Urwatul-Wusqaa - Maryam : 43
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ قَدْ جَآءَنِیْ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ یَاْتِكَ فَاتَّبِعْنِیْۤ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِیًّا
يٰٓاَبَتِ : اے میرے ابا اِنِّىْ : بیشک میں قَدْ جَآءَنِيْ : بیشک میرے پاس آیا ہے مِنَ الْعِلْمِ : وہ علم مَا : جو لَمْ يَاْتِكَ : تمہارے پاس نہیں آیا فَاتَّبِعْنِيْٓ : پس میری بات مانو اَهْدِكَ : میں تمہیں دکھاؤں گا صِرَاطًا : راستہ سَوِيًّا : سیدھا
اے میرے باپ ! میں سچ کہتا ہوں علم کی ایک روشنی مجھے مل گئی ہے جو تجھے نہیں ملی پس میرے پیچھے پیچھے چل ، میں تجھے سیدھی راہ دکھاؤں گا
اپنی تقری کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا علم کی روشنی تو میرے پاس ہے : 43۔ سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اپنے والد سے فرمایا کہ اے ابو ! میں سچ کہتا ہوں کہ جو روشنی مجھے عطا ہوئی ہے وہ تجھے نصیب نہ ہوئی تھی اس لئے اس معاملہ میں آپ میرے پیچھے لگ جائیے میں آپ کو سیدھی راہ بتاؤں گا ، ظاہر ہے کہ یہ کلمات ان لوگوں کی نگاہ میں بہت سخت تھے کہ کوئی بیٹا اٹھ کر اپنے باپ کو اس طرح مخاطب کرے جس طرح سدانا ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے والد کو مخاطب کرنا شروع کیا لیکن یہ کوئی دنیوی باتیں نہ تھیں بلکہ رموز الہی کا معاملہ تھا جو کچھ ابراہیم (علیہ السلام) پیش کر رہے تھے ان کی اپنی صوابدید نہ تھی بلکہ پیغام الہی تھا اور اس کا پہنچانا لازم بھی تھا اور یہ بھی ضروری تھا کہ اس کو اسی طرح پہنچایا جائے جس طرح ان کو پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) نے ادب ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خاطر رکھتے ہوئے اللہ کا پیغام ایسے نازک حالات میں اور ایسی نازک جگہ پر بھی من وعن پہنچا دیا اور دنیا والوں پر ثابت کردیا کہ توحید کا پیغام پہنچانے کے لئے مصلحت اندیشی کرنے والے کبھی مخلص نہیں ہوسکتے بلکہ اخلاص اس میں ہے کہ بغیر پروا کئے پیغام الہی پہنچایا جائے ، اور وہی کچھ انہوں نے کیا سورة الانعام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ابراہیم کو ہم نے ایسی معراج کرا دی تھی کہ اس پر اس کی پوری حقیقت واضح ہوچکی تھی لہذا اس نے ملامت کرنے والوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو حق تھا وہ والد کے کانوں تک خوب اچھی طرح پہنچا دیا اور ذرا گستاخی بھی والد کی نہیں ہونے پائی گویا انداز بیان اتنا صاف اور اتنا پاکیزہ تھا کہ بات بھی کی اور تو تو اور میں میں بیح نہیں کیا بلکہ بڑے احترام سے بات کی جس طرح ایک نیک سرشت بیٹا باپ سے مخاطب ہو کر بات کرسکتا ہے ، بات اگرچہ سخت تھی لیکن چونکہ حق تھی اس لئے حق والے حق کہنے سے نہیں ڈرتے سامنے خواہ کون ہو اور وہ چاہے کیا کر دے ؟
Top