Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے عہد لیا کہ آپس میں خون ریزی نہ کرنا اور نہ اپنے لوگوں کو جلا وطن کرنا پھر تم نے اقرار کرلیا اور تم (اس کی) شہادت بھی دیتے ہو
ترکیب : وعطف کے لیے کہ جو ایک جملہ کا دوسرے جملہ پر چلا آتا ہے۔ اخذنا فعل بافاعل میثاقکم مفعول لا تفسکون الخ بدل ہے میثاق سے انتم مبتداء ھؤلاء علیٰ حذف مضاف خبر ای مثل ھؤلائِ اور تقتلون اور تخرجون حال ہیں اور عامل ان میں معنی تشبیہ۔ تظاھرون الخ جملہ موضع نسب میں ہے۔ اس لیے کہ یہ حال ہے فاعل تخرجون سے۔ تظاھرون اصل میں تتظاہرون تھا ایک ت حذف ہوگئی اور بعضت ثانی کو ط سے بدل کر ظ کو ظ میں ادغام کرکے مشدد پڑھتے ہیں۔ عدوان مصدر ہے بروزن کفران بمعنی ظلم۔ اسارٰی جمع اسیر ہے۔ فاعل یا تو سے اور بعض نے اس کو اسریٰ بھی پڑھا ہے۔ تفادوھم جواب شرط ہے وھو ضمیر شان مبتدا محرم خبر اخراجہم مرفوع بسبب محرم کے اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ اخراجہم مبتدا اور محرم خبر مقدم اور جملہ خبر ہو اور ھو اخراج کی طرف بھی رجوع ہوسکتا ہے اور یہ جملہ معترضہ ہے ما نا فیہ جزا الخ اسم خزی خبر فی الحیوۃ الدنیا صفت و موصوف کا مجموعہ خزی کی صفت ہے اور ممکن ہے کہ ظرف ہو۔ تفسیر : یہ قسم دوم کے احکام ہیں۔ ان کو بھی بتاکید شدید یہود پر فرض کیا تھا جس کو بلفظ اخذ نا میثاقکم اور پہلے لفظ بنی اسرائیل ذکر فرمایا تھا۔ اس عنوان کے بدلنے میں نکتہ یہ ہے کہ اول آیت میں اگلے بنی اسرائیل کا ذکر کیا تھا اور اس میں موجودہ یہود کی طرف خطاب ہے۔ اگرچہ یہ دونوں قسم کے احکام فرض تو اگلے ہی بنی اسرائیل کے عہد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت ہوئے تھے جیسا کہ توریت میں ذکر ہے۔ گزشتہ آیت میں قسم اول کے پانچ حکم تھے خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ سے ‘ اہل قرابت سے ‘ یتیموں سے ‘ مسکینوں سے سلوک کرنا، لوگوں سے عمدہ بات کہنا، نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ دینا اسی طرح ان آیات میں قسم دوم کے دو حکم ذکر فرمائے۔ آپس میں خونریزی نہ کرنا ‘ اپنی قوم کو ناحق باہر نہ نکال دینا یعنی جلاوطن، ظلم و زیادتی سے نہ کرنا۔ کس لیے کہ تمدن خراب ہوجائے گا۔ قومیت کا قوام باطل ہوجائے گا۔ قوت اجتماعیہ زائل ہوجانے سے مخالفوں کو تم پر حملہ کرنے کی جرأت ہوگی۔ وہ تمہارے ملک کے بادشاہ ہوجاویں گے ‘ تم کو محکوم اور غلام بنا لیں گے ‘ تمہارا ناموس ‘ تمہارا مذہب بھی تمہارے ہاتھ میں نہ رہے گا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا یہ حکم مسلمانوں پر بھی بقاعدہ مذکورہ فرض ہیں۔ ان پر بھی آپس کی لڑائی ‘ مار دھاڑ ‘ جلاوطن کردینے سے جو جو مصائب نازل ہوئے اور اب تک ہیں کسی تاریخ داں پر مخفی نہیں۔ ان دونوں حکموں کو بنی اسرائیل نے خیمہ شہادت کے پاس حاضر ہو کر قبول کیا تھا۔ اب اس کے بعد آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے یہود اور ان کے بزرگوں سے خطاب کرکے الزام دیا جاتا ہے۔ بقولہ ثم انتم ھٰؤلاء کہ پھر تم وہ ہو کہ باوجود اس اقرار کے آپس میں خونریزی بھی کرتے ہو اور ایک گروہ دوسرے کو جلاوطن بھی کرتا ہے اور عجب تر یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اگر کوئی دوسری قوم کے ہاتھ میں اسیر ہوجاتے ہیں تو اسرائیلی کا آزاد کرانا کارثواب جان کر مال دے کر انہیں اسیری سے رہا کراتے ہیں۔ حالانکہ جلاوطن کرنا ہی حرام تھا۔ جس کے سبب وہ اسیر ہوئے۔ فرماتا ہے کیا توریت کے ایک جز پر تو ایمان رکھتے ہو کہ اسیروں کو رہا کراتے اور ایک جز جلا وطن نہ کرنے اور ناحق چڑھائی نہ کرنے کے حکم سے انکار ہے۔ یہ خوب ایمان ہے ؟ پھر ایسی نفس پرست قوم کی یہی سزا ہے کہ دنیا میں رسوا اور ذلیل ہوں اور آخرت میں اشد عذاب ہو۔ تاریخ بنی اسرائیل میں معلوم ہوا ہوگا کہ بنی اسرائیل کے بارہ فرقوں میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد کیسا اختلاف ہوا اور باہم کیا کیا خونریزیاں ہوئیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی حکومت برباد ہوگئی۔ لوگوں کے ہاتھوں میں ذلیل رعایا بن کر رہتے ہیں۔ مدینے کے قریب جو یہود کے دو گروہ بنی نضیروبنی قریظہ رہتے تھے وہ بھی آپس میں اپنے اپنے حلیفوں انصار مدینہ کے دو قبیلوں بنی اوس اور بنی خزرج کے ساتھ ہو کر لڑتے تھے ان انصاری قبیلوں میں سو برس سے شعلہ جنگ مشتعل تھا باہم لڑا کرتے تھے۔ یہ شعلہ آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں آ کر بجھا دیا اور سب کو برادر دینی بنا دیا۔ مدینہ کے یہود آخر اپنی نالائق حرکات سے مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل ہوئے، جلاوطن کئے گئے۔ اس سے زیادہ اور کیا دنیا کی رسوائی ہوگی۔ اس آیت میں یہ پیشین گوئی ہے جو بہت جلدصادق ہوئی۔ آخر کار عذاب اور ابدی جہنم تو ان کے لیے باقی ہے۔ یہ دونوں حکم گویا احکام خمسہ کا تتمہ ہیں، کس لیے کہ اہل قرابت پر چڑھائی کرنا ‘ قتل کرنا، جلاوطن کردینا اس سلوک اور احسان کے منافی ہے جس کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے بعد فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے آخرت کی کچھ پروا نہ کی۔ اس جہان کے عیش و آرام کے بدلہ میں دنیائے فانی کو حاصل کرنا مقدم سمجھا۔ سو یہ ہمیشہ عذاب میں رہیں گے نہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوگی نہ کوئی ان کی مد دکر سکے گا۔
Top