Mazhar-ul-Quran - Az-Zumar : 11
قُلْ اِنِّیْۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَۙ
قُلْ : فرما دیں اِنِّىْٓ اُمِرْتُ : بیشک مجھے حکم دیا گیا اَنْ : کہ اَعْبُدَ اللّٰهَ : میں اللہ کی عبادت کروں مُخْلِصًا : خالص کر کے لَّهُ : اسی کے لیے الدِّيْنَ : عبادت
2، تم فرماؤ، مجھے حکم ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں خالص اس کا بندہ ہوکر
نیک اور بد کا انجا۔ (ف 2) کافروں نے کہا، اے رسول ﷺ تم بت پرستی چھڑاتے ہو اس کو برا کہتے ہو آخرہم نے تو نہیں نکال لی، پرانے زمانوں سے بڑے بڑے عقلاء اور باپ دادا کرتے چلے آئے کسی نے بھی برا کہا، تم کو چاہیے کہ انہیں کی اتباع پرچلو، اور خلاف راہ آبائی جو باتیں کررہے ہو ان کو ترک کردو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محبوب ﷺ تم ان سے کہہ دو کہ مجھ کو اللہ کی طرف سے یہ حکم دیاگی ا ہے کہ فقط اسی کی عبادت کروں توحید خالص نہایت اخلاص سے سچے دل سے مانوں اور اپنا دین عبادت اسی کے لیے مخصوص کردوں، اور یہ کہ اس زمانہ میں کہ توحید کا نام باقی نہ رہا ہے ، میں سب پہلے خود مسلمان ہوں بعد میں اوروں کو کروں، پھر فرمایا اے محبوب کہہ دو کہ تم تو مجھ کو اپنے دین کی طرف بلاتے ہو اور خدا کا حکم یوں ہے کہ تو اگر میں تمہارا کہا مانوں اور خدا کی نافرمانی کروں تو عذاب کا مستحق ہوجاؤں اور مجھ کو ڈر ہے کہ بڑے ہولناک دن میں مجھ کو سزا نہ ملے پھر فرمایا کہ اے محبوب ﷺ ، صاف صاف کہہ دو کہ میں تو اس دعوت توحید سے ہرگز نہ منہ موڑوں گا اور اللہ ہی کی سچے خالص دل سے عبادت کرتا ہوں اب تم کو اختیار ہے کہ جو چاہو کروجومذہب چاہورکھو جس کو چاہوپوجو، شرک کروخود ہی سزا پاؤ گے، یہ اجازت شرک نہیں بلکہ غصہ اور خفگی اور تہدید ہے اے محبوب ﷺ کہ دو کہ ٹوٹے اور نقصان والے تو وہ ہیں جو اپنے ہاتھوں اپنانقصان کررہے ہیں اپنے کو آپ مصیبت میں پھنسار رہے ہیں اور اچھی اچھی چیزیں عمدہ عمدہ گھر بار جو ان کے لیے ہیں اس کو چھوڑ کر عذاب لیتے ہیں بروز قیامت وہ ٹوٹے میں پڑیں گے اور ان کافروں کے لیے دوزخ میں آگ کے سائبان ہیں ، اوپر بھی اور نیچے بھی ہر طرف سے آگ محیط ہوگی جیسے گھٹاچھاجاتی ہے یہ عذاب ہے جس سے خدا اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور قرآن میں سمجھاتا ہے اے لوگو، سمجھ لو یہ چیز ڈرنے کے قابل ہے یا نہیں، اگر ہے تو اللہ کے غضب سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔
Top