بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Mafhoom-ul-Quran - Adh-Dhaariyat : 1
وَ الذّٰرِیٰتِ ذَرْوًاۙ
وَالذّٰرِيٰتِ : قسم ہے پراگندہ کرنیوالی ( ہواؤں) ذَرْوًا : اڑاکر
بکھیرنے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں
ہواؤں کی قسم اور ہواؤں کے معمولات تشریح : ان آیات میں اللہ رب العزت اپنے بندوں سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ہواؤں کی قسم کھاتے ہوئے یقین دلاتا ہے کہ ” انصاف کا دن ضرور واقع ہوگا “۔ ہواؤں کی قسم اس لیے کھاتا ہے کہ یہ بھی کائنات کے کارخانہ کا ایک بڑا اہم اور عام فہم سا پرزہ ہے۔ مگر ہے بڑا اہم کیونکہ ان کی موجودگی انسانی زندگی اور اس کی ضروریات زندگی پورا کرنے والے اہم اجزاء کی تکمیل حیات اور نشوونما کے لیے بےحد ضروری ہے۔ کیونکہ دنیا کی ہر چیز زندہ ہے اور زندگی کی بقاء کے لیے ہوا بےحد ضروری جزو ہے۔ تیز چلتی ہیں تو تخم پاشی یعنی بیجوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں اور یہ بیج لگانے کا قدرتی عمل ہوتا ہے۔ شہروں کی گندی ہوا جنگلوں کو لے جاتی ہیں۔ مراکز میں الگ الگ ٹمپریچر کی وجہ سے حملی رو (Convectional Currents) ہوا میں بلند ہوتی ہیں۔ ہر طرف سے آنے والی ہوائیں زمین کے ہر مقام تک پہنچتی ہیں۔ زمین کی ساخت اور پہاڑوں کے مناسب سلسلے ہواؤں کے پیدا کرنے اور ان کو مناسب رفتار اور مناسب ٹمپریچر دینے کے لیے بےحد ضروری ہیں۔ ڈاکٹر ہلوک نور باقی صاحب اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں۔ ” اللہ نے زمین کو 23.5 ڈگری کے جھکاؤ پر بنایا ہے۔ اس طرح قطب شمالی اور قطب جنوبی کے ٹھنڈا ہونے کا عمل اور سورج کا اثر سال کے ہر دن میں مختلف ہوتا ہے۔ اس طرح ہواؤں کی رفتاروں میں کمی کا اثر بھی پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے استوا کے علاقے اور ہر ایک زمینی قطب کے درمیان ٹمپریچر کا فرق کم ہوتا ہے ہوائیں بھی زیادہ متناسب رفتار سے چلنا شروع ہوتی ہیں۔ کیونکہ کرہ باد (فضا) کی موٹائی قطبین کی نسبت استوائی خطے پر مختلف ہوتی ہے اس لیے کرہ باد کے اوپری اور نچلے حصے میں ہواؤں کی رفتار بھی ان دونوں حصوں پر مختلف ہوگئی۔ اس طرح ہواؤں میں گرم اور ٹھنڈے رخ کے نظام پیدا ہوئے اور ہواؤں میں یہ خاصیت بھی پیدا ہوگئی کہ وہ کسی ایک سمت میں چلنے کی بجائے مختلف سمتوں میں چلتی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے زمین پر پہاڑوں کے نمونوں کی ایک طرح سے کشیدہ کاری اس انداز میں کردی ہے کہ زمین پر سال کے ہر دن ہوا کا ایک نیا رخ پیدا ہوتا ہے اور ہوا ہر سمت سے چلتی ہے۔ ہواؤں کی یہ مہم یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی اللہ نے کرہ باد کو دو ایسی اہم خصوصیات عطا کی ہوئی ہیں تاکہ گرم اور سرد مراکز میں ٹمپریچر کا فرق ضرورت سے زیادہ نہ بڑھ جائے اور ہوائیں ناقابل برداشت نہ ہوجائیں۔ پہلی خصوصیت اوزون کی تہہ ہے جو ضرورت سے زیادہ شمسی حرارت کو اپنے اندر جذب کر کے ٹمپریچر کو بےقابو نہیں ہونے دیتی دوسری خصوصیت ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کمبل جیسا اثر ہے جو زمین کو ٹھنڈا یخ ہونے سے بچاتی ہے۔ اگر یہ نظام موجود نہ ہوتا تو وہ آندھیاں جو ہمیں خوفزدہ کرتی ہیں ان ہواؤں کے مقابلہ میں نرم رو نسیم سحر کی طرح ہوتیں۔ دراصل طوفان اور شدید آندھیوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں دکھایا جائے کہ ہوائیں اصل میں کس طرح کی ہوتی ہیں “ ؟ (از قرآنی آیات اور سائنسی حقائق) یہ توضیحات تو کچھ لمبی ہی ہوگئی ہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ میں ہم اس کو یوں بھی بیان کرسکتے ہیں۔ کہ ہماری کائنات کے نظم ونسق میں ہواؤں کا بہت زیادہ اور اہم حصہ ہے۔ کیونکہ جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس کو اختصار سے یوں کہیں گے کہ سمندر کے پانی کو دور دراز علاقوں میں زراعت اور دیگر کاموں کے لیے لے جانا اور تمام مخلوقات کے کھانے پینے نہانے دھونے اور صنعت وحرفت کو چلانے کا کام ہواؤں کے ہی ذمہ ہے اور پھر پانی کی زیادتی اور کمی کو روکنا یہ بھی ہواؤں کے ہی ذریعہ سے ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کبھی تیز چلتی ہیں کبھی بخارات کو اوپر اٹھاتی ہیں کبھی بھاری بادلوں کو دھکیل کر دور دراز لے جاتی ہیں پھر مناسب جگہ پر مناسب مقدار میں پانی برساتی ہیں اور باقی بادلوں کو کسی اور ضرورت کی جگہ پر لے جاتی ہیں۔ تو یہ اس قدر اہم ڈیوٹی دے رہی ہیں تو اس قدر اہم جزوِ کائنات کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ کس بات کی یاددہانی میں زور شدت اور پختگی پیدا کر رہا ہے کہ ” انصاف کا دن ضرور واقع ہوگا “۔ (آیت 6) پھر بھی انسان دھیان نہ دے اپنے اعمال اور انجام کی طرف تو پھر اس کی مرضی ہے۔
Top