Tafseer-e-Haqqani - An-Naml : 20
وَ تَفَقَّدَ الطَّیْرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖ٘ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَآئِبِیْنَ
وَتَفَقَّدَ : اور اس نے خبر لی (جائزہ لیا) الطَّيْرَ : پرندے فَقَالَ : تو اس نے کہا مَا لِيَ : کیا ہے لَآ اَرَى : میں نہیں دیکھتا الْهُدْهُدَ : ہدہد کو اَمْ كَانَ : کیا وہ ہے مِنَ : سے الْغَآئِبِيْنَ : غائب ہونے والے
اور سلیمان نے پرندوں کی حاضری لی تو کہا کہ کیا بات ہے جو میں ہدہد کو نہیں دیکھتا ہوں، کیا وہ غیر حاضر ہے ؟
و تفقد الطیر کہ پرندوں کی حاضری لی تو ان میں ہدہد کو نہ پایا، فرمایا کہ اس کو سزا دوں گا ورنہ کوئی عذر معقول بیان کرے، تھوڑی دیر کے بعد ہدہد بھی آحاضر ہوا اور اس نے سبا 1 ؎ کی شہزادی بلقیس کا حال بیان کیا کہ اس کے پاس سب سازوسامان سلطنت حاصل ہیں اور ایک بڑا عمدہ تخت بھی ہے کہ جس پر وہ جلوس کرتی ہے۔ مگر با ایں ہمہ آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ لوگ آفتاب پرست تھے یا تو صابی ہوں گے یا کوئی اور مذہب مروج ہوگا جو شیطانی مذہب تھا اور اللہ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو ظاہر کرتا ہے، آسمان کی چھپی ہوئی ستارے آفتاب ماہتاب چھپ جاتے ہیں، پھر ان کو اللہ ہی ظاہر کرتا ہے، پھر ان کو کیا سجدہ کرنا چاہیے اور زمین کی چھپی ہوئی چیزیں طرح طرح کی جڑی بوٹیاں اور اناج وغیرہ۔ اس میں ہد ہد نے اپنی خواہش بھی ظاہر کردی اور وہ اللہ جو دل کی مخفی اور ظاہر باتوں کو جانتا ہے، وہ اللہ جو بڑے تخت کا مالک ہے، یعنی اس کے تخت کے آگے ان کے تخت کی کیا حقیقت ہے ؟ یہاں تک ہدہد کی گفتگو تھی جو تمام ہوئی، اب سلیمان (علیہ السلام) اس کے جواب میں فرماتے ہیں، سسنظر اصدقت الخ کہ ہم دیکھتے ہیں تو جھوٹا ہے کہ سچا ہے ؟ جا تو میرا یہ نامہ لے جا اور جاکر اوپر سے ڈال دینا، پھر چھپ کر دیکھنا کہ وہ آپس میں کیا کہتے ہیں۔ قصہ بلقیس : سلیمان (علیہ السلام) نے نامہ لکھا جس کا یہ عنوان تھا۔ بسم اللہ الرحمن الا تعلوا علی و اْتونی مسلمین۔ اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے۔ اس کے بعد واضح ہو کہ تم میرے پاس مطیع ہو کر حاضر ہوجاؤ اور تکبر نہ کرو اب یہ کچھ ضرور نہیں کہ سلیمان ( علیہ السلام) نے بعینہٖ یہی لکھا ہو بلکہ ممکن ہے کچھ اور ہو جس کا خلاصہ خدا تعالیٰ نے یہ بیان کردیا، لیکن سرنامہ پر بسم اللہ لکھی تھی، یہ نامہ عبرانی زبان میں تھا۔ ہدہد نامہ لے کر گیا اور ان پر جاکر ڈال دیا، یعنی بلقیس کے تخت پر اس نے پڑھا اور اپنے ارکان دولت سے ذکر کیا کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ سلیمان ( علیہ السلام) کے پاس جائوں یا نہ جائوں۔ سبا 1 ؎ یشجب کا بیٹا اور وہ یعرب کا اور وہ قحطان کا جو تمام قبائلِ یمن کا باپ تھا، پھر سبا کی بہت سی اولاد تھی، پھر اسی کے نام سے یمن میں ایک شہر سبا بسا جو صنعا سے تین دن کے فاصلہ پر ہے، سباء سے مراد اگر قبیلہ ہے تو غیر منصرف ہے، ورنہ منصرف (ک) بلقیس الہدہاد کی بیٹی وہ شرجیل کا بیٹا وہ ذوی الاذغار کا وہ افریقن کا وہ ذوی المنار کا جس کو ابرہہ بھی کہتے تھے، وہ صعب کا جس کو ذوالقرنین کہتے تھے وہ حارث الرائش کا جس کو تبع اول کہتے تھے۔ کئی پشت آگے چل کر اس کا نسب نامہ حمیر سے ملتا ہے جو سباء مذکور کا بیٹا تھا، اسی سباء نے مآ رب کی زمین پر ایک پختہ بند بندھواکر تالاب کے طور پر پانی جمع کیا تھا، جس سے چھوٹی چھوٹی نہروں کے ذریعہ سے ملک میں بڑی سرسبزی تھی۔ آخر لوگوں کی ناشکری سے وہ بند ٹوٹا اور ملک برباد ہوا، جیسا کہ سورة سباء میں مذکور ہے۔ شداد بن عاد بن الماطاط بن سباء بھی سباء کی نسل میں سے تھا۔ بلقیس ان ہی کے تخت پر بیٹھی تھی، اس قوم کی بڑی شان و شوکت کی سلطنت ہوچکی ہے، ان کے آثار اب تک ملک یمن میں پائے جاتے ہیں۔ ازتاریخ ابو الفداء ناقلاً عن ابی سعید المغربی۔ 12 منہ
Top