Maarif-ul-Quran - Az-Zukhruf : 13
لِتَسْتَوٗا عَلٰى ظُهُوْرِهٖ ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْهِ وَ تَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِیْنَۙ
لِتَسْتَوٗا : تاکہ تم چڑھ بیٹھو عَلٰي ظُهُوْرِهٖ : ان کی پشتوں پر ثُمَّ تَذْكُرُوْا : پھر تم یاد کرو نِعْمَةَ رَبِّكُمْ : اپنے رب کی نعمت کو اِذَا اسْتَوَيْتُمْ : جب سوار ہو تم عَلَيْهِ : اس پر وَتَقُوْلُوْا : اور تم کہو سُبْحٰنَ الَّذِيْ : پاک ہے وہ ذات سَخَّرَ لَنَا : جس نے مسخر کیا ہمارے لیے ھٰذَا : اس کو وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم لَهٗ : اس کے لیے مُقْرِنِيْنَ : قابو میں لانے والے
تاکہ چڑھ بیٹھو تم اس کی پیٹھ پر پھر یاد کرو اپنے رب کا احسان جب بیٹھ چکو اس پر اور کہو پاک ذات ہے وہ جس نے بس میں کردیا ہمارے اس کو اور ہم نہ تھے اس کو قابو میں لا سکتے
(آیت) ثُمَّ تَذْكُرُوْا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ (اور تاکہ تم یاد کرو اپنے پروردگار کی نعمت کو) اس سے اشارہ فرما دیا گیا کہ ایک صاحب عقل و ہوش انسان کا کام یہ ہے کہ وہ منعم حقیقی کی نعمتوں کو استعمال کرتے ہوئے غفلت، بےپروائی، اور استغناء کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اس بات پر دھیان دے کہ یہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے لہٰذا مجھ پر اس کے شکر کی ادائیگی اور عجز و نیاز کا اظہار واجب ہے۔ ایک کافر اور مومن میں درحقیقت یہی فرق ہے کہ کائنات کی نعمتوں کو دونوں استعمال کرتے ہیں لیکن کافر انہیں غفلت اور بےپروائی سے استعمال کرتا ہے اور مومن اللہ کے انعامات کو مستحضر کر کے اپنا سر نیاز اس کے حضور جھکا دیتا ہے۔ اسی مقصد سے قرآن و حدیث میں مختلف کاموں کی انجام دہی کے وقت صبر و شکر کے مضامین پر مشتمل دعائیں تلقین کی گئی ہیں۔ اور اگر انسان اپنی روزمرہ زندگی میں اٹھتے، بیٹھتے، چلتے پھرتے ان دعاؤں کو اپنا معمول بنا لے تو اس کا ہر مباح کام بھی عبادت بن جاتا ہے۔ یہ دعائیں علامہ جزری کی کتاب ”حصن حصین“ اور حکیم الامت حضرت تھانوی کی ”مناجات مقبول“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
سفر کے وقت کی دعائیں
(آیت) سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا الخ (پاک ہے وہ ذات جس نے اس کو ہمارے لئے مسخر کردیا) یہ سواری پر بیٹھ کر پڑھنے کی دعا ہے۔ چناچہ آنحضرت محمد ﷺ سے متعدد روایات میں منقول ہے کہ آپ سواری پر بیٹھتے وقت یہ کلمات پڑھا کرتے تھے اور سوار ہونے کا پورا مستحب طریقہ حضرت علی سے یہ منقول ہے کہ سواری پر پاؤں رکھتے وقت بسم اللہ کہے، پھر سوار ہوجانے کے بعد الحمدللہ اور اس کے بعد یہ کلمات سُبْحٰنَ الَّذِيْ سَخَّــرَ لَنَا ھٰذَا سے لمنقلبون تک (قرطبی) نیز آنحضرت ﷺ سے یہ بھی مروی ہے کہ اگر آپ کسی سفر پر جا رہے ہوتے تو مذکورہ کلمات کے بعد یہ دعا بھی پڑھتے تھے۔ اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاھل والمال اللھم انی اعوذبک من وعثاء السفر وکابۃ المنقلب، والحوار بعد الکور وسوء المنظر فی الاھل والمال اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں اللھم لا الہ الاانت ظلمت نفسی فاغفرلی انہ لایغفر الذنوب الا انت۔ (قرطبی)
آیت) وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ) (اور ہم تو ایسے نہ تھے جو ان کو قابو میں کرلیتے) یہ بات مشینی سواریوں پر بھی اسی طرح صادق آتی ہے جس طرح جانوروں اور چوپایوں پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا خام مواد پیدا نہ کرتا، یا اس میں وہ خواص و آثار نہ رکھتا یا انسانی دماغ کو ان خواص کے دریافت کرنے کی طاقت نہ بخشتا تو ساری کائنات مل کر بھی ایسی سواریاں پیدا نہ کرسکتی تھی۔
Top