Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 153
یَسْئَلُكَ اَهْلُ الْكِتٰبِ اَنْ تُنَزِّلَ عَلَیْهِمْ كِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدْ سَاَلُوْا مُوْسٰۤى اَكْبَرَ مِنْ ذٰلِكَ فَقَالُوْۤا اَرِنَا اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْهُمُ الصّٰعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ١ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذٰلِكَ١ۚ وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا
يَسْئَلُكَ : آپ سے سوال کرتے ہیں اَهْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اَنْ : کہ تُنَزِّلَ : اتار لائے عَلَيْهِمْ : ان پر كِتٰبًا : کتاب مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان فَقَدْ سَاَلُوْا : سو وہ سوال کرچکے ہیں مُوْسٰٓى : موسیٰ اَكْبَرَ : بڑا مِنْ ذٰلِكَ : اس سے فَقَالُوْٓا : انہوں نے کہا اَرِنَا : ہمیں دکھائے اللّٰهَ : اللہ جَهْرَةً : علانیہ فَاَخَذَتْهُمُ : سو انہیں آپکڑا الصّٰعِقَةُ : بجلی بِظُلْمِهِمْ : ان کے ظلم کے باعث ثُمَّ : پھر اتَّخَذُوا : انہوں نے بنالیا الْعِجْلَ : بچھڑا (گؤسالہ) مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : کہ جَآءَتْهُمُ : ان کے پاس آئیں الْبَيِّنٰتُ : نشانیاں فَعَفَوْنَا : سو ہم نے درگزر کیا عَنْ ذٰلِكَ : اس سے (اس کو) وَاٰتَيْنَا : اور ہم نے دیا مُوْسٰى : موسیٰ سُلْطٰنًا : غلبہ مُّبِيْنًا : ظاہر (صریح)
(اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں کہ تم ان پر ایک (لکھی ہوئی) کتاب آسمان سے اتار لاؤ۔ تو یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بڑی درخواستیں کرچکے ہیں (ان سے) کہتے تھے ہمیں خدا ظاہر (آنکھوں سے) دکھا دو۔ سو ان کے گناہ کی وجہ سے انکو بجلی نے آپکڑا۔ پھر کھلی نشانیاں آئے پیچھے بچھڑے کو (معبود) بنا بیٹھے تو اس سے بھی ہم نے درگزر کی۔ اور موسیٰ کو صریح غلبہ دیا۔
(153) کعب اور اس کے ساتھی توریت کی طرح ایک نوشتہ کی درخواست کرتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ ان پر ایسی کتاب نازل کردی جائے جس میں ان کی خیر وشر ثواب و عذاب و دیگر اعمال سب کچھ ہو، آپ سے جو سوال کرتے ہیں، اس سے بڑھ کر انہوں نے حضرت موسیٰ ؑ سے سوال کیا تھا، مگر حضرت موسیٰ ؑ کی تکذیب کی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے ڈھٹائی اور جرأت کرنے کی وجہ سے ان کو آگ نے جلا دیا۔ مگر ان اوامرو نواہی کے آجانے کے باوجود انہوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی، مگر اس زیادتی کے باوجود ہم نے معاف کیا اور ان کا خاتمہ نہیں کیا اور حضرت موسیٰ ؑ کو تائید حق کیلئے ہم نے یدبیضاء اور عصا کا معجزہ دیا تھا۔ شان نزول : (آیت) ”۔ یسئلک اھل الکتب“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے محمد بن کعب قرطی ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ موسیٰ ؑ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے الواح لے کر آئے، آپ بھی ہمارے پاس الواح لائیں، تاکہ ہم آپ کی تصدیق کریں، اس پر (آیت) یسئلک۔ سے لے کر بھتانا عظیما“۔ تک یہ آیات نازل ہوئیں تو ان یہودیوں میں سے ایک شخص گھٹنوں کے بل گرپڑا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ پر اور کسی پر کوئی چیز نازل نہیں کی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ”وما قدرواللہ حق قدرہ“۔
Top