Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 107
وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ١۪ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ١۪۫ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو اِذَا : جب فَعَلُوْا : وہ کریں فَاحِشَةً : کوئی بےحیائی اَوْ : یا ظَلَمُوْٓا : ظلم کریں اَنْفُسَھُمْ : اپنے تئیں ذَكَرُوا اللّٰهَ : وہ اللہ کو یاد کریں فَاسْتَغْفَرُوْا : پھر بخشش مانگیں لِذُنُوْبِھِمْ : اپنے گناہوں کے لیے وَ مَنْ : اور کون يَّغْفِرُ : بخشتا ہے الذُّنُوْبَ : گناہ اِلَّا اللّٰهُ : اللہ کے سوا وَلَمْ : اور نہ يُصِرُّوْا : وہ اڑیں عَلٰي : پر مَا فَعَلُوْا : جو انہوں نے کیا وَھُمْ : اور وہ يَعْلَمُوْنَ : جانتے ہیں
بیشک اللہ ‘ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں۔
اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ ۔ ط ھُوَالَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ ط لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ لْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (بےشک اللہ ‘ کوئی چیز اس سے مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں، وہی ہے جو تمہاری صورت گری کرتا ہے رحموں میں جس طرح چاہتا ہے، کوئی معبود نہیں بغیر اس کے، وہ غالب اور حکیم ہے) (5 تا 6) زمین و آسمان میں جو کچھ ہوتا ہے اور انسان جس طرح کے مشاغل میں مصروف رہتا ہے اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا کہ جنگل میں درخت سے کوئی خشک پتہ گرتا ہے یا کوئی پھل ٹپکتا ہے تو وہ اللہ کے علم میں ہے۔ کائنات میں ہونے والی کوئی حرکت اس کی سماعت سے دور نہیں اور کوئی وقوع پذیر ہونے والا واقعہ اس کی نگاہوں سے مخفی نہیں۔ سمندر کی نچلی تہہ میں کوئی مچھلی حرکت کرتی ہے تو وہ اس کی آواز کو سنتا ہے اور اس کی حرکتوں کو دیکھتا ہے اور مزید یہ بات کہ وہی تو ہے جو ماں کے رحم میں بچے کے نین نقش بناتا ہے ‘ اس کی صورت آرائی کرتا ہے ‘ گوشت کے لوتھڑے میں ہونے والے اس عمل سے کوئی واقف نہیں ہوتا ‘ اللہ تعالیٰ ایک ایک تبدیلی سے آگاہ ہوتا ہے۔ ایک دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا اَلاَ یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ (کیا وہی نہیں جانے گا جس نے پیدا کیا ؟ ) کہ خالق اگر اپنی مخلوقات کے حالات سے بیخبر ہے تو پھر باخبر کون ہوگا ؟ اس لیے اس غلط فہمی کا کوئی موقع نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو کیا خبر کہ کوئی شخص کن حالات میں ہے۔ مزید فرمایا : ایک غلط فہمی کا ازالہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ (کوئی معبود نہیں مگر وہی ‘ وہ غالب اور حکمت والا ہے) یہ بھی ایک غلط فہمی کا ازالہ ہے کہ جو ذات ہر طرح کے علم سے بہرہ ور ہے اور جس کا علم ہر شے پر محیط ہے اور جس کی صفت عدل کرنا ہے ‘ وہ اگر اللہ کے دین کا انکار کرنے والوں کو نہ پکڑے اور زمین کو فساد سے بھردینے والوں کا ازالہ نہ کرے تو اس کی دو ہی وجہ ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ایسا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ وہ عدل کرنا چاہتا ہے لیکن انسانوں کو سزا دینے کی اس میں قدرت نہیں۔ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو اللہ کی صفات سے بیخبر ہو اور جس کے سامنے ان قوموں کی تاریخ نہ ہو جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئیں اور دنیا سے مٹ گئیں اور دوسری وجہ غلط کار لوگوں کو نہ پکڑنے کی یہ ہوسکتی ہے کہ اسے قدرت تو بہرصورت حاصل ہے ‘ لیکن وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ برے لوگوں کو پکڑا جائے اور نیک لوگوں کو نیکی پر جزاء دی جائے۔ اگر نعوذ باللہ من ذالک یہ سمجھ لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اہل زمین کی تخلیق محض ایک کھلنڈرے کا کھیل ہے ‘ جس میں کوئی حکمت نہیں۔ اللہ نے تفریح طبع کے طور پر اس کائنات کو پیدا کردیا اور انسان کو زمین کی خلافت دے دی۔ اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ زمین میں خیر ہو یا شر ‘ ظلم ہو یا انصاف ؟ حالانکہ اللہ کی صفت عدل کا تقاضا اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسی لیے اس نے قرآن پاک میں متعدد جگہ پر ارشاد فرمایا کہ ہم نے زمین و آسمان کو کھیلتے ہوئے پیدا نہیں کیا ‘ اس کی پیدائش میں ایک حکمت ہے ‘ اس کے پیدا کرنے کا ایک مقصد ہے ‘ ان دونوں باتوں کے ازالے کے لیے فرمایا کہ اللہ عزیز ہے ‘ یہ نہ سمجھو کہ اسے برے لوگوں کے پکڑنے پر قدرت حاصل نہیں۔ لیکن وہ ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے۔ اس کے ہر کام میں عدل و حکمت کارفرما ہے۔ جب تک اس کی حکمت کا تقاضا نہیں ہوتا اس کی قدرت حرکت میں نہیں آتی۔ جو لوگ زمین میں فساد مچا رہے ہیں ‘ انھیں پکڑنے میں جلدی نہ کرنا ‘ درحقیقت انھیں سنبھلنے کی مہلت دینا ہے اور جب یہ مہلت ختم ہوجاتی ہے تو پھر وہ اللہ کی گرفت سے کبھی نہیں بچ سکتے۔
Top