا حکم ہے اور صرف ماں باپ ہی نہیں بلکہ ان کے سبب سے جو رشتہ قرابت پیدا ہوا ہے ان اہل قرابت کے ساتھ بھی نیک سلوک کرنا خواہ وہ ماں کے اہل قرابت ہوں یا باپ کے، چچا، پھوپھی، دادا، دادی، چچا اور پھپھیوں کی اولاد، خالہ، ماموں اور ان کی اولاد یہ قرابت نسبی ہے۔ اکثر علماء فرماتے ہیں کہ قرابت سببی اور رضاعت اور قرابت صحبت و محبت بھی بموجبِ آیۃ ملحوظ رکھی جائے۔ اب جس طرح ماں باپ کی تعظیم کا جزء اہل قرا بت کی تعظیم تھی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا جزء اس کی مخلوق پر رحم کھانا ہے گویا یہ اس کے عیال ہیں بالخصوص ان میں سے دو گروہ والیتمٰی والمساکین سے سلوک کرنا عام ہے کہ قرابت دار ہوں یا نہ ہوں۔ اگر قرابت دار ہیں تو اور زیادہ قابل ترحم ہیں اور زیادہ ثواب ہوگا۔ یتیم اس نابالغ کو کہتے ہیں جس کا باپ مرجائے۔ مسکین وہ مفلس ہے جو صاحب زکوٰۃ نہ ہو۔ عام ہے کہ تندرست ہو یا بیمار اور عموماً بنی نوع کے لیے عمدہ بات کہنا وقولوا للناس حسنا عمدہ بات اچھی صلاح دینا، کوئی دنیاوی اخروی تعلیم دینا، فحش اور بدکاموں سے بہ نرمی و اخلاق منع کرنا اور کم سے کم میٹھی بات اخلاق سے بولنا، ترش روئی اور کج ادائی سے پیش نہ آنا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ کی عبادت وطاعت کا حکم ذکر فرمایا۔ اقیموا الصلوۃ کہ اس کے لیے نماز پڑھنا، دعا کرنا، سجدہ کرنا، مصائب میں اسی سے التجا کرنا یہ بھی نماز کا جزء ہے اور دل میں اسی کا تصور کرنا یہ بھی نماز ہے مگر ہیئتِ مخصوصہ جو نماز جملہ شرائط کے ساتھ ہو ان سب کو شامل ہے۔ اس لیے وہ فرض ہے مسلمانوں پر رات دن میں پانچ وقت یہود پر جو نماز جس ہیئت سے فرض تھی اس کی تشریح ان کی کتابوں میں ہے اب فرائض و نوافل سب اس میں آگئے۔ یہ بدنی اور روحانی عبادت تھی۔ اس کے بعد واتوا الزکوٰۃ مالی عبادت کا حکم صادر فرمایا۔ مال کی جڑ بنی آدم کے دل پر ہوتی ہے جب تک اس منعم حقیقی کی راہ میں اس کو صرف نہ کرے گا نماز بھی ایک رسمی بات سمجھی جائے گی اور اگر زکوٰۃ دے گا تو یتامٰی اور مساکین کا بھی حق ادا ہوتا رہے گا ورنہ ماں باپ اوراقارب کے ساتھ سلوک تو شائستہ انسانوں کا فطری شیوہ ہے۔ اسلام میں زکوٰۃ فرض ہے مال کی سال بھر کے بعد چالیسواں حصہ اس کے مستحقوں کو دینا چاہیے اور جو زیادہ دے ثواب ہے۔ یہود میں بھی یہی زکوٰۃ فرض تھی اس کی مقدار اور دیگر احکام ان کی کتابوں میں ہیں وہ یہ احکام ہیں جن کی خوبی میں کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا اور اس لیے یہی احکام اسلام میں بھی ہیں کیونکہ توریت کے جس قدر احکام قرآن میں نقل کئے گئے ہیں اگر منسوخ ہونا ثابت نہ ہو تو ان کا حکم باقی ہے۔ مگر بجز چند لوگوں کے یہود نے ان سے منہ موڑ لیا۔ اس پر یہ دعویٰ کہ ہم خدا کے محب ہیں۔ قسم دوم کے احکام اگلی آیت میں بیان فرماتا ہے :
Top