Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ۔ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ ( اے لوگو ! کھاؤ ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں) جب قبائل ثقیف و خزاعہ و عامر بن صعصعہ و بنی مدلج نے اپنے اوپر بہت سی چیزیں جیسے حرث اور انعام اور بحیرہ اور سائبہ و حام و وصیلہ وغیرہ حرام کرلیے تو آیت : یَاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا الخ نازل ہوئی۔ حَلٰلًا طَيِّبًا (حلال اور ستھری) حَلالاً یا تو کُلُوا کا مفعول ہے یا مَا فِی الاْرض سے حال ہے اور مِمَّا فِی الاْرَْضِمیں مِن تبعیضیہ ہے جس کو شارع نے منع کیا ہو وہ حلال ہے کیونکہ اصل ہر شئے میں حلت ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہے : خَلَقَ لَکُم مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ( یعنی پیدا کیا تمہارے لیے جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب) وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ( اور نہ چلو شیطان کے قدموں پر) یعنی شیطان کی پیروی کرکے خواہش میں مت پڑو اور حلال کو حرام اور حرام کو حلال نہ بناؤ۔ ابو جعفر ابن عامر کسائی حفص اور یعقوب نے خطوات کو بضم طاء پڑھا ہے اور دیگر قراء نے طاء کو ساکن کرکے پڑھا ہے ضمہ طاء کے ساتھ ہو یا سکون کیساتھ ہر حال پر یہ لفظ خطوۃ کی جمع ہے اور خُطَوَۃٌ چلنے والے دونوں قدموں کی درمیانی مسافت کا نام ہے۔ یہاں خطوات سے مراد شیطانی راستے ہیں۔ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ( بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے) مُبِیْنٌ کے یا تو یہ معنی کہ اس کی عداوت اہل بصیرت کے نزدیک بہت ظاہر ہے اگرچہ بظاہر جس کو بہکاتا ہے اس سے دوستی جتاتا ہے اور اس دوستی جتانے ہی کے سبب آیت : اَوْلِیَآءُ ھُمُ الطَّاغُوْتُ میں اس کو ولی ( دوست) سے تعبیر کیا ہے اور یہ معنی کہ عداوت کو ظاہر کرنے والا ہے چناچہ آدم کے سجدہ کرنے سے صاف انکار کر گیا اور ان کو جنت سے نکلوایا اور قسم کھائی کہ آدم ( علیہ السلام) کی اولاد کو بہکاؤں گا۔ اَبَانَ ( ظاہ کیا) لازم و متعدی دونوں آتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ شیطان کی عداوت کو بیان فرماتا ہے۔
Top