بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Furqaan : 1
تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَاۙ
تَبٰرَكَ : بڑی برکت والا الَّذِيْ : وہ جو۔ جس نَزَّلَ الْفُرْقَانَ : نازل کیا فرق کرنیوالی کتاب (قرآن) عَلٰي عَبْدِهٖ : اپنے بندہ پر لِيَكُوْنَ : تاکہ وہ ہو لِلْعٰلَمِيْنَ : سارے جہانوں کے لیے نَذِيْرَۨا : ڈرانے والا
وہ (خدائے غزوجل) بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ اہل حال کو ہدایت کرے
تبارک بڑی خیر والا ہے۔ 1 ؂] 1 ؂ امام مالک ‘ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت عمر ؓ بن خطاب کا بیان نقل کیا ہے حضرت عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ : کی زندگی ہی میں میں نے ہشام بن حکیم کو سورة فرقان پڑھتے سنا اور کان لگا کر سنا تو محسوس کیا کہ ہشام ان کثیر الفاظ پر سورة فرقان پڑھ رہے تھے جن پر رسول اللہ ﷺ نے مجھے نہیں پڑھایا تھا (کثیر الفاظ سے غالباً مراد الفاظ ادا کرنے کی کیفیت ہے جیسے امالہ اشمام وغیرہ۔ حروف کثیرہ کے مفہوم کی تشریح میں علماء کے 21 اقوال آئے ہیں اس فقیر کی نظر میں کیفیت ادا مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ واللہ اعلم۔ مترجم) قریب تھا کہ نماز ہی میں میں ان کو جا کو دوں لیکن میں رکا رہا۔ جب انہوں نے سلام پھیر دیا تو فوراً جا کر ان کا گریبان پکڑ لیا اور دریافت کیا ‘ یہ سورت جو تم پڑھ رہے تھے تم کو کس نے پڑھائی تھی۔ ہشام نے کہا رسول اللہ ﷺ نے پڑھائی تھی۔ میں نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو مجھے تو رسول اللہ ﷺ نے اس قرأت کے خلاف پڑھائی تھی جو تم نے پڑھی۔ غرض میں ہشام کو کھینچتا ہوا رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں لے گیا اور عرض کیا میں نے ان کو سورة فرقان ان طریقوں سے پڑھتے نہیں سنا جن کے مطابق حضور ﷺ نے مجھے یہ سورة پڑھائی تھی۔ حضور ﷺ نے ہشام سے فرمایا ‘ ہشام پڑھو ‘ ہشام نے جس طریقے سے پہلے پڑھا تھا اسی طریقے سے پڑھ کر سنا دیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا اسی طرح ہے یونہی نازل کی گئی ‘ پھر مجھ سے فرمایا تم پڑھو۔ حسب الحکم میں نے اس طریقے سے یہ سورت پڑھی جس طریقہ سے حضور ﷺ نے مجھے پڑھائی تھی ‘ فرمایا یہ اسی طرح نازل ہوئی یہ قرآن سات حرفوں (لہجوں یا طرق ادا وغیرہ) پر نازل ہوا ہے ‘ تم کو جو طریقہ سہل معلوم ہو اس طریقہ سے پڑھو۔ (مؤلف)[ تبارک (باب تفاعل کا ماضی ہے لیکن اس) کی صرفی گردان نہیں آتی اس کا استعمال صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ یہ لفظ برکت سے بنایا گیا ہے ‘ برکت کا معنی ہے کثرت خیر۔ یعنی اس کی خیر کثیر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا یعنی ہر خیر اسی کی طرف سے آئی ہے۔ کذا قال حسن۔ بعض علماء نے تبارک کا ترجمہ کیا وہ ہر چیز سے بڑھ چڑھ کر ہے اور اپنی صفات و افعال میں سب سے اعلیٰ وبالا ہے برکت کے معنی کے اندر زیادتی کا مفہوم داخل ہے اسی لئے ضحاک نے اس لفظ کا ترجمہ کیا وہ عظمت والا ہے۔ الذی نزل الفرقان علی عبدہ وہ جس نے قرآن اپنے بندے (یعنی محمد ﷺ پر تھوڑا تھوڑا (تدریجاً ) اتارا۔ فرقان مصد رہے۔ فَرَّقَ بَیْنَ الشَّیئین دو چیزوں کو الگ الگ کردیا۔ قرآن کو فرقان کہنے کی یہ وجہ ہے کہ یہ اپنے بیان سے حق و باطل کو الگ الگ کردیتا ہے اور اپنے اعجاز سے اہل حق و اہل باطل میں فرق کردیتا ہے یا فرقان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ (پورے قرآن کا نزول یکدم نہیں ہو ابل کہ) تھوڑا تھوڑا الگ الگ (مختلف اوقات و مقامات میں) نازل ہوا۔ چونکہ قرآن کے اندر خیر کثیر ہے اور اللہ کا برتر و اعلیٰ ہونا اس سے ثابت ہے اس لئے قرآن نازل کرنے والے کو خیر کثیر کا مالک قرار دیا اور تبارک فرمایا۔ لیکون للعلمین نذیرا۔ تاکہ وہ (یعنی عبد یا فرقان سارے) جہانوں کے لئے (یعنی تمام جن و انس کو (مخالفت اور اللہ کے عذاب سے) ڈرانے والا ہو۔ عَالَمِیْنَ سے مراد ہیں جنات اور انسان کیونکہ خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ : کی رسالت جنات اور انسانوں کے لئے عام تھی۔ نَذِیْربمعنی منذر (ڈرانے والا) یا بمعنی انذار (مصدر ڈرانا) جیسے نکیر بمعنی انکار آتا ہے۔
Top