Tibyan-ul-Quran - Ibrahim : 13
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْاٰخَرِیْنَۚ
ثُمَّ دَمَّرْنَا : پھر ہم نے ہلاک کردیا الْاٰخَرِيْنَ : دوسرے
اور کافر لوگوں نے اپنے پیغمبروں سے کہا کہ ہم تم کو ضرور اپنے ملک سے نکال دیں گے یا ہمارے مذہب میں واپس آجاؤ۔ پس ان (پیغمبروں) پر ان کے پروردگار نے وحی فرمائی کہ ہم ضرور ان ظالموں کو ہلاک کردیں گے
(رکوع نمبر 3) اسرارومعارف واضح دلائل اور اتمام حجت کے بعد بھی کفار اپنے رویے سے باز نہ آئے بلکہ پہلے سے بہت بڑھ گئے اور اللہ جل جلالہ کے رسولوں سے کہنے لگے کہ بہتر یہ ہے کہ تم بھی ہمارے ہی عقیدے پر واپس آجاؤ یعنی ان کی نادانی کی حد یہ ہے کہ بعثت سے پہلے تو رسول کوئی دعوت نہیں دیتے تو انہوں نے گمان یہی کر رکھا تھا کہ شاید یہ بھی ہمارے ہی عقیدے پر ہیں ۔ (نبی کی ولایت) حالانکہ نبی قبل بعثت بھی کفر وشرک اور نافرمانی وسرکشی میں کبھی مبتلا نہیں ہوتا اور اس کے مزاج میں ایک خاص تقدس سمو دیا گیا ہوتا ہے جسے نبی کی ولایت کہا جاتا ہے اور اولیاء کی ولایت سے یہ اسی طرح شان ہوتی ہے جو اس کے ہر کام سے چھلکتی نظر آتی ہے ، مگر ان جاہلوں نے سمجھا کہ انہوں نے اب یہ نیا مذہب ایجاد کرلیا ہے لہذا بہتر ہے کہ پہلے والے اور ہمارے والے ہی پہ واپس آجاؤ ورنہ تمہیں ملک سے نکال باہر کریں گے ، ان کے اس جرم میں انہیں مہلت نہ دی گئی ، اور یہ بات تاریخی اعتبار سے بھی ثابت ہے کہ قوموں کی نافرمانیاں برداشت ہوتی رہیں ، مگر جب انہوں نے انبیاء کرام ﷺ سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا تو یہ گستاخی برداشت نہ کی گئی اور وہ تباہ کردیئے گئے ، اسی طرح اللہ جل جلالہ نے اپنے رسولوں کو اطلاع دی کہ یہ کس حیثیت کے مالک ہیں جو آپ لوگوں کو نکال سکیں گے ان کے اس جرم کی پاداش میں ہم ہی ان کو تباہ وبرباد کردیں گے اور تمہیں ماننے والوں کو اسی زمین پر آباد رہنے کا موقع عطا فرمائیں گے اور ہمارا یہ وعدہ نہ صرف تمہارے لیے ہے بلکہ ہر وہ شخص جو انبیاء پر ایمان لایا اور جسے قیامت اور آخرت کے خوف نے ہماری نافرمانی سے روک دیا ان سب کو اسی طرح زمین پر آباد رکھیں گے تو ایک طرح سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نام نہاد نیکی سے حکومت واختیار کے لیے اقتدار نصیب نہیں ہوتا ، بلکہ اعلی کردار کا ہونا شرط ہے اور اگر ملک میں کردار کی شرط اور ایسے افراد کی کثرت ہو تو اقتدار انہیں نصیب ہوتا ہے ورنہ پھر نام نہاد پارسا اور بدکردار دونوں ہی اسباب دنیا کے اسیر ہوجاتے ہیں وہ جیسے مہیا آگئے وہ اوپر چلا گیا اور اپنے لیے مزید گناہ کرنے کا موقع حاصل کرلیا یہ سب بات سن کر وہ لوگ بھی فیصلہ کے طالب ہوئے کہ اچھی بات ہے اگر ہمیں عذاب سے ڈراتے ہی ہو تو وہ عذاب لے ہی آؤ چناچہ عذاب الہی آیا اور ہر سرکش اور ضدی تباہ وبرباد ہوگیا ، اور یہ تباہی صرف دنیاوی ہلاکت پر بس نہ ہوجائے گی بلکہ اس کے بعد انہیں دوزخ میں جانا ہوگا جو اس قدر درد ناک جگہ ہے کہ جہاں پینے کو جو پانی دیا جائے گا وہ ایسا ہوگا جیسے خون اور پیپ مل کر سخت غلیظ آمیزہ سا بن گیا ہو اور دوزخیوں کو ان کی پیاس گھونٹ گھونٹ پینے پر مجبور کر دے گی