Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Baqara : 168
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا١ۖ٘ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے النَّاسُ : لوگ كُلُوْا : تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : اور پاک وَّلَا : اور نہ تَتَّبِعُوْا : پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
لوگو ! جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
(168 ۔ 169) ۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبود حقیقی اور خالق مخلوقات ہونے کا ذکر فرما کر اس آیت میں اپنے رازق مطلق ہونے کا ذکر فرمایا ہے مشرکین مکہ نے اپنے رسم و رواج کے طور پر بعض جانوروں کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا مثلاً وہ جانورو جن کو وہ سانڈ کے طور پر یا اس کے کان چیر کر چھوڑ دیتے تھے یا وہ اونٹ کے نطفہ سے دس جھول بچوں کے پیدا ہوچکے ہوں یا اونٹنی کے پیٹ میں بعض بچوں کو مردوں کے لئے مخصوص ٹھہراتے تھے عورتوں کو وہ گوشت نہیں کھانے دیتے تھے سورة مائدہ اور انعام میں اس کا ذکر تفصیل سے آئے گا۔ اصل تو ان کی تنبیہہ میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی جو شخص جان دار یا غیر جان دار حلال چیز کو قسم یا نذر مان کر اپنے اوپر حرام ٹھہرائے یا حرام چیز کی طرح کام میں لائے تو وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے چناچہ ایک شخص نے مسروق تابعی کے زمانہ میں اپنے لڑکے کی قربانی کرنے کی ندر مانی تو انہوں نے بجائے اس لڑکے کے ایک بکری ذبح کرنے کا فتویٰ دیا اور کہا کہ شیطان کی پیروی جس کا ذکر اس آیت میں ہے ایسی ہی نذر ہے۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک روز پیوسی کا جما ہوا دودھ نمک سے کھا رہے تھے ایک شخص اور آگیا انہوں نے اس کو بھی دعوت دی اس نے انکار کیا۔ آپ نے پوچھا کیا تیرا روزہ ہے اس نے کہا نہیں میں نے اپنے جی سے عہد کرلیا ہے کہ میں پیوسی نہ کھاؤں گا آپ نے فرمایا جس شیطان کی پیروی کا آیت میں ذکر ہے وہ اسی طرح کی پیروی ہے صحیح مسلم میں عیاض بن حمار ؓ سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو چیزیں میں نے اپنے بندوں پر حلال کی تھیں۔ شیطان کے بہکانے سے وہ انہوں نے اپنے اوپر حرام کرلیں ہیں 1۔
Top