Tafseer-e-Haqqani - Al-Anbiyaa : 46
وَ لَئِنْ مَّسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَاۤ اِنَّا كُنَّا ظٰلِمِیْنَ
وَلَئِنْ : اور اگر مَّسَّتْهُمْ : انہیں چھوئے نَفْحَةٌ : ایک لپٹ مِّنْ عَذَابِ : عذاب سے رَبِّكَ : تیرا رب لَيَقُوْلُنَّ : وہ ضرور کہیں گے يٰوَيْلَنَآ : ہائے ہماری شامت اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے ظٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
اور اگر ان کو آپ کے رب کا عذاب ایک جھونکا بھی لگ جائے تو کہنے لگیں گے کہ ہائے خرابی ! بیشک ہم ہی ظالم تھے
1 ؎ نفح ومیدن بوسے خوش وپائے زون ناقہ وبہ شمشیر زون دو زویدن باد دواون چیزے نفح بشی اعطاہ قال الاصفی ماکان من الریاح نفح فھو و برد و ماکان نفخ فھو حرمن الصراح 12 منہ۔ ترکیب : ولئن شرط من عذاب ربک نفخۃ کی صفت۔ واصل النفح من الریح اللیۃ والمعنی ولئن مستہم شیء قلیل من عذاب اللہ لیقولن جواب الموازین جمع میزان موصوف القسط گومفرد ہے مگر مصدر ہے جو جمع کی صفت ہوسکتا ہے یا یہ تقدیر و ذات القسط تب بھی الموازین کی صفت ہوسکتا ہے مثقال منصوب خبر کان ہو کر ای وان کان العمل وزن مثقال۔ ثقل بمعنی بوجہہ سے مشتق ہے جس کے معنی وزن ہیں من خردل صفۃ ہے حبۃ یا مثقال کی۔ کفی بنا کی ترکیب : گزر چکی۔ تفسیر : ہاں اگر ان کو عذاب الٰہی کی کچھ ہوا بھی چھو جائے ذرا بھی عذاب نازل ہوجائے تو یہ بہرا پن سب جاتا رہے اور اپنے ظلم و ستم کا اقرار کرنے لگیں اور خیر یہ تو دنیا کا معاملہ ہے مگر آخرت میں تو وہ اپنے اعمال سے ہرگز بچ ہی نہ سکیں گے کیونکہ ونضع الموازین الخ وہاں اعمال کی ترازویں ہم قائم کریں گے ہر ایک کے لیے ایک ترازو ہوگی اور ترازو بھی کیسی عدل و انصاف کی۔ کسی پر کچھ ظلم نہ ہوگا کہ اس کے نیک اعمال کو دبا لیا جائے اور ناکردہ عمل اس پر لگائے جائیں بلکہ وان کان مثقال الخ اگر رائی کے دانہ برابر بھی کسی کا عمل ہوگا وہ بھی لایا جائے گا اور ہم خود حساب لیں گے۔ مجاہد کہتے ہیں اور ضحاک و قتادہ سے بھی یہی منقول ہے کہ یہ بطور تشبیہ کے ہے نہ یہ کہ حقیقت میں ترازو عمل تولنے کو کھڑی ہوں گی بلکہ مراد کہ حساب انصاف کے ساتھ لیا جائے گا کیونکہ دنیا میں محسوسات کا صحیح اندازہ اور انصاف و عدل کا وزن ترازو یا پیمانہ سے ہوتا ہے اس لیے قیامت میں اعمال کے موازنہ کو اس کے ساتھ تعبیر کیا۔ ابن جویبر نے ابن عباس ؓ سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے مگر ائمہ سلف فرماتے ہیں کہ جب تک لفظ کے حقیقی معنی بن سکتے ہیں مجاز کی کیا حاجت ؟ پس اگر قیامت میں اعمال تولنے کے لیے ترازو قائم ہو تو کیا بعید ہے ہاں یہ صحیح ہے کہ وہ ترازو دنیا کی ترازوئوں کی طرح نہ ہوگی بلکہ اعمال تولنے کے مناسب خواہ اعمال کو کسی شکل میں محسوس کر کے تولا جائے یا کوئی اور طریق جو خاص اس علام الغیوب کو معلوم ہے اور یہ اس لیے کہ میدان حشر میں سب کو اعمال کا اندازہ ہوجائے۔ خدا تعالیٰ پر ظلم کی تہمت نہ کوئی لگائے اور بہت سے صحیح احادیث سے کہ جن کو صحیحین میں شیخین نے بھی روایت کیا ہے اس قول سلف کی تائید ہوتی ہے۔ سوال : یہ آیت اس آیت کے مخالف اور صریح نقیض ہے فلا یقیم لہم یوم القیامۃ وزنا۔ جواب : اس آیت میں وزن نہ قائم کرنے سے مراد ان کے اعمالِ بد کی بےقدری مراد ہے۔ پہلے فرمایا تھا کہ قل انما انذرکم بالوحی اب اس بیان کو تمام کر کے جو دار آخرت و معاد سے متعلق تھا مسئلہ نبوت کو ثابت کرنے کے چند اولوالعزم انبیاء کے تذکرہ سے بیان فرماتا ہے تاکہ آنحضرت ﷺ کی تائید ہو اور مخالفوں کو اطمینان ہو کہ یہ الہام و نبوت کا سلسلہ دنیا میں ہم نے اے محمد ﷺ ! تم سے بہت پہلے سے جاری کر رکھا ہے۔ موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) کو بھی ہم نے کتاب یعنی تورات دی تھی۔ یہ فیصلہ کرنے والی اور نور یعنی منور اور پرہیزگاروں کے لیے سمجھ کی چیز تھی۔ اعنی خدا ترسوں کے لیے۔ باوجود اس کے ان کی امت نے ان سے کیا کیا کیا اور اسی طرح یہ قرآن بھی سمجھانے کی مبارک کتاب ہے۔ پھر کیا اے لوگو ! تم اس کے بھی منکر ہو ؟ کتاب تو موسیٰ ( علیہ السلام) ہی کو دی تھی مگر نبوت اور اس کی ترویج و شہرت میں ہارون (علیہ السلام) بھی شریک تھے اس لیے ان کو بھی شامل کرلیا جس طرح کبھی امت کو شامل کرلیا جاتا ہے۔
Top