بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
اس کی بڑی بابرکت ذات کہ جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل کیا تاکہ تمام جہان کو ڈر سنایا کرے
ترکیب : لیکون کا اسم ضمیر جو عبد کی طرف راجع ہے یا فرقان کی طرف یا اللہ کی طرف پھرتی ہے لیکون کا لام نزل سے متعلق ہے الذین یا تو اول الذی سے بدل ہے یا خبر ہے مبتداء محذوف کی ولم یتخذ جملہ کلام سابق پر معطوف و واتخذوا جملہ مستانفہ۔ تفسیر : یہ سورة مکہ میں ہجرت سے پہلے اس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ مشرکین مکہ کا آنحضرت ﷺ پر ہجوم تھا اور وہ حضرت کی رسالت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر طرح طرح کے شبہات کیا کرتے تھے اور بت پرستی کے دریا میں غرق تھے اور خدا تعالیٰ کو اور اس کی صفات کو غلط طور پر اپنے اوہام باطلہ کے موافق سمجھ رکھا تھا۔ اس سورة میں ان سب باتوں کا جواب ہے۔ سورة نور کے آخیر میں یہ جملہ تھا قدیعلم ما انتم علیہ الخ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ جس حال میں تم ہو جس دن دنیا سے لوٹ کر تم اس کے پاس آؤ گے تو وہ تمہیں بتلائے گا کہ تم کیا کیا کرتے تھے۔ اس کلام میں اول تو عرب کے ان اعمال فاسدہ کی طرف تنبیہ تھی جن میں وہ شب و روز غرق تھے اور ظلمات میں مبتلا تھے۔ اس کا تدارک تو اس سورة کے آخر میں بیان فرمایا اور نیز سورة نور میں بھی حکمت عملیہ کے متعلق بہت کچھ ارشاد ہوچکا تھا مگر ان کاموں میں سے ہر ایک سے بدتربت پرستی تھی۔ دوم اس جملہ میں مر کر خدا کے پاس جانے اور نیک و بد کی جزاء و سزا پانے کا اشارہ تھا مگر یہ دو باتیں عرب کے مشرکوں کے بالکل خلاف تھیں پھر جو ان باتوں کو رد کرنے والی چیز تھی تو وہ نبوت تھی کہ دنیا میں ایک شخص دعویٰ کر کے یہ کہے کہ میں خدا کی طرف سے تمہیں ان باتوں سے منع کرنے کو آیا ہوں یہ اور بھی ان کے نزدیک حیرت انگیز بات تھی اس لیے ان تینوں مسائل کا جو اصول مذہب ہیں اس سورة کے اول میں ثابت کرنا ضروری ہوا۔ سب سے اول مسئلہ نبوت شروع کیا کس لیے کہ اسی پر زیادہ توحید و معاد کے مسئلہ کی بنیاد ہے مشرکین کے مسئلہ نبوت میں یہ شبہات تھے۔ اول شبہ ان کا یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کو کیا غرض ہے جو اس نے اپنے بندے پر کتاب نازل کی ؟ دوم اگر نازل ہی کرنا تھا تو اپنے کسی اس بابرکت شخص پر نازل کرنا تھا جس کو اس نے اپنی سلطنت کے اختیارات دے رکھے ہیں جیسا کہ ہمارے معبودلات ‘ منات یا ملائکہ وغیرہ۔ سوم پھر اس قرآن سے کیا فائدہ ہے۔ پس ان سب باتوں کا جواب ان آیات میں کس لطف و خوبی کے ساتھ دیا جاتا ہے فقال تبارک الذی الخ یہ اول شبہ کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا برکت والا ہے (قال الزجاج تبارک تفاعل من البرکۃ والبرکۃ کثرۃ الخیر وزیادہ) بندوں کو خیر اور بھلائی پہنچانا اس کا کام ہے پس اس نے بندوں کو بھلائی پہنچانے اور سعادت دارین تک لے جانے کے لیے اپنے ایک بندے پر یعنی محمد ﷺ پر کتاب کیسی کتاب فرقان یعنی حق و باطل میں فرق کرنے والی نازل کی اس میں ضرورت نزول قرآن کی طرف بھی اجمالی اشارہ کیا گیا کہ لوگوں کے عقائد اور افعال سلیمہ اور غیر سلیمہ میں تو ہمات باطلہ سے امتیاز نہیں رہا تھا یہی کتاب ہے جو ان میں فرق کرتی ہے۔ لیکون للعالمین نذیرا میں تیسرے شبہ کا تفصیلاً جواب ہے کہ اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ عالمین یعنی سب جہان کے لوگوں کو تنبیہ کر دے کہ تمہارے ان عقائد اور ان افعال پر دنیاء و آخرت میں یہ سب مصائب پیش آنے والے ہیں ان سے پر حذرہو اس عہد میں عرب ہند روم شام سب ملکوں میں کفروشرک و فسق کا دریا طغیانی پر تھا اس لیے سب کا نذیرآنحضرت ﷺ کو قرار دیا گیا۔ اس سے صاف ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ کل عالم کے نبی ہیں۔ انسانوں کے علاوہ جنوں کے بھی۔ الذی لہ ملک السموت الخ میں دوسرے شبہ کا جواب اور ان کے عقائدِ باطلہ کا رد ہے کہ اس کے قبضہ میں آسمان و زمین ہیں اس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ اس کی سلطنت میں کسی کو کچھ حصہ ہے بلکہ ہر ایک شے اس کے ایک خاص اندازہ سے پیدا ہوئی ہے سب مخلوق کو اس سے رشتہ عبودیت کے سوا اور کوئی رشتہ نہیں پھر کیا وجہ کہ وہ اپنے ایک بندہ پر اپنا کلام نازل نہ کرے۔ اس میں ضمناً مسئلہ توحید کی طرف بھی اشارہ ہے واتخذوا الخ یہاں سے مسئلہ توحید شروع ہوتا ہے کہ لوگوں نے غلط توہمات سے خدا کے سوا اور معبود بنائے ہیں کہ جو کچھ بھی نہیں پیدا کرسکتے بلکہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور خدا کے لیے یہ بات ضرور ہے کہ وہ پیدا کرتا ہے اس کو کسی نے پیدا نہ کیا اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ خاص اپنے نفع و نقصان کا بھی تو انہیں اقتدار نہیں اور نہ کسی کو مار سکتے ہیں نہ جلا سکتے ہیں۔
Top