Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 11
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَۙ
قُلْ : فرما دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کروں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
(اور یہ بھی کہو) مجھ کو تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں خالص اسی کا ہو کر اللہ کی عبادت کیا کروں
ترکیب : ان اعبد اللّٰہ مفعول لامرت مخلصًا حال من الضمیر الفاعل فی اعبد الذین منصوب بمخلص لان اللام زائدۃ والجملۃ مفعول مالم یسم فاعلہ لامرت ویمکن ان یکون المفعول ضمیر افی امرت ای انا ولان متعلق بامرت واول المسلمین خبرا کون عذاب الخ مفعول لاخاف ان عصیت ربی شرط و جو ابہ محذوف الذین خسروا خبران یوم القیامۃ منصوب بخسروا ظلل جمع ظلہ مبتدء لہم خبرہ من فوقہم حال من ظلل ای کانتہ من فوقہم من النار لغت لھا۔ تفسیر : (2) دوسری بات جس کے کہنے کا رسول کو حکم دیا۔ یہ ہے، قل انی امرت ان اعبداللہ، اول تو انسان کی درستی کے لیے نازیبا باتوں کا ترک لازم ہے تاکہ آئینہ دل اور نقش و نگار سے صاف ہوجاوے، تب اس پر مرغوب نقش ہوگا۔ اس لیے اول تقویٰ کا حکم دیا تھا، اس کے بعد عمدہ باتوں کا عمل میں لانا ہے۔ ایمان و اسلام کے معنی عمدہ باتوں میں سب سے مقدم عبادت ہے، پھر اس کے دو رکن ہیں، ایک عمل قلب یعنی اخلاص و حسن عقیدت جس میں ریا کاری و شرک کی بو بھی نہ ہو اس لیے اس کو اس جملہ میں بیان فرمایا کہ کہہ دے مجھے عبادتِ الٰہی کا نہ اور کسی کا حکم ہوا اور وہ بھی اخلاص کے ساتھ، اس کو ایمان بھی کہتے ہیں۔ یہ اعلیٰ رکن ہے، اس لیے اس کو مقدم کیا۔ دوسرا رکن ہاتھ پائوں، اعضاء کو کام میں لانا، اس کو بعد میں بیان کیا، فقال و امرت لان اکون اول المسلمین کہ مجھے یہ بھی حکم ہوا ہے کہ میں سب سے اول اور امر الٰہی کو بجا لائوں۔ ایمان و اسلام کے معنی : الاسلام گردن نہادن، یعنی فرمانبرداری کرنا۔ شروع میں گو ایمان و اسلام دونوں لفظوں سے ایک ہی بات سمجھی جایا کرتی ہے، مگر لغوی معنی کے لحاظ سے دونوں میں فرق ہے، ایمان اعتقاد صحیح ‘ اللہ اور رسول اور قیامت اور ملائکہ و کتابوں کو برحق جاننا اور اسلام نماز و زکوٰۃ و حج و روزہ ادا کرنا ‘ زبان سے توحید و رسالت کا اقرار کرنا۔ جیسا کہ صحیحین میں آیا ہے کہ جبرئیل ( علیہ السلام) نے لوگوں کے سکھانے کے لیے آنحضرت ﷺ سے ایمان و اسلام کے معنی پوچھے اور آپ نے یہی جواب دیا۔ (3) ان احکام میں اس بات کا بھی احتمال ہوسکتا ہے کہ ایسا کرنا بھی بہتر ہے، اگر نہ کرے تو کوئی حرج بھی نہیں، اس بات کو اس جملہ میں کہلوادیا قل انی اخاف الخ کہ ان سے کہہ دے کچھ تمہارے لیے نہیں بلکہ مجھے بھی خوف ہے کہ اگر میں ان احکام میں نافرمانی کروں گا تو بڑے دن یعنی قیامت میں عذاب ہوگا، یعنی یہ امر وجوب کے لیے ہے۔ فائدہ : رسول کو ان باتوں میں مامور کرنے سے یہ بات بتلائی گئی کہ بادشاہوں کی طرح سے معاملہ نہیں کہ اوروں کے لیے حکم دیں اور آپ عمل نہ کریں اور یہ بھی ہے کہ جو آپ عمل نہیں کرتا اور ان کو کہتا ہے، اس کی بات کی تاثیر نہیں ہوتی اور نیز مخاطب کو دغدغہ باقی رہتا ہے اور خود کرنے میں اور سب سے پہلے کرنے میں اطمینان ہوجاتا ہے اور نیز اس میں ادنیٰ و اعلیٰ کا فرق بھی اٹھادیا گیا۔ (4) حکم دینے کے بعد رسول کی زبان سے اس کے اقرار کرنے کا بھی حکم دیا کہ قل اعبداللہ الخ میں تو خالص اللہ کی عبادت کرتا ہوں بموجب حکم الٰہی تمہیں اختیار ہے جس کی چاہو کرو ‘ نیک و بدبتلا دیا گیا۔ (5) قل ان الخاسرین ان سے کہہ دے ان باتوں پر عمل کرنے سے کوئی خرابی و نقصان نہیں بلکہ نقصان اور خسارہ ان کو ہے کہ جنہوں نے اس پر نہ آپ عمل کیا نہ اپنے لوگوں کو کرنے دیا، قیامت کے دن آپ بھی نقصان میں پڑا اور اپنے اہل و عیال کو بھی ڈالا، یہ بڑا خسارہ ہے، ان پر اس روز آگ چاروں طرف سے محیط ہو کر سایہ کرے گی، یہی تو وہ بات ہے کہ جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے، اے میرے بندوں ڈرو اور بچو۔
Top