Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب ان پر بیٹھ جاؤ پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو اور کہو کہ وہ پاک ہے جس نے اس کو ہمارے زیر فرمان کردیا اور ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو بس میں کرلیتے
13۔ 15۔ صحیح 2 ؎ مسلم ابو داؤود ترمذی نسائی مستدرک حاکم اور تفسر ابن مردویہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ ؓ بن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ جس وقت سفر کے ارادہ سے سوار ہوا کرتے تھے تو یہ آیت پڑھا کرتے تھے قرطبی 3 ؎ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خشکی میں چوپایوں پر سوار ہونے کے وقت یہ آیت اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے قصہ میں بسم اللہ مجریھا و مرساھا۔ کشتی پر سوار ہونے کے وقت سکھائیں چوپائے اور کشتی کی سواری خوفناک چیز ہے اور کبھی کبھی یہی سواری آدمی کے ہلاک ہوجانے کا سبب پڑجاتی ہے۔ اب شرعی تعلیم کے موافق جو شخص خشکی یا تری کی سواری کے وقت ان آیتوں کو پڑھے گا تو گویا موت کے سبب کے وقت بھی اللہ کے ذکر سے غافل نہ شمار کیا جائے گا بعض مفسروں نے سوار ہونے کے وقت ان آیتوں کا مطلب دل میں تصور کرنا کافی بتایا ہے لیکن صحیح طریقہ یہی ہے کہ ان آیتوں کو زبان سے پڑھنا اور ان کے مطلب کو دل میں خیال کرنا چاہئے حضرت عبد 4 ؎ اللہ ؓ بن عباس کے صحیح قول کے موافق وما کنا لہ مقرنین کی تفسیریہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے چوپایوں اور کشتی کو ہمارے قابو میں کردیا ہے ورنہ ہم میں ہرگز یہ طاقت نہیں تھی کہ ہم ان چیزوں کو قابو کرسکتے وانا الی ربنا لمنقلبون کی تفسیر حافظ ابو جعفر 5 ؎ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں وہی قرار دی ہے جو معنی شاہ صاحب نے اردو فائدہ میں لکھے ہیں کہ دنیا کے سفر سے آخرت کے سفر کا دھیان کرنا چاہئے کہ اب آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان پر یہ احسانات کئے کہ انسان کو اور اس کی ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا لیکن انسان ایسا ناشکر ہے کہ اس نے بجائے ان نعمتوں کی شکر گزاری کے یہ ناشکری کی کہ بغیر کسی سند کے اللہ کو صاحب اولاد ٹھہرایا۔ (2 ؎ تفسیر فتح القدیر ص 535 ج 2۔ ) (3 ؎ تفسیر طبری ص 54 پارہ 25۔ ) (4 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 14 ج 6۔ ) (5 ؎ تفسیر طبری ص 54 پارہ 25۔ )
Top