جبکہ وہ سیال گلے سے اتارنا مشکل ہوجائے گا اور ہر سمت سے ایسے سخت اور درد ناک عذاب مسلسل آتے رہیں گے جو موت سے بھی بھیانک اور تباہ کرنے کے لیے کافی ہوں گے مگر دوزخ کے رہنے والے مر بھی نہ سکیں گے اور ایک کے بعد دوسرا عذاب پہلے سے شدید ترین ہوتا چلا جائے گا ، رہی یہ بات کہ اگرچہ ان لوگوں کو ایمان نصیب نہ ہوا مگر کچھ نہ کچھ بھلائی اور نیکی بھی تو کرتے رہے ہوں گے اور نیکی تو بہرحال نیکی ہے اس کا صلہ ہونا چاہئے تھا تو اے مخاطب سن کہ ان کی نیکیوں کے تنکوں کو ان کے کفر کی آندھیاں اڑا کرلے گئیں اور میدان حشر میں ان کے ہاتھ کچھ بھی نہ تھا سوائے کفر اور گناہوں کے کہ نیکی کی بنیاد ایمان پر ہے جب آخرت پر یقین ہو اور وہاں بدلہ پانے کی غرض سے نیک کام کیا جائے تو وہ درست لیکن جو لوگ آخرت کو مانتے ہی نہیں اگر وہ کوئی بھلائی کرتے بھی ہیں تو وہ محض بھلائی کی صورت ہوتی ہے جس سے دنیا کا نفع اقتدار یا شہرت یا دولت وغیرہ مراد ہوتا ہے جو کبھی انہیں مل بھی جاتا ہے اور بعض اوقات اس میں اتنا وزن بھی نہیں ہوتا کہ دنیا ہی کما سکے تو آخرت کے لیے تو وہ کرتا ہی نہیں کہ اس کے کفر نے اسے اس اللہ جل جلالہ سے محروم کردیا ہوتا ہے ، لہذا وہاں وہ خالی ہاتھ ہی کھڑا ہوگا کہ ایسے لوگ بہت سخت گمراہی میں مبتلا تھے ، یہ قانون قدرت تو تمہیں اس کی صنعت میں بھی نظر آئے گا خواہ زمینوں میں خیال کرو یا آسمانوں پر نگاہ ڈالو کہ جو شے جس مقصد کے لیے پیدا فرمائی ہے اس پر وہی پھل لگتا ہے لہذا کافر کا عمل بھی جس نیت سے تھا وہی پھل اس پر لگے گا اور یہ بات کہ آخرت میں دوبارہ زندہ ہونا تمہیں مشکل نظر آئے تو ارض وسما کی صنعت اس پر گواہ ہے کہ وہ ہر چیز پہ قادر ہے جو کچھ پہلے بنایا ہے تمہارے سمیت دوبارہ بنایا اس کی ذات کے لیے کچھ مشکل نہیں بلکہ وہ تو ایسا قادر ہے کہ آخرت سے پہلے بھی تمہیں تباہ کر دے اور تمہاری جگہ کوئی نئی مخلوق پیدا کر دے اس اس ذات کے لیے یہ سب بہت آسان ہے ۔ اللہ جل جلالہ کی نافرمانی اگر اس بھروسہ پر کی جائے کہ ہمارے پیشوا ہمیں اللہ جل جلالہ کے عذاب سے چھڑا لیں گے تو یہ بھی بہت بڑی غلطی ہے اور جو کچھ ہوگا وہ تمہیں اب بتا دیا جاتا ہے کہ بڑے چھوٹے سب بیک وقت میدان حشر میں اللہ جل جلالہ کی بارگاہ میں حاضر کھڑے ہوں گے اور کفار میں سے پیچھے چلنے والے اور کمزور لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ آج ہماری کچھ مشکل تو ضرور آسان کرو کہ ہم نے عمر بھر تمہاری غلامی کی اور تمہاری پیچھے چلتے رہے اب تمہیں چاہیے کہ ہم پر سے کچھ ہی سہی مگر عذاب الہی ہٹاؤ تو وہ کہیں گے تم پر سے کیا ہٹائیں کیا ہم خود گرفتار بلا نہیں ہیں ، ظاہر ہے جب ہم خود گمراہ تھے اور تمہیں بھی گمراہ کیا تو ہم بھی تو مبتلائے عذاب ہیں ، بھلا تمہارے کس کام آسکتے ہیں بلکہ ہمارا تمہارا حال اب یہ ہے کہ چلائیں یا صبر کریں کوئی بھی صورت عذاب ہیں بھلا تمہارے کس کام آسکتے ہیں بلکہ ہمارا تمہارا حال اب یہ ہے کہ چلائیں یا صبر کریں کوئی بھی صورت عذاب سے ذرہ برابر رہائی دلانے کی نہیں اور نہ اب خلاصی کی کوئی صورت ممکن ہے کفر پر خاتمہ ایک ابدی اور نہ ختم ہونے والی مصیبت کا نام ہے ۔
Top