Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 2
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ اَنْ یَّكْفُرُوْا بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ۚ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ١ؕ وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ
بِئْسَمَا : برا ہے جو اشْتَرَوْا : بیچ ڈالا بِهٖ : اسکے بدلے اَنْفُسَهُمْ : اپنے آپ اَنْ يَكْفُرُوْا : کہ وہ منکرہوا بِمَا : اس سے جو اَنْزَلَ اللہُ : نازل کیا اللہ بَغْيًا : ضد اَنْ يُنَزِّلَ : کہ نازل کرتا ہے اللہُ : اللہ مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنافضل عَلٰى : پر مَنْ يَشَآءُ : جو وہ چاہتا ہے مِنْ : سے عِبَادِهٖ : اپنے بندے فَبَآءُوْا : سو وہ کمالائے بِغَضَبٍ : غضب عَلٰى : پر غَضَبٍ : غضب وَ : اور لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے عَذَابٌ : عذاب مُهِیْنٌ : رسوا کرنے والا
اور جب آئی ان کے پاس ایک کتاب اللہ کے پاس سے مطابق ان پیشین گوئیوں کے جو ان کے ہاں موجود ہیں اور وہ پہلے سے کافروں کے مقابلے میں فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے، تو جب آئی ان کے پاس وہ چیز جس کو وہ جانے پہچانے ہوئے تھے تو انہوں نے اس کا انکار کردیا۔ پس ان منکروں پر اللہ کی پھٹکار ہے
کتاب سے یہاں مراد قرآن مجید ہے جو ان پیشین گوئیوں کی تصدیق کرتا ہوا نازل ہوا تھا جو اس کے بارے میں یہود کے صحیفوں میں وارد تھیں۔ اس پہلو سے قرآن کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا احسان خود یہود پر تھا کہ اس نے ان کے صحیفوں کی بہت سے باتوں کو سچا ثابت کیا۔ اس احسان کا حق تو یہ تھا کہ وہ سب سے آگے بڑھ کر اس کتاب عزیز کو ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ لیکن انہوں نے اس کو قبول کرنے کے بجائے ضد اور حسد کے سبب سے اس کی مخالفت کی راہ میں سبقت کی۔ قرآن مجید کو پچھلے صحیفوں کے مصدق کہنے کی حقیقت اسی سورہ کی آیت ۴۱ کی تفسیر میں ہم واضح کر چکے ہیں۔ قرآن اور نبی آخرالزمان ﷺ کی پیشین گوئیاں چونکہ یہود کے صحیفوں میں موجود تھیں اس وجہ سے ان کو ان پیشین گوئیوں کے ظہور کا بڑی شدت کے ساتھ انتظار تھا۔ ان کو امید تھی کہ جب اس نبی موعود کی بعثت ہو گی تو ان کی بدبختی اور مصیبت کے دن دور ہو جائیں گے اور اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ان کو ان کے تمام دشمنوں پر فتح دے گا۔ اس فتح کے لئے وہ دعائیں بھی کرتے تھے لیکن یہ عجیب بدقسمتی ہے کہ جب یہ پیشین گوئی پوری ہوگئی جس کا انتظار تھا وہ آ چکا اور اس کے کارناموں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ یہ وہی ہے جس کی علامتیں پچھلے صحیفوں میں بیان ہوئی ہیں اور یہود نے اس کو اچھی طرح پہچان لیا تو محض ضد اور حسد کی وجہ سے اس کا انکار کر دیا۔ یہود کے اس رویہ کو حضرت مسیح علیہ السلام نے دس کنواریوں والی تمثیل میں واضح فرمایا ہے جو متی کے باب ۲۵ میں منقول ہے۔
Top