Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 11
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
جو شخص محض ثوابِ دُنیا کو طالب ہو اسے معلوم ہو نا چاہیے کہ اللہ کےپاس ثوابِ دُنیا بھی ہے اور ثوابِ آخرت بھی ، اور اللہ سمیع و بصیر ہے۔163
سورة النِّسَآء 163 بالعموم قانونی احکام بیان کرنے کے بعد، اور بالخصوص تمدن و معاشرت کے ان پہلووں کی اصلاح پر زور دینے کے بعد جن میں انسان اکثر ظلم کا ارتکاب کرتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ اس قسم کے چند پر اثر جملوں میں ایک مختصر وعظ ضرور فرمایا کرتا ہے اور اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ نفوس کو ان احکام کی پابندی پر آمادہ کیا جائے۔ اوپر چونکہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کی ہدایت کی گئی ہے لہٰذا اس کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ چند باتیں اہل ایمان کے ذہن نشین کردی جائیں ایک یہ کہ تم کبھی اس بھلاوے میں نہ رہنا کہ کسی کی قسمت کا بنانا اور بگاڑنا تمہارے ہاتھ میں ہے، اگر تم اس سے ہاتھ کھینچ لو گے تو اس کا کوئی ٹھکانہ نہ رہے گا۔ نہیں، تمہاری اور اس کی سب کی قسمتوں کا مالک اللہ ہے اور اللہ کے پاس اپنے کسی بندے یا بندی کی مدد کا ایک تم ہی واحد ذریعہ نہیں ہو۔ اس مالک زمین و آسمان کے ذرائع بےحد وسیع ہیں اور وہ اپنے ذرائع سے کام لینے کی حکمت بھی رکھتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمہیں اور تمہاری طرح پچھلے تمام انبیاء کی امتوں کو ہمیشہ یہی ہدایت کی جاتی رہی ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ کام کرو۔ اس ہدایت کی پیروی میں تمہاری اپنی فلاح ہے، خدا کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر تم اس کی خلاف ورزی کرو گے تو پچھلی تمام امتوں نے نافرمانیاں کر کے خدا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو تم بگاڑ سکو گے۔ اس فرمانروائے کائنات کو نہ پہلے کسی کی پروا تھی نہ اب تمہاری پروا ہے۔ اس کے امر سے انحراف کرو گے تو وہ تم کو ہٹا کر کسی دوسری قوم کو سر بلند کر دے گا اور تمہارے ہٹ جانے سے اس کی سلطنت کی رونق میں کوئی فرق نہ آئے گا۔ تیسرے یہ کہ خدا کے پاس دنیا کے فائدے بھی ہیں اور آخرت کے فائدے بھی، عارضی اور وقتی فائدے بھی ہیں، پائیدار اور دائمی فائدے بھی۔ اب یہ تمہارے اپنے ظرف اور حوصلے اور ہمت کی بات ہے کہ تم اس سے کس قسم کے فائدے چاہتے ہو۔ اگر تم محض دنیا کے چند روزہ فائدوں ہی پر ریجھتے ہو اور ان کی خاطر ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کردینے کے لیے تیار ہو تو خدا یہ کچھ تم کو یہیں اور ابھی دے دے گا، مگر پھر آخرت کے ابدی فائدوں میں تمہارا کوئی حصہ نہ رہے گا۔ دریا تو تمہاری کھیتی کو ابد تک سیراب کرنے کے لیے تیار ہے، مگر یہ تمہارے اپنے ظرف کی تنگی اور حوصلہ کی پستی ہے کہ صرف ایک فصل کی سیرابی کو ابدی خشک سالی کی قیمت پر خریدتے ہو۔ کچھ ظرف میں وسعت ہو تو اطاعت و بندگی کا وہ راستہ اختیار کرو جس سے دنیا اور آخرت دونوں کے فائدے تمہارے حصہ میں آئیں۔ آخر میں فرمایا اللہ سمیع وبصیر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اندھا اور بہرا نہیں ہے کہ کسی شاہ بیخبر کی طرح اندھا دھند کام کرے اور اپنی عطاؤ بخشش میں بھلے اور برے کے درمیان کوئی تمیز نہ کرے۔ وہ پوری با خبری کے ساتھ اپنی اس کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ ہر ایک کے ظرف اور حوصلے پر اس کی نگاہ ہے۔ ہر ایک کے اوصاف کو وہ جانتا ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ تم میں سے کون کس راہ میں اپنی محنتیں اور کوششیں صرف کر رہا ہے۔ تم اس کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے ان بخششوں کی امید نہیں کرسکتے جو اس نے صرف فرماں برداری ہی کے لیے مخصوص کی ہیں۔
Top